کسی بھی ملک و قوم کی طاقت کا ایک اہم پیمانہ اس کے لوگوں میں پایا جانے والا Homogeneity Index کہلاتا ہے۔سادہ لفظوں میں یہ عوام کے اندر پائی جانے والی یگانگت ‘یکسوئی اور جذبہ حب الوطنی ہوتا ہے۔اسی کی ایک طرز قومی دھارا کہلاتی ہے۔اس سے یہ طے کیا جاتا ہے کہ کسی بھی قوم کی سوچ کا بہائو کیسا ہے اور کس جانب ہے۔ اسی لئے انگلش میں اس کو Mainstream کہا جاتا ہے ۔اس کے لئے لفظ مرکزی دھارا بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔اس کے لئے آپ کو یہ جاننا ضروری ہے کہ کوئی بھی بڑا دریاکئی چھوٹے دریائوں اور بہت سے ندی نالوں کا پانی شامل ہونے سے بنتا ہے۔ان مسلسل پانی شامل کرنے والے ذرائع کو Tributaries کہا جاتا ہے ۔یہ جھرنے ‘ندیاں اور نالے بڑے دریا میں شامل ہونے کے بعد اپنی قدرے مختلف شناخت اور رنگ‘ دریا میں ضم ہونے کے بعد دریا کی طرح کر لیتے ہیں ۔مثال کے طور پر اگر کسی ندی کا پانی قدر گدلا ہے تو بڑے دریا میں وہ باقی صاف پانی کی وجہ سے صاف نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔
اب آجائیں کسی قوم کی طرف تو وہ جن امور اور عوامل کی وجہ سے تقسیم ہوتی ہے ان میں سب سے بڑا فیکٹر مذہب ہوتا ہے ‘اسی طرح زبان ‘نسل ‘علاقہ ‘برادری ‘ عورت کا مقام اورسیاسی سوچ ہوتے ہیں۔اب بات کچھ یوں بنتی یا بگڑتی ہے کہ کوئی بھی قوم ان خطوط اور امور میں کس حد تک یکسانیت رکھتی ہے کیونکہ اسی کی بنیا د پر اس کی قوت بنتی ہے۔اس کی سب سے نمایاں اور انتہائی منفرد مثال امریکہ ہے جہاں دنیا کی تمام اقوام کے لوگ اپنے مذہب ‘نسل اور زبان کی شناخت کو پس پردہ رکھ کرصرف امریکی کے طور پر رہتے ہیں اور اس ملک کے زندہ ہونے کا باعث بنتے ہیں اسی لئے امریکہ کو ایک Melting Pot کہا جاتا ہے ‘یعنی امریکہ ایک ایسا کھٹالی ہے جس میں شامل ہونے کے بعد ہر مقامی اور ذاتی پہچان پگھل جاتی ہے اور دنیا کے تمام علاقوں کے لوگ ایک امریکی طرز کی زندگی میں ڈھل جاتے ہیں یا ڈھلنا پڑتا ہے۔اسی بنا پر امریکہ کو Nation of the Nationsبھی کہا جاتا ہے ۔امریکہ اس سلسلے میں مسائل کا سامنا بھی کرتا ہے ‘جیسے آج کل وہاں کالے اور گورے رنگ کی تقسیم کی بنیاد پرایک تحریک نما تقسیم چل رہی ہے۔اسی طرح تشدد کے بہت سے واقعات کی وجہ سے چینی نسل کے لوگ مسائل کا شکار ہیں اور انہوں نے ''ایشیا سے نفرت بند کرو‘‘تحریک شروع کر رکھی ہے۔اس کے لئے امریکی حکومت کو خاص اقدامات بھی کرنے پڑے ہیں۔
امریکہ کے بالکل برعکس ایک ملک کو اس یگانگت کی بجائے منافرت کا سامنا ہے ‘جہاں مذہب ‘زبان ‘نسل ‘علاقائی پہچان‘عورت کا مقام اور سب سے بڑھ کر سیاسی علیحدگیوں کا سامنا ہے اسی وجہ سے اس ملک کا Homogenity Indexدنیا کے خراب ترین ملکوں میں آتا ہے اور یہ کوئی اور نہیں ہمارا ازلی دشمن اور ہمسایہ بھات ہے ۔آپ اس ملک کے ناموں سے ہی اندازہ لگا لیں ‘بھارت‘انڈیا یا ہندوستان۔ دنیا میں کسی بھی ملک کے اتنے نام نہیں ہیں جو بیک وقت لکھے اور بولے جاتے ہیں ۔ عالمی ماہرین کے اندازوںکے مطابق انڈیا اس اندرونی خلفشار سے مجرمانہ غفلت برتتے ہوئے عالمی سطح کے تنازعات میں اپنی حد اور قد سے کہیں زیادہ منفی طریقے سے استعمال ہونے کی وجہ سے Cut to Sizeپالیسی کی وجہ سے تقسیم در تقسیم ہونے کے در پہ ہے ۔
اب بات کرتے ہیں بر اعظم ایشیا کی تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی 55فیصد آبادی والے اس خطے میں ہر طرح کی تقسیم نظر آتی ہے۔ یہ دنیا کا واحد براعظم ہے جہاں پر ابھی تک خاندانی بادشاہت قائم ہے ‘اسی طرح فوجی حکومتوں کا بننا‘شخصی و خاندانی جمہوریت ‘آمرانہ جمہوریت ‘معاشرے میں عورت کا مقام اور درجہ ‘کمیونزم اور کیپٹل ازم کی تقسیم اور سب سے بڑھ کر اداروں کی بجائے شخصی پالیسیاں پائی جاتی ہیں ۔آپ ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہوں تو معاشی ‘سیاسی اور سماجی طور پر آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ ایک نئی دنیا میں آگئے ہیں۔اس کو آپ نئی یا مختلف کی بجائے متضاد دنیا بھی کہہ سکتے ہیں۔اس تفریق کی مثالیں بے شمار اور انتہائی شدید ہیں ۔آپ خاندانی بادشاہت اور مذہبی رنگ کی سیاست والے علاقے مشرق وسطیٰ کا جائزہ لے لیں جہاں ایک ملک میں اگر عورت کا بغیر پردہ کے باہرنکلنا منع ہے ‘شراب نوشی پر پابندی ہے تو دوسرے ملک کی سرحد پار کرتے ہی آپ کو جوا خانے‘ میوزک شو ‘مرد وعورت کا ہر طرح کا میل جول سمیت سب کچھ مغربی طرز کا میسر ہو گا۔ سب سے بڑھ کر ایران اور سعودیہ میں پائی جانے والی کشمکش اور نیم گرم جنگ کی بنیادی وجہ صرف مسالک کی تقسیم ہے۔اسی قسم کے تضادات اور تقسیم ہی وہ وجوہات ہیں کو پورے ایشیا کے 80 فیصد سے زائد ممالک میں کوئی نہ کوئی تنازع یا مشکل پائی جاتی ہے۔اسی طرح اگر آپ مسلم ممالک کی بات کریں تو 90 فیصد کسی نہ کسی اندرونی ‘بیرونی یا پھر دونوں طرح کے مسائل کا شکار ہیں ۔مسلم ممالک میں یہ تفریق ‘تقسیم اورتنازعات روس ٹوٹنے کے بعد امریکی جارحانہ و ظالمانہ سوچے سمجھے منصوبے کی بدولت ہیں جو اس نے وار آن ٹیرر کے نام سے حملوں اور سازشوں سے تاحال جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
اب ایک اور مثالی دنیا کی طرف چلتے ہیں ‘ یہ یورپ ہے ۔اس ترقی یافتہ خطے میں سوائے مختلف زبانوںکے دنیا کی اور کوئی بھی تقسیم یا تفریق کا رتی برابر مادہ بھی نہیں پایا جاتا۔اس خطے میں کوئی بڑا تنازع بھی نہیں پایا جاتا ۔اگر کوئی سپین جیسی سیاسی تحریک چلتی بھی ہے تو اس میں کوئی تشدد کا پہلو نہیں پایا جاتا۔اس براعظم میں سیاسی نظام جمہوریت ہی ہے اور وہ بھی خالص جمہوریت نہ کہ خاندانی یا شخصی ۔اس کے بعد تمام ممالک میں سرمایہ دارانہ طرز کا معاشی نظام پایا جاتا ہے۔عورت کا مقام اور رتبہ بالکل ایک جیسا ہے ‘تمام ریاستوں میں سیکولر طرز کی سوچ یکساں طور پائی جاتی ہے۔اسی طرح کسی بھی ملک کی عدالتیں غیر مؤثر ہونے کا کوئی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔یہی وجہ ہے کہ وہاں کے لوگ ویزے کی بندش سے آزاد ایک وقت میں دس سے زائد ملکوں میں صرف گھوم پھر ہی نہیں سکتے بلکہ تجارت‘ملازمت اور دیگر امور بھی انجام دے سکتے ہیں ۔بے شمار چھوٹے ممالک تو ایسے بھی ہیں جہاں صرف سڑک پر لگی ہوئی ایک لکیر دو ملکوں کو علیحدہ کرتی ہے اور سب سے بڑھ کر وہاں کوئی فوجی تو در کنار پولیس کا سپاہی بھی کھڑا نہیں ہوتا۔پاکستان جیسے ممالک سے جانے والے کسی بھی مذہب‘مسلک اور کسی بھی سیاسی خیالات کے لوگ وہاں پر جاکر مقامی رنگ میں ڈھل کر ایک قانون کی پاسداری والے شہری بن جاتے ہیں ۔
اب بات پھر ایشیا کی جہاں اس طرز کی زندگی کو پروان چڑھانے کی ضرورت اس لئے ناگزیر ہے کیونکہ اس کے بغیرامن نہیں ہوسکتا اور اگر امن میسر نہ ہو تو سب وسائل اور ذرائع جنگوں اور جھگڑوں کی بھینٹ چڑھ جایا کرتے ہیں ‘جس طرح اس خطے میں چڑھ رہے ہیں ۔اس سلسلے میں ایک امید یا اس طرح کی ترقی کا انجن چین کی شکل میں میسر آچکا ہے‘اس سپر پاور کی سربراہی میں شنگھائی تعاون تنظیم بھی بن چکی ہے جس میں سوائے بھارت کے دیگر آٹھ ممالک قدرے یکسو نظر بھی آرہے ہیں مگر اس رفتار کو نہ صرف بڑھانے کی ضرورت ہے بلکہ صرف چین پر انحصار کرنے کی بجائے اس کے ممبر ممالک کو اپنے طور پر بھی اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی ضرورت ہے ۔جو پاؤں پر کھڑا ہو جائے وہ چلنا ضرور شروع کر دیتا ہے اور جو چلنا شروع کردے اس کو دوڑنا بھی سکھایا جا سکتا ہے۔تو ضروری ہے کہ تعلیم اورانصاف کے نظام کے تحت عالمی دھارے میں شامل ہوا جائے ورنہ اس دھارے کی کاٹ ایک تیز دھار آلے کی طرح بہت تیز ہوتی ہے جو کاٹ کر تقسیم کر دیتی ہے اور تقسیم شدہ قومیں دوڑنے یا چلنے کی بجائے بمشکل رینگ سکتی ہیں۔