گلی محلے کی کرکٹ اور خراب فیلڈنگ

''وہ کیچ نہیں گرا‘ میچ گرا، اور میچ ہی نہیں کپ بھی ہاتھ سے نکل گیا‘‘۔
ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا میچ کے آخری لمحات میں چھوٹنے والے ایک کیچ کے حوالے سے یہ سب سے مختصر اور اچھا تبصرہ مانا جا رہا ہے۔ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا میلہ ختم ہو چکا ہے اور ٹیم پاکستان کے باہر ہونے کے بعد‘ جیسے توقعات ظاہر کی جا رہی تھیں‘ ان کے عین مطابق آسٹریلیا پہلی بار ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ جیتنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اگر آپ کرکٹ کے میچز دیکھتے ہیں تو آپ نے غور کیا ہو گا کہ جنوبی ایشیا کی ٹیموں کی فیلڈنگ انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کی ٹیموں کے مقابلے میں زیادہ اچھی نہیں ہوتی۔ اس پر کسی ماہر کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کی ٹیمیں گیند کا اپنی طرف آنے کا انتظار کرتی ہیں جبکہ دیگر ملکوں کے کھلاڑی خود گیند کی طرف لپکتے ہیں۔ ان دونوں چیزوں میںلمحات کا جو فرق آتا ہے‘ اتنے ہی فرق سے وہ کیچ چھوٹا تھا۔ اب آپ اپنے طور پر سوچئے اور کھوج لگائیے کہ عمومی طور پر ہمارے کھلاڑیوں کی فیلڈنگ اتنی خراب کیوں رہتی ہے؛ تاہم اس سے پہلے ہم چلتے ہیں ایک اور پہلو کی طرف‘ جس سے آپ کا ٹیم کے کھلاڑیوں پر‘ اگر کوئی غصہ ہے‘ تو وہ ختم ہو جائے گا اور پاکستان کے ٹورنامنٹ کے فائنل تک نہ پہنچنے کا غم بھی غلط ہو جائے گا۔
اس بات کو سمجھنے کیلئے ہمیں زندگی کے ایک اور پہلو کی طرف دیکھنا ہو گا۔ آپ کو گاڑی چلانا آتی ہو گی، اگر اب تک اس کا موقع نہیں ملا تو کم از کم آپ موٹر سائیکل تو چلا ہی لیتے ہوں گے۔ اب اس بات پر غور کریں کہ ڈرائیونگ آپ نے کہاں سے سیکھی؟ یقینی جواب ہو گا کہ گلی‘ محلے میں سائیکل‘ موٹر سائیکل چلا کر۔ ابتدا میں سائیکل‘ موٹر سائیکل کی سواری سے گر جانا یا چھوٹا موٹا ایکسیڈنٹ ہو جانا زیادہ بڑی بات نہیں۔ جب اس معاملے کو آگے بڑھاتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ہم تو گاڑی چلانا بھی اسی طرح سیکھتے ہیں۔ پہلے کسی گرائونڈ یا میدان میں جا کر گاڑی چلاتے ہیں‘ پھر کسی چھوٹی اور خالی سڑک پر اور اسی طرح بتدریج بڑی شاہراہوں پر گاڑی چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ اب اس دوران کوئی غلطی ہو جانا اور گاڑی کسی سے ٹکرا جانا ایک عام بات ہے۔ اگرچہ شہروں میں ہر جگہ ڈرائیونگ سکھانے کے تربیتی مراکز قائم ہیں مگر تاحال زیادہ تر لوگ اب بھی کسی دوست‘ کسی عزیز کے ساتھ بیٹھ کر ہی گاڑی چلانا سیکھتے ہیں۔ اگر بات کریں موٹر سائیکل کی تو اس کی ڈرائیونگ سکھانے کے بھی مراکز موجود ہیں، مگر ہم خود سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود سے سیکھنے کے دوران ہونے والی غلطیوں اور نقصان کو trial and error learning کہا جاتا ہے۔
البتہ خودسے ڈرائیونگ یا دیگر کوئی بھی چیز سیکھنے کے عمل میں کچھ کمیاں اور خامیاںرہ جاتی ہیں جو تقریباً پوری زندگی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ڈرائیونگ کے سلسلے میں رہ جانے والی خامیاں یہ ہوتی ہیں کہ سب سے پہلے‘ ہمیں سیٹ بیلٹ باندھنے کی عادت نہیں پڑتی، یہ کام اب ٹریفک پولیس نے چالان اور جرمانوں کی مدد سے ہمیں سکھانا شروع کیا ہے۔ اس کے بعد‘ ہمیں دائیں اور بائیں مڑتے ہوئے انڈیکیٹر یعنی اشارے چلانے کی عادت نہیں ہوتی کیونکہ ہمیں شروع میں یہ سکھایا ہی نہیں جاتا۔ ہم اندازے سے موڑ مڑتے ہیں‘ یہاں تک کہ کئی دفعہ تو ہاتھ سے اشارہ کرکے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر ہم کسی جگہ گاڑی کھڑی کرکے پارکنگ لائٹس آن کرنے کے عمل سے تقریباً نا آشناہوتے ہیں۔ اسی طرح ہم شہر کے اندر گاڑی چلاتے ہوئے بڑی یعنی ہیڈ لائٹس چالو کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے سامنے سے آنے والی گاڑی کا ڈرائیور آگے دیکھنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ آج کل اس حوالے سے ایک نئی مشکل سفید روشنی والی لائٹس کا فیشن ہے جو سامنے والے کی دیکھنے کی صلاحیت کو بہت حد تک متاثر کرتی ہیں۔
باقی باتیں بعد میں‘ اب ایک نیا عفریت بڑے شہروں بالخصوص لاہور میں جنم لے چکا ہے اور یہ ہے زیادہ پاور والی بڑی موٹرسائیکلوں کا۔ یہ موٹر سائیکلیں دو سو سی سی سے بھی زیادہ پاور کی ہیں۔ یہ بنیادی طور پر ریس لگانے والی موٹر سائیکلیں ہیں جو شہر کی سڑکوں پر سو کلو میٹر سے بھی زیادہ رفتار سے چل رہی ہوتی ہیں۔ یہ سپیڈ قانونی طور پردرست نہیں ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات رات کے وقت ان موٹر سائیکلوں کا قدرے خالی سڑکوں پر چلنا اورآدھی رات کے بعد سے غولوں اور گروہوں کی شکل میں سڑکوں پر آ کر قانون کا مذاق اڑانا ہے۔ ان موٹر سائیکلوں کے حوالے سے سب سے زیادہ خطرناک بات ان کا وہ شور ہے جو نہ صرف قریبی علاقوں بلکہ ایک کلومیٹر تک کے فاصلے تک سنائی دیتا ہے۔ ستم یہ ہے کہ ان موٹر سائیکلوں کو چلانے والے اس مخصوص آواز کو ''سٹیٹس سمبل‘‘ سمجھتے ہیں اور جب تک یہ شدید شور پیدا نہ ہو‘ وہ اپنی بائیک کو مکمل تصور نہیں کرتے۔ ایک طرف تو یہ موٹر سائیکلیں سپیڈ کی حد کا تمسخر اڑاتی ہیں تو دوسری طرف ان کا شورصوتی آلودگی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس سلسلے میں شہریوں کا کہنا ہے کہ رفتار نہ سہی‘ کم از کم ان کے شور سے تو نجات دلائی جائے اور نصف شب کے بعد ان بائیکس کے سڑکوں پر نکلنے پر پابندی لگائی جائے تاکہ مہنگائی، کورونا، ڈینگی اور سموگ کے خوف میں مبتلا لوگ چین کی نیند سو سکیں۔
اب کرکٹ کی طرف واپس چلتے ہیں‘ بات ہو رہی تھی ہماری خراب فیلڈنگ کی یا ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کم معیار کی فیلڈنگ کی‘ تو آپ سے کالم کے آغاز پر ایک سوال کیا گیا تھا۔ اگر آپ نے کچھ اندازہ لگایا ہے تو ٹھیک وگرنہ ڈرائیونگ سیکھنے کے طریقوں سے آپ کو کچھ اندازہ ہو گیا ہو گا؛ تاہم یہ تصور ابھی ادھورا ہے؛ اس سوال کا دلچسپ اور اہم جواب یہ ہے کہ ہمارے زیادہ تر کھلاڑی کھیلوں کا آغاز گلی محلے سے کرتے ہیں۔ اب تو ایسے کھلاڑیوں کے لیے باقاعدہ طور پر Street Players کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں فٹ بال کے بچوں کا ایک عالمی ٹورنامنٹ بھی منعقد ہو چکا ہے جس میں پاکستان کے نو عمر کھلاڑیوں نے بھی شرکت کی تھی اور نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ گلی محلے کی کرکٹ میں بیٹنگ اور بائولنگ کاموقع تو مل جاتا ہے مگر تیسرے اہم شعبے‘ جو فیلڈنگ کا ہوتا ہے‘ کی نوبت کم کم ہی آتی ہے، اور اگر آتی بھی ہے تو کوئی کھلاڑی ڈائیو (Dive) نہیں کر سکتا۔ اگر بچے کسی میدان میں جا کر کھیلیںتو وہاں بھی نرم گھاس تو کجا اکثر اوقات گھاس ہی نہیں ہوتی بلکہ زیادہ تر پتھریلی زمین والا میدان ہوتا ہے جس پر ڈائیو کرنا اپنے آپ کو زخمی کرنے کے مترادف ہوتا ہے‘ اسی لئے ہمارے کھلاڑی فیلڈنگ کرتے ہوئے گیند کو روکنے کیلئے زمین پر چھلانگ لگانے سے کتراتے ہیں۔ فیلڈنگ کے حوالے سے کرکٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ اچھی فیلڈنگ کرنے والی ٹیمیں ایک اننگز میں دس سے پندرہ سکور بچا لیتی ہیں، اگر کوئی مشکل کیچ‘ وہ بھی کسی بڑے کھلاڑی کا‘ پکڑ لیا جائے تو بچائے جانے والے سکور کی تعدا د پچاس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایک دفعہ ایک پاکستانی کپتان نے کہا تھا کہ مجھے ایسا وکٹ کیپر نہیں چاہیے جو خود بیٹنگ کرتے ہوئے سکور تو اچھا کرلے مگر فیلڈنگ کرتے ہوئے کسی ایسے کھلاڑی کا کیچ چھوڑ دے جو بعد میں سینچری کر جائے۔
کھیلوں کو فروغ دینے اور دوسری ٹیموں کے مقابلے تک آنے کے لیے ہمیں اچھے کھیلوں کے میدان چاہئیں جن میں اچھی گھاس اگی ہو، تا کہ بائولنگ اور بیٹنگ کے ساتھ ساتھ ہمارے سٹریٹ پلیئرز کی فیلڈنگ بھی اچھی ہو سکے۔ اب یہ بات آپ سے بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ سیمی فائنل میں حسن علی کے چھوڑے ہوئے کیچ میں اس کا زیادہ قصور نہیں ہے کیونکہ ہم سب گلی محلوں میں کرکٹ کھیل کر سیکھتے ہیں اور ایسے کھلاڑیوں کی فیلڈنگ خراب ہی ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں