بسترِ علالت سے مرگِ لازم تک

اگرکوئی شخص کسی بیماری کی وجہ سے بستر سے جا لگا ہو تو اسے بسترِ علالت کہا جاتا ہے لیکن اگر بیماری شدید ہو اور بچنے کا کوئی امکان نظر نہ آتا ہو تو اسے بسترِ مرگ کہا جاتا ہے۔ آج آپ کو اسی تناظر کا ایک رخ دکھاتے ہیں جو کچھ اس طرح ہے کہ اگر کسی کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جس کا علاج توممکن ہو مگر علاج نہ کیا جارہا ہو بلکہ علاج تو در کنار‘ بیماری سے پرہیز بھی نہ کیا جا رہا تو ایسی کیفیت کو ''بسترِ مرگ لازم‘‘ کہا جاتا ہے۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے بتاتا چلوں کہ راقم یہ سطور بسترِ علالت کی کیفیت کے شدید اور (مرض قابلِ علاج ہونے اور علاج جاری رکھنے کی وجہ سے)بسترِ مرگ سے پہلے کی کیفیت میں لکھ رہا ہے۔ ہوا یوں ہے کہ ایک ہفتہ پہلے چہرے پر لقوے کا شدید حملہ ہوا ہے‘ ڈاکٹرز ابھی یہ نہیں طے کر پائے کہ یہ دماغ کی کسی شریان پر دورہ یعنی سٹروک تھا یا صرف لقوہ ہے۔ مقصد آپ کو اپنی تکلیف بتانا نہیں تھا مگر اس بیان کا ایک خاص پس منظر ہے۔ یہ پس منظر وہ خبریں ہیں جو پنجاب اور سندھ کے ریگستانی علاقوں سے آرہی ہیں۔
اس وقت قحط کی صورتحال نے صحرائی علاقوں کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جانور تو جانور‘ انسان بھی ہلاک ہو رہے ہیں۔ اس خطرناک ترین قحط سالی کو کیا کہا جائے؟ کیا یہ علاقہ بسترِ علالت پر ہے یا کہ بسترِ مرگ پر؟ یہ طے کرنا آسان ہے اور انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ علاقہ بسترِمرگ پر ہے۔ وجہ بڑی واضح ہے کہ اس علاقے کے قحط کے مرض کا علاج تو درکنا‘ کوئی پرہیز بھی نہیں کیا جا رہا۔ اس کا علاج کیا ہے اور پرہیز کیا‘ اس پر آگے چل کر گفتگو کریں گے۔
پنجاب و سندھ کا صحرائی علاقہ مجموعی طور پر تھر کہلاتا ہے۔ پنجاب میں یہ صحرائی علاقہ ''چولستان‘‘ جبکہ سندھ میں ''نارا‘‘ کہلاتا ہے۔ نام بھلے مختلف ہیں مگر صورتحال ایک جیسی ہے۔ اگرچہ میڈیا کی خبروںکی وجہ سے اب وفاقی و صوبائی حکومتیں حرکت میں آئی ہیں اور قحط زدہ علاقوں میں ٹینکرز کے ذریعے پانی سپلائی کیا جا رہا ہے۔ اسی سے ملتی جلتی یہ خبر پچھلے پندرہ دنوں سے گردش میں ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں بالخصوص شہروں کو گرمی کی شدید لہر یعنی ''ہیٹ ویو‘‘ کا سامنا ہے۔ اس شدید گرمی کی لہر کے نتیجے میں درجہ حرارت پچاس ڈگری سینٹی گریڈ تک کو چھو رہا ہے۔ اس گرم ترین لہر کا تیسر ا دور رواں ہفتے میں بھی چلے گا۔ آپ ان علاقوں کو فی الحال بسترِ علالت کے درجے میں رکھ سکتے ہیںمگر چونکہ علاج اس کا بھی کوئی نہیں کیا جا رہا‘ اس لیے کسی بھی دن، مہینے یا سال میں ملک کا بیشتر حصہ اس علالت کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس وقت آپ کو یہ باتیں یقینا خطرناک اور بری خبر لگ رہی ہوں گی مگر یہ تلخ حقائق ہیں۔ راقم نے گزشتہ سال بھی اپنے کالموں میں بار بار اس جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی تھی اور لاہور شہر کے حوالے سے آلودگی اور پانی کی کمی کے حوالے سے ایک کالم ''لاہور شہر کی زندگی کے پانچ سال باقی ہیں‘‘ لکھا تھا۔اس کالم کے ذریعے لوگوں کے ساتھ ساتھ اربابِ اختیا ر تک بھی یہ صدا پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ
امیرِ شہر کو اونچا سنائی دیتا ہے
تو کچھ ایسا ہی معاملہ ہے بلکہ اب تو معلوم پڑتا ہے کہ امیر شہر کو سنائی ہی نہیں دیتا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ سموگ کے دنوں میں مصنوعی بارش کی ایک کوشش کی گئی تھی مگر آپ ستم دیکھیں کہ جس ایئر پورٹ سے جہاز اڑنا تھا وہ جگہ فروخت کی جا چکی ہے‘ وہاں سے تیار کھڑا ہونے کے باوجود جہاز نہیں اڑایا جا سکتا، سب سے بڑھ کر یہ کہ ابھی تک چھوٹے جہازوں کو اڑانے کے لیے کوئی نئی یا متبادل جگہ بھی فراہم نہیں کی گئی۔ امیرِ شہر کی بات کریں تو مجھے ایک سابق پائلٹ نے بتایا کہ پانچ‘ سات سال پہلے جب سموگ کا مسئلہ شروع ہوا تھا تو اس نے پنجاب کی اعلیٰ ترین سرکاری قیادت سے کہا تھا کہ وہ اس کا تدارک کر سکتے ہیں مگر انہیں کوئی مثبت جواب نہیں ملا تھا۔
اب اگر آپ ہیٹ ویو اور قحط کی بنیادی وجہ جاننا چاہتے ہیں‘ اور یقینا چاہتے ہوں گے کیونکہ گرمی کی شدت سب کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے اور وہ بھی لوڈ شیڈنگ کے دوبارہ آغاز اور شدید اضافے کے ساتھ‘ تو جان لیں کہ اس کی سب سے بنیادی وجہ ہمارے ملک کی آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہے۔ یہاں بہت احتیاط کے ساتھ یہ بات کہی جا رہی ہے کہ سالانہ کل آبادی میں اضافے کے حوالے سے پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے، جی ہاں! ہم سے زیادہ آبادی صرف بھارت اور چین میں بڑھتی ہے اور ان کے بعد ہمارا نمبر آتا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی‘ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آنے والے چند سالوں میں ہم سالانہ کل اضافے کے اعتبار سے چین سے بھی آگے بڑھ سکتے ہیں۔گزشتہ سال پاکستان میں کل اضافہ اڑتالیس لاکھ تھا جبکہ چین میں یہ اضافہ بمشکل پچاس لاکھ تھا۔ تقریباً دو لاکھ کا فرق ہے جو عنقریب ختم ہو جائے گا لیکن ایک اور پہلو سے غور کریں تو پاکستان دوسرے نمبر پر آچکا ہے، اور وہ پہلو ہے آزاد کشمیر کی آبادی۔ واضح رہے کہ پاکستان جب بھی اپنی کل آبادی بتاتا ہے تو اس میں آزاد کشمیر اور گلگت‘ بلتستان کی آبادی شامل نہیں ہوتی۔ اس لیے اگر ان دو علاقوں کی آبادی کو بھی شامل کر لیں تو پاکستان آبادی میں سالانہ اضافے کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔
آپ کو یہ ادراک تو ہو گا ہی کہ جیسے جیسے آبادی بڑھتی ہے‘ ویسے ویسے رہائشی علاقوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ پانچ لاکھ نئے گھر بنتے ہیں۔ جن علاقوں میں یہ نئی رہائش گاہیں بنتی ہیں‘ وہاں سبزے میں نمایاں کمی آجاتی ہے جبکہ یہ درختوں کا سبزہ ہی ہے جو ہمیں دھوپ کی شدت سے بچاتا ہے۔ اگر کھلی دھوپ میں درجہ حرارت 48 ڈگری ہو تو درخت کے نیچے یہ 32ڈگری تک ہو جاتا ہے‘ مطلب ایک تہائی گرمی درخت کھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کنکریٹ کے مکانات بذاتِ خود درجہ حرارت بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔ اسی لیے ہیٹ ویو شہروں میں زیادہ شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ درختوں کی تعداد فی کس آبادی کے تناسب میں پاکستان کی صورت حال دنیا کے صرف آٹھ ملکوں سے بہتر ہے۔
تھر کے علاقوں کو کوئی نہر اسی وقت پانی فرہم کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے جب اس نہر کے پانی کی ضرورت دیگر زرعی علاقوں کو نہ ہو۔ اسی طرح دبئی کی طرز پر اگر مون سون کے موسم میں جب آسمان پر بادل چھائے ہوں تو صحرائی علاقوں میں مصنوعی بارش برسا کر‘ مخصوص طریقے سے بنائے گئے بڑے بڑے گڑھوں اور تالابوں میں پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عرب ممالک کی طرز پر صحرائوں میں خوب شجر کاری کر کے ان کی گرمی میں کمی کی جا سکتی ہے۔ یہ شجر کاری ان علاقوں میں بارش کی اوسط مقدار بڑھانے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں جو بادل بن برسے گزر جاتے ہیں‘ اگر ان کو برسانے کا اہتمام کر لیا جائے تو بارشوں سے حاصل ہونے والے پانی کی مقدار میں پچیس سے تیس فیصد تک اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب تو احتیاطی تدابیر اور عارضی اقدامات ہیں‘ قحط کی بیماری کا اصل علاج پورے ملک کو کرنا ہے اور وہ آبادی میں ہونے والے بے تحاشا اضافے کو روکنا ہے‘ بصورتِ دیگر یہ قحط صحرائوںسے دیہاتوں اور شہروں کا رخ کرنے کے در پے ہے۔ اب آپ خود اندازہ کرلیں کہ علاج تو درکنا ر کوئی پرہیز بھی نہیں ہو رہا۔ پانی کی کمی کے لحاظ سے پاکستان‘ سوائے گلگت بلتستان کے علاقے کے‘ بسترِ علالت پر ہی نہیں بلکہ بسترِ مرگ پر آچکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں