''عورتوں کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے میرے گزشتہ کالم کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ ا نسانی تاریخ کا سب سے پہلا منشور اسلام نے پیش کیا تھا جس میں عورتوں کو مردوں کے برابر کی حیثیت کا شہری تسلیم کیا گیا تھا۔ حسین اتفاق یہ ہے کہ دین اسلام کی تکمیل کا دن یعنی آخری خطبہ 6 مارچ کے روز ہی دیا گیا تھا جبکہ جدید دنیا نے خواتین کا عالمی دن 8مارچ کو‘ 1914ء سے منانا شروع کیا تھا۔ البتہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا کے اکثر مسلم ممالک میں عورتیں آج بھی مکمل حقوق نہیں حاصل کر سکیں۔ اب بحث یہ نہیں کہ عورتوں کو مساویانہ حقوق دینِ اسلام نے مغرب کے جمہوری اور انقلابی منشوروںسے صدیوں پہلے دیے تھے۔ ایک خبر کے مطابق‘ اس بات کا برملا اعتراف گزشتہ دنوں ایک برطانوی خاتون وزیر نے بھی کیا ہے۔ البتہ یہ بات واضح رہے کہ اسلام کے دیے گئے حقوق اور مغرب کے نام نہاد حقوق میں بہت فرق ہے۔ مغربی منشور آزادی کے نام پر کچھ ایسی چیزوں کو بھی معاشرے میں لاگو کرنا چاہتا ہے جس سے خاندان‘ ایک بنیادی سماجی اکائی اور ادارے کے طور پر باقی نہ رہے۔ اس منشور میں عورت اپنے لیے خود کما کر لائے‘ اسلامی منشور میں عورت کے کام کرنے پر تو کوئی قدغن نہیں لگائی گئی مگر معاش کا ذمہ دار مرد کو قرار دیا گیا ہے۔آپ تھوڑا سا غور کریں تو ادراک ہو جاتا ہے کہ سب سے اہم اور مشکل کام (روٹی)کما کر لانا ہوتا ہے نہ کہ کمائے ہوئے کو گھر پر لا کر پکانا۔ عورت مارچ جیسے مظاہروں میں کچھ عناصر ''گھر پر کھانا پکانے کے کام‘‘ کو ایک انتہائی مشکل اور تکلیف دہ کام بلکہ قید بالجبر کے طور پر پیش کرکے بلا وجہ کا ایک مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کو مغرب میں مکمل اختیارات دلانے میں کمیونزم یعنی روس کے سرخ انقلاب کا نمایاں کردار ہے حتیٰ کہ مارچ کے مہینے میں عورتوں کا عالمی دن منانے کا کریڈٹ بھی جرمنی کی نمایاں ترین کمیونسٹ خاتون لیڈر Clara Zetkin کو جاتاہے۔ واضح رہے کہ اس وقت کے بادشاہی روس میں خواتین نے 8مارچ 1917ء کو ''روٹی اور امن‘‘ کے مطالبے سے ایک ہڑتال کی تھی اور جلوس نکالا تھا لیکن چونکہ مغرب کو اسلام اور کمیونزم‘ دونوں سے عداوت ہے لہٰذا اپنی تحریروں میں من پسند حقائق ہی سامنے لائے جاتے ہیں۔ ہماری کچھ جماعتیں چونکہ سابقہ سوویت یونین اور امریکا کی سرد جنگ کے دور میں امریکا بالخصوص امریکی ڈالر کے زیر اثر تھیں‘ اس لیے وہ ابھی تک کمیونزم مخالفت سے مکمل طور پر باہر نہیں آسکیں‘یہی وجہ ہے کہ عورتوںکے حقوق کے حوالے سے سرخ انقلاب کے کردار کا ذکر کرنا زیادہ پسند نہیںکیا جاتا۔ سرد جنگ وہ دور تھا جب ''ایشیا سرخ ہے‘‘ یا ''ایشیا سبز ہے‘‘ کے سپانسرڈ نعرے لگا کرتے تھے۔ اس سے پہلے بھی لکھا جا چکاہے کہ چین کے مکمل عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے کے بعد (بھلے چین بھی ایک کمیونسٹ ملک ہے) دائیں بازو کی تمام اہم جماعتیں ''ایشیا سبز ہے‘‘ کے نعروں کے سحر اور مغربی ایجنڈے سے نہ صرف باہر آچکی ہیںبلکہ چین کے اہم قومی دنوں پر چین کی جانب سے منعقد ہونے والی تقریبات میں شرکت کرتی ہیں اور اس موقع پر ''سرخ‘‘ رنگ کے کیک بھی کاٹتی ہیں۔ گزشتہ سال چین کی بانی کمیونسٹ جماعت کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے علاوہ مولانا فضل الرحمن نے بھی خطاب کیا تھا۔
ذکر ہو رہا ہے نظریات کی جنگ کا‘ تو ہمارے ہاں زندگی کے دیگر شعبوںکی طرح ‘عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے دو مختلف ہی نہیں بلکہ دو مکمل متضاد مظاہرے دیکھنے میں آتے ہیں‘ اس لیے بہت سارے لوگوں نے نرم، دھیمے لہجے میں چند سخت سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ مثال کے طور پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ کون سا مسلم ملک ہے‘ جس میں عورتوں کو تمام حقوق حاصل ہیں؟ اس ضمن میں یہ واضح رہے کہ یہ بات طنزاً فکر انگیز انداز میں تحریر کی گئی تھی۔ دوسری جانب ملکی آبادی میں خواتین کے تناسب پر بھی بہت سے لوگوں نے حیرانی کا اظہارکیا۔ یہ قطعاً کوئی حیران کن انکشاف نہیں بلکہ سیدھی سادی حقیقت ہے کہ پاکستان کی کل آبادی کا خواتین کا تناسب 49 فیصد ہے یعنی خواتین اقلیت میں ہیں‘ اکثریت میں نہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لکھنے اور بولنے والے بھی یہی دہراتے رہتے ہیں کہ خواتین اکثریت میں یعنی 51 فیصد ہیں۔اس وقت دنیا کے لگ بھگ سبھی ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کاتناسب زیادہ ہے اور شاید اسی لیے ہمارے ہاں بھی یہ مفروضہ رائج ہو گیا کہ عورتیں 51 فیصدہیں مگر دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام مسلم ممالک میں‘ سوائے بوسنیا کے‘ کہیں بھی عورتیں اکثریت نہیں ہیں۔ انڈونیشیا، ملائیشیا،ترکی اور ایران جیسے ممالک میں یہ شرح50 فیصد کے لگ بھگ ہے ،یعنی ان ملکوں خواتین برابر‘ یا کچھ کم ہیں۔ عرب ممالک میں تو اس تناسب میں بہت زیادہ فرق ہے‘ کئی ممالک میں مردوں کی تعداد خواتین سے دو گنا تک زیادہ ہے۔ا س کی ایک وجہ یہ ہے کہ بچیوں کی پیدائش کے بعد خوراک‘ دوائی اور احتیاط میں پوری توجہ نہیں برتی جاتی اور بدقسمتی سے یہ صورتِ حال پوری عمر جاری رہتی ہے۔اسی طرح ان ممالک میں ایک ماں اوسطاً 3 سے 6 بار زچگی کے مرحلے سے گزرتی ہے جس سے اس کی صحت خراب رہنے لگتی ہے۔ نامناسب سہولتوں کی وجہ سے مائوں کی شرحِ اموات خاصی زیادہ ہے۔ پاکستان میں سالانہ تقریباً 25 سے 30 ہزار خواتین دورانِ زچگی انتقال کر جاتی ہیں۔
بات ہو ئی تھی کہ پاکستان کے سب سے اہم امتحان‘ سی ایس ایس‘ میں چند سال پہلے Gender Studies کا 100 نمبروں کا ایک اختیاری مضمون متعارف کرایا گیا جس میں Feminism کی بہت ساری تھیوریز کا ذکر کیا گیا ہے مگر Islamic Feminism کا سرسری سا بھی ذکر نہیں۔ اسی مضمون میں پاکستان کے حوالے سے جن تین اہم خواتین کا ذکر کیا گیا ہے‘ وہ ہیں؛ ملالہ یوسف زئی، مختاراں مائی اور شرمین عبید چنائی۔ یہاں سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس مضمون کو کس 'محنت‘ سے تیار کیا گیا ہے۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خاں، بینظیر بھٹو، عاصمہ جہانگیر، بلقیس ایدھی، ارفع کریم رندھاوا، پاکستان ایئر فورس کی بہادر خاتون فائٹر پائلٹ مریم مختیار سمیت شعبہ فن و ادب کے حوالے سے کتنی ہی قد آور شخصیات ہیں جو اس باب میں شامل کی جا سکتی ہیں مگر کسی کا رسمی ذکر بھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، اس مضمون میں LGBT کے حوالے سے بھی ایک باب ہے جس میں ہم جنس پرستی کا تفصیلی احوال موجود ہے۔ واضح رہے کہ اس مضمون میں اشراکیت کا نظریہ اور اس کے خیالات بھی پیش کیے گئے ہیں مگر چونکہ اس کو بنانے اور اس کی منظوری دینے والے سب ''بابوز‘‘ مغربی تہذیب کے دلدادہ ہیں اس لیے اسلام میں عورتوں کے رتبے اور مقام سے متعلق نظریات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ میرے نزدیک یہ قومی سطح کی غفلت ہے۔
لال رنگ جہاں کمیونزم کی پہچان کا رنگ ہے‘ وہیں پر یہ تپتی دھوپ اور لوہا پگھلانے والی لوہے کی بھٹیوں کی آتشی تپش کا بھی اظہار ہے۔ بنیادی طور پر یہ مرد ہی ہیں جو دھوپ میں اور آگ کو برداشت کرتے ہوئے‘ محنت مزدوری کرکے اپنے بیوی بچوںکے لیے روٹی کماتے ہیں۔ اس محنت سے کمائی گئی روزی کو گھر میں چولہے کی قدرے کم تپش میں روٹی میں بدلنے والی خاتون کے حوالے سے یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے جیسے اسے قید کر کے رکھا گیا ہے۔ عورت چولہے کی قدرے کم تپش میں زیادہ محفوظ ہے کہ تیز دھوپ اور اور لوہے کی بھٹیوں میں آگ جھونکتے ہوئے؟ رہی بات پردے اور حجاب کی‘ تو یہ چیز نفسیاتی تحقیق سے ثابت شدہ ہے کہ جو خاتون جتنے زیادہ پردے میں ہوتی ہے‘ اتنی ہی محفوظ اور مقدم ٹھہرتی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس سلسلے میں ایک تفصیلی، تحقیقی اور تجرباتی وڈیو اس کا واضح ثبوت ہے۔ آخر میں ایک گزارش یہ کہ اس دن کو اپنے طور پر چھ یا آٹھ مارچ کو منا لیا کریں مگر بلاوجہ کی تقسیم پیدا نہ کیا کریں‘ ہمارا معاشرہ پہلے ہی بہت متضاد بنیادوں پر تقسیم ہو چکا ہے۔