برطانیہ‘ برصغیر اور داستانِ بربادی

'برصغیر پر برطانوی راج‘ تباہی کا دور تھا یا ترقی کا‘ کے عنوان سے جاری سیریز کا یہ تیسرا کالم ہے۔ اب تک کے حقائق سے یہی ثابت ہو رہا ہے کہ ترقی کا لفظ گورے کا اپنا شوشہ ہے جس کو مٹھی بھر ریٹائرڈ افسراپنی باتوں اور کتابوں کے ذریعے آج بھی اپنے آقائوں کو خوش کرنے اور انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے عوام کے ذہنوں پر مسلط کرتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ کالم میں یہ تلخ حقیقت بیان ہوئی تھی کہ برطانیہ کے ہاتھوں اس خطے کی تباہی اب بھی جاری ہے‘ اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ برطانیہ کا چھوڑا ہوا افسر شاہی کا نظام اب بھی انہی خطوط پر جاری ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اب یہ نظام اپنی انتہائی بگڑی ہوئی شکل میں ہم پر مسلط ہے۔ پورا سسٹم چند افراد کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔اگر آپ کو یاد ہو تو چین نے جب سے پاکستان میں مختلف پروجیکٹس شروع کیے ہیں‘ اس دوران اس کے متعدد افراد بھی یہاں ہلاک ہوئے ہیں مگر اس نے کبھی شکایت نہیں کی مگر بیورو کریسی اور سرخ فیتے کا شکار ہو کر شکوہ ہی نہیں بلکہ نواز شریف دور میں باقاعدہ شکایت بھی کی گئی تھی اور یہ شکایات شہ سرخیوں کے طور پر اخبارات میں شائع بھی ہوئی تھیں مگر کوئی قابلِ ذکر ایکشن تو در کنار‘ کسی سرزنش کی بھی خبر نہیں آئی تھی۔ تعلیم اور کورسز کے نام پر بیرونِ ملک مہینوں نہیں‘ سالوں کے حساب سے سرکاری خرچ پر پُر تعیش دوروں کا اہتمام ابھی تک جاری ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سینکڑوں افسران مغربی ممالک کی شہریت حاصل کر چکے ہیں اور ان کی نوکری کاسلسلہ بھی جاری ہے۔ اس سے ہٹ کر اگر برطانیہ کی ہمارے معاملات میں عمل دخل کا مزید ثبوت دیکھنا ہو تو ایک لسانی جماعت کے ایک سابق سرپرست کی مثال ہمارے سامنے موجود ہیں کہ کیسے سات سمندر پار بیٹھ کر ملک کی سلامتی کے خلاف باتیں کی گئیں اور متعدد درخواستوں کے باوجود ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہو سکی بلکہ موصوف پورے 'وزن‘ کے ساتھ آج بھی برطانیہ کی حفاظت اور پناہ میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے زیادہ تر کرپٹ بھگوڑے آج بھی برطانوی سرزمین کو اپنے لیے جنت سمجھتے ہیں۔ دنیا بھر سے لوٹ مار کر کے لندن میں جائیدادیں بنائی جاتی ہیں اور پھر برطانیہ کو ہی اپنا مستقل ٹھکانا بنا لیا جاتا ہے۔
واپس چلتے ہیں برطانیہ کے بر صغیر کو برباد کرنے کی طرف‘ اس حوالے سے ہمیں لکھنے اور بولنے والوں کی رائے کے بجائے عالمی ماہرین کی لکھی ہوئی کتابوں اور شائع ہونے والی رپورٹس سے تمام حقائق مل جاتے ہیں۔ سب سے پہلے ذکر برصغیر آنے والے تاجِ برطانیہ کے سب سے پہلے نمائندے Thomas Roe کا‘ جو چار سال کی مسلسل کوششوں کے بعد مغل بادشاہ اورنگزیب سے ملاقات کر پایا تھا۔ اس نے جو خط برطانوی بادشاہ کو لکھے وہ کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان خطوط کو پڑھنے سے ہی بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس وقت برصغیر اور برطانیہ کی معاشی صورت حال میں کتنا زیادہ تفاوت تھا۔ تھامس روئے نے لکھا کہ جب میں بادشاہ (اورنگزیب) کے محل میں داخل ہوا تو میں مغل بادشاہ کے محل کے شاہانہ ٹھاٹ دیکھ کر اس قدر حیران رہ گیاکہ میں نے ڈر کے سبب برطانوی بادشاہ کا دیا ہوا تحفہ مغل بادشاہ کو دیا ہی نہیں۔ (مطلب برطانوی بادشاہ کا تحفہ مغل بادشاہ کی شان و شوکت کے حساب سے انتہائی حقیر تھا)برصغیر کے سونے کی چڑیا ہونے کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ نوآبادیاتی نظام کی عالمی دوڑ میں یہ واحد علاقہ تھا جس پر قبضے کیلئے پرتگالیوں، ولندیزیوں (ڈچ) اور برطانیویوں کی آپس میں لڑائیاں بھی ہوئیں۔ یہاں ایک تاریخی حقیقت کا ذکر بھی ضروری ہے‘ وہ یہ کہ فرانس کا حکمران نپولین برطانیہ اور اس کے حکمرانوں کے سخت خلاف تھا۔ وہ برطانیہ کو''نیشن آف شاپ کیپرز‘‘ یعنی دکانداروں کی قوم کہا کرتا تھا۔ اس نے سلطان ٹیپو سے نہ صرف خط و کتابت کی بلکہ سلطان کی فوج کی تربیت کے لیے اپنے فوجی ماہرین بھی بھیجے تھے، البتہ اپنی محدود عسکری سکت کے باعث وہ اپنے بحری بیڑے سلطان ٹیپو کی مدد کے لیے نہیں بھیج سکا تھا۔ اب بات اس دعوے کی جو برطانوی بڑے فخر سے کرتے ہیں کہ انہوں نے اس خطے کو عالمی سطح پر بولی جانے والی زبان‘ یعنی انگلش دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگلش عالمی زبان کے طور پر دنیا کی سب سے بڑی زبان ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ انہوں نے یہ زبان بر صغیر کے کتنے فیصد لوگوں کو سکھائی ؟اس سوال کا جواب جاننا بہت آسان ہے۔ جب گورے یہاں سے گئے تھے تو اس خطے کی شرحِ تعلیم بیس فیصد سے بھی کم تھی۔ مزید یہ کہ اس وقت کسی بھی مقامی زبان میں اپنا نام لکھ‘ پڑھ سکنے والے کو بھی خواندہ گنا جاتا تھا اور یہ وہی دور ہے جب لوگ اپنے دستخط کے ساتھ ''بقلم خود‘‘ بھی لکھا کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ دستخط کرنے والا لکھنا جانتا ہے۔ اب سوال یہ کہ اگر صرف بیس فیصد لوگ مقامی زبان میں لکھ‘ پڑھ سکتے تھے تو پھر انگریزی جاننے والوں کی شرح کتنی ہو گی؟ ظاہر ہے کہ یہ نہ ہونے کے برابر ہی تھی۔ قصہ یہ ہے کہ انگریز نے صرف ایک مخصوص کلاس کیلئے اس زبان کی تعلیم کا اہتمام کیا تھا‘ اور اس کا مقصد اپنے لیے ترجمہ کرنے والے اور دفتر میں سٹاف کے طور پر کام کرنے والوں کا بندوبست کرنا تھا۔ اس کلاس کو Buffer Class بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں آسانی کیلئے ایک مشاہدہ بیان کرتا چلوں۔ آپ نے اکثر دیکھا اور سنا ہو گا کہ انڈین بالخصوص ہندو بہت اچھی انگلش بولتے ہیں۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے، جب گورا یہاں آیا تو مسلمانوں نے اس کی چیزوں کو اپنانے میں نہ صرف ہچکچاہٹ محسوس کی بلکہ وہ باقاعدہ مخالفت کرتے تھے لیکن ہندوئوں نے اس سب کو بخوشی اس لیے قبول کر لیا تھا کہ پہلے وہ مسلم حکمرانوں کی اطاعت میں عربی‘ فارسی وغیرہ سیکھ رہے تھے‘ اب وہ چاہتے تھے کہ مسلم حکمرانوں سے ان کی جان چھوٹے‘ بھلے گورے کی حکمرانی میں چلے جائیں۔ اس کے علاوہ گورے نے یہاں مصلحت کے تحت مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوئوں کے ساتھ نرم گوشہ ظاہر کیا‘ جس کا سلسلہ آخری دم تک جاری رہا۔ باقی رہی بات انگلش زبان مکمل طور پر جاننے والوں کی تعداد کی‘ تو یہ کبھی بھی قابلِ ذکر نہیں رہی‘ اس لیے گورے کا یہ دعویٰ محض دعویٰ ہی ہے۔
اب بات عالمی شہرت رکھنے والے برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل کی‘ جس نے برصغیر کو لوگوں کے متعلق کہا تھا: Beasty People۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی‘ اس نے اس خطے کو لوگوں کے عقائد پر بھی انتہائی متعصبانہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان لوگوں کے دھرم Beasty ہیں۔ یہاں پر یہ امر ذہن نشیں رہنا چاہیے کہ اسی خطے سے دنیا کے تین بڑے مذاہب‘ ہندو مت‘ بدھ مت اور سکھ مت کا جنم ہوا تھا۔ اسلام اس خطے میں صوفیہ کے ذریعے پھیلا تھا جبکہ گورے نے اپنے مذہب کے پھیلائو کیلئے یہاں منظم اہتمام کیا تھا۔ غریب لوگوں کو مختلف ترغیبات دے کر ان کا مذہب بدلا جاتا تھا۔ آخر میں بات کرتے ہیں تحریک آزادی کے ایک سکھ مجاہد 'اُدھم سنگھ‘ کی جس نے برطانیہ میں جلیانوالہ باغ کے مرکزی کردار جنرل ڈائر کو قتل کیا تھا۔ جب اس سے اس کا نام پوچھا گیا تو اس نے اپنا نام ''رام محمد سنگھ‘‘ بتایا۔ یہ دراصل ہندوستان کے تینوں بڑے مذاہب کی نمائندگی تھی۔ (کچھ لوگ اسے کو بھگت سنگھ سے بھی منسوب کرتے ہیں جو درست نہیں) ، جب ادھم سنگھ برطانوی عدالت میں پیش ہوا تو جج نے پوچھا کہ تم انگریزوں کی حکمرانی کے خلاف کیوں ہو حالانکہ تم لوگوں پر مسلمانوں نے بھی سینکڑوں سال حکومت کی تھی۔ اس نے اس سوال کا جوا جواب دیا‘ وہ ہمارے موضوع کے دریا کو کوزے میں بند کرتا نظر آتا ہے۔ اس نے کہا : مغل جو کچھ کماتے تھے‘ اسی خطے پر لگاتے تھے جبکہ تم لوگ لوٹ کر اپنے ملک لے جاتے ہو۔
گزشتہ دونوں اقساط میں دو صدیوں کے برطانوی راج میں ڈھائے جانے والے مظالم پر خطے کو کوئی نام دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آج کا نیا تجویز کردہ نام بحر ہند یعنی انڈین اوشن کیلئے ہے۔ چین کے دریا ''ینگ زی‘‘ کو اپنے سیلابوں اور ان سے ہونے والی تباہی کی بنا پر Sorrow River of China کہا جاتا تھا۔ اسی مناسبت سے اس خطے کو برطانوی راج کا خراج دینے پر بحر ہند کو Ocean of Sorrows کہا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں