برصغیر کی بربادی اور برہمن بھارت

''برہمن براڈ کاسٹنگ کارپوریشن‘‘؛ مشرقی پاکستان میں جاری شورش کے موقع پر ایک پاکستانی ملٹری آفیسر نے ہلکے سے طنز کے ساتھ بجا طور پر ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کے رپورٹر کو یہ الفاظ کہے تھے۔ یہ رپورٹر مارک ٹلی (Mark Tully)تھا‘جو برطانیہ کی طرح اس خطے کی جنگی سیاست میں‘ ملوث ہونے کی حد تک‘ خواہش پر مبنی رپورٹنگ کرتا تھا۔ یہی رپورٹر 1980ء کی دہائی میں بھارتی پنجاب میں سکھوں پر ہونے والے ریاستی مظالم کی داستانوں کا واحد صحافتی گواہ تھا۔ اب یہ حوالہ یہاں اس لیے دیا جا رہا ہے کہ راقم نے کئی دفعہ یہ نظریہ نما خیال لکھا ہے کہ بھارت برصغیر کا سب سے بڑا ملک ہونے کے ناتے اس خطے کی پسماندگی، غربت، جہالت اور جنگی کشمکش کا ذمہ دار بھی ہے۔ اس خیال کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے بھارت کی خارجہ پالیسیوں اور تعلقات کا مختلف حوالوں سے کھوج نما احاطہ کرتے ہیں۔ بھارت کی زمینی سرحد چھ ممالک سے جبکہ سمندری سرحد دو ممالک سے ملتی ہے۔ پاکستان کے علاوہ بھارت کا دیگر ممالک کے سلوک کیسا ہے یا ماضی میں کیسا رہا ہے، یہ وہ پیمانہ ہو گا جو بھارت کے مجموعی علاقائی کردار کا درست خاکہ پیش کر سکتا ہے۔ بھارت کی پاکستان کے ساتھ جاری جارحانہ پالیسیوں کو ایک طرف رکھ کر اگر دیگر ممالک سے بھارت کے چھ‘ سات دہائیوں پر مشتمل تعلقات پر نظر ڈالیں تو پتا چل جائے گا کہ بھارت کے‘ چین کے علاوہ‘ اپنے ان ہمسایہ ممالک سے جو آبادی، رقبے اور وسائل کے لحاظ سے اس کی ریاستوں سے بھی چھوٹے ہیں‘ کیسے تعلقات رہے ہیں۔ (واضح رہے کہ بھارت میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اترپردیش ہے جس کی آبادی بیس کروڑ سے زائد ہے‘ پاکستان کی کل آبادی سے کچھ کم)۔
نیپال‘ بھارت تعلقات: سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں دنیا کی واحد ہندو مملکت نیپال کا۔ اگرچہ بھارت کے ''ہندو راشٹر‘‘ ہونے کے حوالے سے اب کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا؛ تاہم یہ اپنے آپ کو سیکولر کہلواتا ہے اور اس اعتبار سے نیپال ہی دنیا کا واحد ملک ہے جو ہندو ریاست ہے۔ اگرچہ عددی اعتبار سے بھارت میں نیپال سے پچاس گنا زیادہ ہندو آباد ہیں مگر تناسب کے اعتبار سے نیپال ''سب سے بڑا ہندو ملک‘‘ ہے جہاں 80 فیصد سے زائد آبادی ہندو ہے۔ یہ ریاست بھارت اور چین کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ دو سال پہلے تک نیپال بھارت اور چین کے مابین ایک ''بفر ریاست‘‘ کی حیثیت رکھتا تھا مگر اب نیپال اور بھارت کے سرحدی تعلقات کشیدہ ہو چکے ہیں۔ ان دونوں کے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ کالا پانی سے ملحقہ تین علاقے اور ''نارایانی دریا‘‘ کا علاقہ Susta ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیپال نے جو بھارت کے خلاف تگڑا رویہ اپنایا ہے اس کے پیچھے چین کی مدد اور سپورٹ ہے۔ بھارت نے 1989ء میں بھی نیپال کی سمندری تجارت کو بلاک کر دیا تھا۔ اُس وقت چین کے راستے پاکستان نے نیپال کو اپنی بندرگاہ استعمال کرنے کی اجازت دے کر اسے بھارتی اجارہ داری سے بچایا تھا۔ واضح رہے کہ ہمالیہ کے دامن میں واقع نیپال ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے‘ یعنی اس کو کوئی سمندری حد نہیں لگتی۔ اس کے شمال میں چین اور باقی تینوں اطراف میں بھارت ہے‘ اسی لیے یہ سمندری حدود اور آبی تجارت کے حوالے سے بھارت پر انحصار کرتا ہے مگر اب ایک تبدیلی آ رہی ہے۔ سی پیک کا منصوبہ مکمل ہونے کے بعد نیپال کی سمندری تجارت براستہ چین پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے ہوا کرے گی جس کے بعد نیپال کا بھارت پر ہر طرح کا انحصار ختم ہو جائے گا۔ نیپال کے بھارت سے نجات حاصل کرنے کے جذبے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ سال نیپال نے بھارت کے زیر قبضہ کچھ علاقوں پر اپنا حق جتا کر یہ نیا نقشہ نہ صرف اپنی پارلیمنٹ سے منظور کرایا بلکہ نیپال کے ریڈیو چینلز نے بھارت کے خلاف باقاعدہ جنگی ترانے اور پروگرام بھی نشر کیے تھے۔ اب نیپال کے لوگ سرعام اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ انہوں نے بھارت کے تسلط نما اثر و رسوخ سے نجات حاصل کر لی ہے اور اب وہ چین کے منصوبوں میں شریک ہو کر بہت بہتر اور خوشحال محسوس کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات سے نیپال کو خاصے معاشی فوائد اور کافی مدد بھی مل رہی ہے۔
بھارت‘ سری لنکا تعلقات : سری لنکا کے بارے میں کہا جاتا ہے:Tear shape Lanka falling from the shawl of Mother India۔ اس فقرے میں سری لنکا کو 'بھارت ماتا‘ کی چادر سے گرتا ہوا ایک آنسو قرار دیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سری لنکا نے بھارت کی وجہ سے بہت آنسو بہائے ہیں۔ سری لنکا وہ ملک ہے جس نے بھارت کے علاقائی غصب اور غضب کو کافی لمبے عرصے تک برداشت کیا ہے۔ یہ عمل دخل تو ایک ایسے موقع پر بھی پہنچ گیا تھا جب بھارت سری لنکا کو دولخت کرنے پر تل گیا تھا اور لگ بھگ ایسا ہوا ہی چاہتا تھا مگر بھارت اپنے مذموم منصوبے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ یہ 1980ء کی دہائی کی بات ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ سری لنکا جزیروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا ملک ہے اور بھارت کے علاوہ سری لنکا کا کوئی بھی سمندری ہمسایہ نہیں۔ اسی لیے سری لنکا کے لیے بھارت کی حیثیت ایک ناگزیر آفت کی سی ہے۔ بھارت سری لنکا میں جاری علیحدگی پسند تحریکوں اور خودکش بمباروں کے سکواڈ پر مشتمل تنظیم تامل ٹائیگرز کو ہر طرح سے مدد فراہم کیا کرتا تھا۔ سری لنکا میں 1972ء میں شروع ہونے والی اس شورش کا سرغنہ نما سربراہ بھارت کے ساتھ نہ صرف رابطے میں تھا بلکہ تواتر سے بھارت کے دورے بھی کیا کرتا تھا۔ پربھارکن نامی اس عسکریت پسند کو راجیو گاندھی نے ایک موقع پر بلٹ پروف جیکٹ بھی گفٹ کی تھی۔ یہ سب کچھ سری لنکا کے لوگوں کے لیے خاصا تکلیف دہ تھا۔ بعد میں حالات کچھ ایسے بدلے کہ یہی شخص راجیو گاندھی کے خلاف ہو گیا اور راجیو کے قتل میں بھی ملوث تھا۔ سری لنکا کے لوگوں میں بھارت کے خلاف اتنی نفرت پائی جاتی ہے کہ جولائی 1987ء میں جب راجیو گاندھی نے سری لنکا کا دورہ کیا تو ایئرپورٹ پر گارڈ آف آنر پیش کیے جانے کے موقع پر سری لنکا کی بحری فوج کے ایک جوان نے غصے میں آ کر اپنی بندوق کا دستہ راجیو گاندھی کی گردن پر دے مارا تھا۔ راجیو گاندھی تو محفوظ رہے مگر روہانا نامی اس فوجی کا کورٹ مارشل کر دیا گیا اور چھ سال قید کی سزا سنائی گئی؛ البتہ اڑھائی سالہ قید کے بعد اس کی باقی سزا معاف کر دی گئی۔ آج کل بہت شور برپا ہے کہ چین نے سری لنکا کی ایک بندرگاہ، ہمبنٹوٹا قرض کے عوض نوے سالہ لیز پر حاصل کر رکھی ہے، بھارت اور مغرب اس پر کافی شور مچاتے ہیں مگر سری لنکا کے معاشی ماہرین اس کو اپنے لیے ایک نعمت یا Blessing in Disguise قرا دیتے ہیں‘ وہ ایسے کہ ایک بندرگاہ چین کو لیز پر دینے سے وہ چین کے بلاک کا اس طرح حصہ بن گئے ہیں کہ اب سری لنکا کسی بھی دوسرے ملک (بھارت) کے اثر و رسوخ سے محفوظ ہو گیا ہے۔ اس لیے ایک بندرگاہ چین کو دینا سری لنکا کے لیے کسی طرح سے بھی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ سری لنکن ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ چین کو سی پورٹ دینے سے سری لنکا کو معاشی تعاون اور مدد بھی مل رہی ہے۔ نیپال کے علاوہ سری لنکا دوسرا ملک ہے جو بھارتی تسلط‘ اثر و رسوخ اور در اندازی سے نجات کو اپنی آزادی کی طرح محسوس کرتا ہے۔
پاکستان کو ایک طرف رکھ کر جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ بھارت کے سلوک کے ذکر کا سلسلہ اس لیے شروع کیا گیا ہے تاکہ برہمن سوچ والے بھارت کے علاقائی فساد میں کردار کا اندازہ لگایا جا سکے۔ ابھی بھارت کے آٹھ ہمسایہ ممالک میں سے دو چھوٹے ممالک کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اگلی قسط میں دیگر چھوٹے ممالک سے تعلقات کا تذکرہ ہوگا؛ البتہ ایک بات طے ہے کہ اگر بھارت نے برہمن سوچ کو نہ اپنایا ہوتا تو کم از کم ان چھوٹے چھوٹے (اپنے بعض ضلعوں سے بھی چھوٹے) ممالک سے اچھا سلوک کر کے وہ ان کو اپنا ہمنوا بنا سکتا تھا لیکن اکھنڈ بھارت کی سوچ نے اس پورے خطے کو کھنڈر بنا رکھا ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں