مداخلت ہوتی تو ہے !

یورپ میں علم و تحقیق، سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور کا آغاز تقریباً تیرہویں صدی عیسوی میں ہو گیا تھا۔ یورپ والے اس دور کو Renaissance کہتے ہیں‘ اس کا مطلب Re-Birth یعنی دوبارہ جنم لینا۔ اس کو اردو میں ''نشاۃِ ثانیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ دنیا میں علم و تحقیق کا سب سے پہلا مرکز یونان تھاجو یورپ میں واقع ہے اور ایل یونا کا دور پانچ سو قبل مسیح سے زائد پرانا ہے۔اسی لیے یورپ میں علم و تحقیق کے نئے دور کو ''نشاۃ ثانیہ‘‘کا نام دیا گیا۔ مگریہ وہ دور تھا جب یورپ میں بادشاہوں اور پادریوں کا راج تھا۔یہ دونوں ایک دوسرے کی طاقت بڑھانے کے لیے ایک گٹھ جوڑ بنائے رکھتے تھے۔پادری مذہب کو بنیاد بنا کر طاقتور افراد کے حق میں فتوے نما بیانات کثرت سے جاری کرتے تھے اور بادشاہ ہر کام میں پادریوں کی رضامندی لیا کرتے تھے۔ یہاں ایک انتہائی دلچسپ تاریخی حقیقت بیان کرتے چلیں کہ عوام کی طرف سے کسی منظم تحریک سے پہلے اس آمریت کو چیلنج کرنے والے بیشتر افراد سائنس دان تھے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ یورپ کے سائنس دان جب بھی کوئی نئی چیز ایجاد کرتے یا کوئی نیا سائنسی کلیہ دریافت کرتے تو پادری اس کی نفی کر دیتے تھے، مثال کے طور پر‘ جب رات کی تاریکی ختم کرنے کے لیے زیادہ روشنی والی چیزیں‘ مثلاً فانوس اور قندیلیں وغیرہ ایجاد کی گئیں جن کے شیشے چراغ کی روشنی کو کئی گنا بڑھا دیتے تھے تو پادریوں نے یہ کہتے ہوئے ان ایجادات کی مخالفت شروع کر دی کہ جب خدا نے رات میں تاریکی رکھی ہے تو آپ اس کو روشنی میںبدلنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ اس سلسلے میں جو سب سے مشہور‘مستند اور بڑا واقعہ بیان کیا جاتاوہ سورج اور زمین کی حرکت سے متعلق ہے۔آج بھی ایک اَن پڑھ یا نیم خواندہ شخص کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے،جس سے دن اور رات آتے جاتے ہیں۔ عام بول چال میں اب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ سور ج نکل آیا ہے یا سورج سر پر آگیا ہے۔
1633ء میں اٹلی سے تعلق رکھنے والے سائنسدان گلیلیو نے سب سے پہلے یہ راز دریافت کیا تھا کہ سورج زمین کے گرد نہیں گھومتابلکہ زمین سور ج کے گرد گھومتی ہے۔ اس سے قبل پادریوں نے یہی بات سب کے ذہن میں بٹھا رکھی تھی کہ اس کائنات کا مرکز زمین ہے اور ہر شے اس کے گرد گھومتی ہے۔ جیسے ہی گلیلیو کی اس دریافت کا پادریوں کو علم ہوا‘ اس کو چرچ کی عدالت میں بلایا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ چونکہ اس کا بیان عیسائی مذہب کی بنیادی تعلیمات کے برعکس ہے‘ اس لیے وہ یہ بیان واپس لے،بصورت دیگر اس کو سخت سزاکا سامنا کرنا پڑے گا اور ممکن ہے کہ اسے اپنی جان بھی گنوانا پڑے۔ مجبوراً گلیلیو کو قدرت کا راز بتانے والایہ بیان واپس لینا پڑا مگر چونکہ اس نے سائنس کا ایک اصول بیان کیا تھا‘ کوئی ذاتی رائے نہیں،اس لیے اس کی حالت خراب تھی۔ اس نے اس بیان سے تو رجوع کر لیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے‘ مگر سرگوشی کے انداز میں اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہا ''پھر بھی یہ گھومتی تو ہے‘‘۔ اس کی زبان اٹالین تھی اور اس کا جملہ تھا: E pur si muove۔اس پر بھی چرچ ناراض ہو گیا اور گلیلیو کو اس کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا اور وہ اسی نظر بندی میں انتقال کر گیا۔
اب ایک اور مشہور مغربی لوک داستان کی طرف چلتے ہیں،جس پر بے شمار وڈیوز بھی آپ کو انٹرنیٹ پر مل جائیں گی۔قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک ملک کا بادشاہ قیمتی اور نت نئے لباس پہننے کا شوقین تھا۔اس شوق کو پورا کرنے کے لیے وہ بہت زیادہ سرمایہ ضائع کیا کرتا تھاجبکہ عوام کی معاشی حالت خاصی خراب تھی۔بادشاہ کے سخت گیر ہونے کی وجہ سے عوام احتجاج تو کجا‘بادشاہ کی اندھی تقلید اور اس کی عزت کرنے پر بھی مجبور تھے۔اب ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ اس کرپٹ بادشاہ کو لوٹنے کے لیے دو ٹھگ اس کے دربار میں پیش ہوئے۔انہوں نے باشاہ کے سامنے ایک عجیب و غریب دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بادشاہ کے لیے دنیا کا سب سے قیمتی اور انوکھا لباس تیار کریں گے جو آج تک کسی نے دیکھا تو درکنار‘اس کے بارے میں سنا بھی نہیں ہو گا۔بادشاہ کو یہ بات بہت بھائی۔ اس نے ان کے مطالبے کے مطابق بھاری رقم ان کے حوالے کر دی۔ کپڑا بُننے کی ایک کھڈی بھی محل کے ایک کمرے میں لگا دی۔کئی دن گزرنے کے بعد بادشاہ نے اپنے ایک وزیر سے کہا کہ جائو اور چیک کرو کہ کپڑا بننے کا کام کہاں تک پہنچا ہے۔ جب وزیر اس کمرے میں گیا تو وہ ششدر رہ گیا کہ وہ دونوں ٹھگ ایک خالی کھڈی لگا کر بیٹھے تھے۔اس نے سخت گیر لہجے میں پوچھا کہ کپڑا کہاں ہے؟ اس پر ان دونوں نے ایسا جواب دیا کہ ساری کہانی ہی بدل دی۔انہوں نے کہا کہ جناب! آپ نے ضرور کوئی کرپشن کی ہو گی اس لیے آپ کو کپڑا نظر نہیں آرہا‘ وگرنہ کپڑا تو بُنا جا رہا ہے۔ یہ دنیا کا نہایت نفیس اور ملائم کپڑا ہے‘ یہ صرف اسی شخص کو نظر آ تا ہے جس نے کبھی کوئی کرپشن نہ کی ہو۔ جس کی آنکھوں پر کرپشن کی پٹی بندھی ہو‘ وہ یہ کپڑا دیکھنے سے قاصر رہتا ہے۔ اگر آپ کپڑا دیکھنے سے قاصر ہیں تو وجہ آپ کی کرپشن ہو گی۔ وزیر اپنی کرپشن کا سن کر چپ کر گیااور چپ چاپ وہاں سے چلا گیا۔ واپس جا کر اس نے بادشاہ کو 'سب اچھا‘ کی رپورٹ کر دی۔کچھ دنوں کے بعد بادشاہ خود کپڑا چیک کرنے آیا تو اس کو بھی دونوں ٹھگوں نے یہی کہانی سنائی۔ وہ بھی اپنی کرپشن کے باعث خاموش ہو گیا اور اس نے یقین کر لیا کہ کپڑا تو موجود ہے مگر اس کو کرپٹ ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آرہا۔اسی دوران اس کپڑے کے چرچے عوام تک بھی پہنچ گئے اور ایک دن کا انتخاب کر کے اعلان کر دیا گیا کہ فلاں دن بادشاہ سلامت اس خاص کپڑے کا لباس پہن کر عوام میں جلوہ گر ہوں گے۔
آخر کار وہ دن آگیا۔ ان دونوں ٹھگوں نے اپنے ایک خاص انداز میں بادشاہ کو وہ خیالی لباس پہنایا۔اس کے بعد بادشاہ کو ایک گھوڑے پر سوار کر دیا گیااور اسی حالت میں باشاہ عوام کے سامنے جلوہ افروز ہو گیا۔دیکھنے والوں میں سے کسی کی جرأت نہیں تھی کہ وہ یہ کہے کہ بادشاہ تو بے لباس ہے،کیونکہ ایسا کہنے والا کرپٹ تصور کیا جانا تھا۔لوگ بادشاہ کو دیکھتے تو اس کے رعب اور دبدبے کی وجہ سے خاموش ہو کر آگے چل دیتے مگر اسی دوران ایک بچے نے بادشاہ کو دیکھا تو زور دار آواز لگائی کہ ''بادشاہ تو ننگا ہے‘‘۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ آواز بلند ہونے لگی اور بادشاہ کو بھی سمجھ آ گئی کہ اسے بیوقوف بنایا گیا ہے‘ اس نے گھوم کر ان دونوں ٹھگوں کو دیکھا مگر وہ کہیں غائب ہو چکے تھے۔
پہلے ہم نے ذکر کیا گلیلیو کا‘ گاہے خیال آتا ہے کہ اگر آج گلیلیو زندہ ہوتا تو وہ یہ بھی کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ''کرپشن ہوتی تو ہے‘‘۔ اسی طرح حالیہ سیاسی تناظر میں وہ شاید یہ بھی کہہ دیتا کہ ''پاکستان میں سیاسی مداخلت ہوتی تو ہے‘‘ ۔ اب اگر دونوں واقعات کو اکٹھاکریں تو نچوڑ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت عرصے سے کوئی یہ آواز لگا رہا ہے کہ بادشاہ بے لباس ہے‘ مگر کوئی بھی اس کی آواز پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔
یہ بات یاد رہے کہ گلیلیو کے انتقال کے لگ بھگ سو سال کے بعد چرچ نے اس سے ہونے والے بلکہ روا رکھے جانے والے سلوک پر معذرت کر لی تھی۔اب اگر بات کریں کرپشن کے حمام میں ننگے بادشاہوں کی تو ایک بات بہت واضح ہے کہ اب پاکستان کی سیاسی صورت حال میں کچھ بنیادی تبدیلیاںآ چکی ہیں۔پہلی بات تو یہ کہ اب عوام کی بڑی تعدا یہ بات بر ملا کہہ رہی ہے کہ بادشاہ بے لباس ہے۔ چونکہ یکے بعد دیگرے بہت سارے بادشاہ آئے ‘ سو یہ ترمیم کر لیں کہ اب کرپٹ بادشاہ کی بے لباسی عوام کی نگاہوں کے سامنے چھپی نہیں رہ سکتی۔ اب لوگ کھل کر اس کا اظہار کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آج کے گلیلیو کو کوئی سزا دی جائے گی اور اگر دی جائے گی تو کیا؟ وجہ یہ ہے کہ آج کا گلیلیو اپنا بیان واپس لینے سے انکاری ہے کہ ''کرپشن ہو یا مداخلت‘ ہوتی تو ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں