گزشتہ کالم میں انکشاف نما اطلاع یہ دی گئی تھی کہ آبادی میں سالانہ کُل اضافے کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ اس پر بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے تعجب کا اظہار کیا اور اسے انتہائی تشویش ناک قرار دیا۔ آج اس بات کو ملکی اور غیر ملکی‘ تمام اداروں کے جاری کردہ اعداد و شمار کے روشنی میں دہرا رہا ہوں کہ یہ خبر تشویش ناک ضرور ہے مگر ہر لحاظ سے درست ہے۔ اب اس کا حل کیا ہو سکتا ہے؟ یہ فیصلہ کرنا اربابِ اختیار کا کام ہے‘ یہ عوام کے اندر مقبول مذہبی علماء کے خطبات اور لکھنے اور بولنے والوں پر منحصر ہے۔ تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں اس سے متعلق مواد شامل کرنے پر اس کا انحصار ہے۔ خاص طور پر مطالعہ پاکستان کے مضمون میں تاریخ، سیاست اور معیشت کے ساتھ آبادی کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ پانی کی کمی اور ماحولیاتی آلودگی کا بھی براہِ راست تعلق آبادی میں اضافے کے ساتھ ہے۔
اگر کسی ملک سے اس ضمن میں کچھ سیکھا جا سکتا ہے تو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ دنیا میں چین کے بعد سابقہ مشرقی پاکستان آبادی کنٹرول کرنے والی دوسری بڑی مثال ہے۔ چین نے تو 1979ء میں ایک سخت ترین پالیسی قانون کی شکل میں نافذ کی تھی اور یہ پالیسی ''ایک جوڑا‘ ایک بچہ‘‘ تھی۔ اس پالیسی کو 2016ء میں نرم کر دیا گیا مگر اب چین کے لوگ اس بات کے عادی ہو چکے ہیں کہ ''پیدائش سے زیادہ پرورش‘‘ اہم ہے۔ چین میں زندگی گزارنا‘ تعلیم و صحت جس قدر مہنگے ہو چکے ہیں‘ اب حکومتی ترغیبات کے باوجود لوگ اس طرف راغب نہیں ہو رہے۔ بات کی جائے بنگلہ دیش کی تو علیحدگی کے وقت مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے پچاس لاکھ زیادہ تھی مگر اب بنگلہ دیش کی آبادی پاکستان سے پانچ کروڑ کم ہے۔ اس ملک کا رینک آبادی کے لحاظ سے آٹھواں ہے۔ اس کی آبادی میں سالانہ محض پندرہ سے سولہ لاکھ اضافہ ہوتا ہے، جو انتہائی مناسب ہے۔ بنگلہ دیش میں مذہبی قیادت کی مدد سے معاشرے کی تربیت کی گئی اور جمعہ کے خطبات میں لوگوں کو اس مسئلے کی جانب راغب کیا گیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ یہاں ایک اور بات واضح کرنا ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان کے برعکس بنگلہ دیش پانی کی کمی کے خدشات سے واضح طور پر محفوظ ہے۔ یہاں پر پانی کی کمی کا حوالہ خاص طور پر اس لیے دیا جا رہا ہے کہ بھارت اور پاکستان‘ دونوں پانی کی کمی کے حوالے سے ایک مشکل مرحلے میں نہ صرف بہت پہلے سے داخل ہو چکے ہیں بلکہ صورتِ حال مزید گمبھیر تر ہوتی جا رہی ہے۔
پانی کی کمی کی بات کی جائے تو سب سے پہلے یہ واضح رہے کہ یہ مسئلہ عالمی نوعیت کا ہو چکا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب عالمی سٹاک مارکیٹ میں بھی پانی کی باقاعدہ تجارت ہوتی ہے۔ پانی کی کمی صرف پانی کا نہ ملنا نہیں ہوتی بلکہ پینے کا صاف پانی ایک زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے یہ جان لیں کہ پاکستان کے زیادہ تر علاقوں میں پانی کا ذائقہ قدرے کھارا ہوتا ہے۔ لوگ یہ پانی پی تو لیتے ہیں مگر یہ مضر صحت ہوتا ہے۔ اس کے بعد محفوظ پانی کا تصور سامنے آتا ہے۔ یہ پانی پینے کے لیے محفوظ تو ہوتا ہے لیکن زیادہ صحت مند نہیں ہوتا۔ اس کے بعد پانی کی وہ صورت بچتی ہے جس کو صحت مند یا مضبوط پانی تصور کیا جاتا ہے۔ اس طرح کا پانی نہ صرف پیاس بجھاتا ہے بلکہ صحت کے معیار میں اضافے کا باعث بھی بنتا ہے۔ آبادی میں اضافے کے علاوہ انسان کی وہ تجارتی سرگرمیاں‘ جس کے نتیجے میں اس نے دولت تو بہت بنائی مگر ماحول کو آلودہ کر دیا‘ دنیا میں پانی کے بحران کا باعث ہیں۔ صنعتوں میں پانی کے کثیر استعمال کے باعث پانی کا ضیاع اور آلودہ پانی کا زمین میں جذب ہونا صاف پانی کے ذخائر میں مسلسل کمی کا باعث بن رہا ہے۔ اس کا ایک اور سبب زراعت میں استعمال ہونے والی مصنوعی کھادیں ہیں، یہ کھادیں پیداوار تو خوب دیتی ہیں مگر زمین کو سیراب کرتے ہوئے یہ کھادیں پانی کے ساتھ زمین میں جذب ہو جاتی ہیں۔ ان میں مصنوعی اور مہلک کیمیکلز ہوتے ہیں جو زیرِ زمین پانی کو آلودہ کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اس عمل میں آرسینک نامی مواد سب سے زیادہ مقدار میں پانی میں شامل ہو کر اسے آلودہ کرنے کا سبب بنتا ہے۔
پانی کی بات کریں تو ایک اور پہلو مزید چونکا دیتا ہے۔ کسی زمانے میں دیہات وغیرہ میں یہ بات مشہور تھی کہ بہتا ہوا پانی محفوظ ہوتا ہے۔ لوگ بہتی ہوئی نہر میں سے پانی گھڑوں وغیرہ میں بھر لیا کرتے تھے۔ تھوڑا وقت گزرنے کے بعد اس میں موجود ذرات نیچے بیٹھ جاتے تھے اور لوگ اس پانی کو پی لیتے تھے۔ اسی پانی کو مزید محفوظ اور مضبوط کرنے کے لیے اس میں تھوڑی پھٹکری ملا لی جاتی تھی۔ آج سے دو دہائیوں پہلے تک کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ عنقریب پانی قیمتاً خریدنا پڑے گا۔ اگر کوئی شخص خلیجی ممالک سے واپسی پر یہ بتاتا کہ وہاں پانی خریدنا پڑتا ہے تو ہمارے لوگ اس کو قیامت کی نشانی کہا کرتے تھے۔ اب تو آپ اگر عام سے ہوٹل پر بھی کھانا کھاتے ہیں تو کھانے کے علاوہ آپ کو پانی کے پیسے بھی دینا پڑتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اب پیسے دے کر بھی یہ اطمینان نہیں ہوتا کہ جو پانی آپ نے پیا‘ وہ معیاری تھا بھی کہ نہیں۔ اسی ضمن میں ایک بات اور بھی بہت اہم ہے‘ وہ یہ کہ جب بھی کسی مغربی ملک کا کوئی باشندہ جنوبی ایشیا جیسے علاقے میں آتا ہے تو اس کو دیگر احتیاطی تدابیر کے ساتھ یہ نصیحت بھی کی جاتی ہے کہ وہاں کھلے نل سے پانی مت پینا۔ اس سے پہلے صرف اہم عہدوں پر تعینات لوگوں‘ جیسے سفیروں وغیرہ‘ کو یہ نصیحت کی جاتی تھی کہ آپ نے ''وہ والا پانی‘‘ نہیں پینا۔ ہوتا یوں تھا کہ ماضی میں جب کسی شخص سے کوئی اہم بات اگلوانا ہوتی تھی تو اسے مغربی مشروب کثیر مقدار میں پلایا جاتا تھا جس سے وہ اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پاتا تھا اور اپنے راز اگلنا شروع کر دیتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اہم شخصیات کے سینوں میں قومی راز ہوتے تھے‘ اس لیے انہیں منع کیا جاتا تھا کہ ایسے مشروبات سے دور رہیں مگر اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ عام شہریوں کے لیے بھی منع ہے کہ وہ تیسری دنیا کے ملکوں میں جا کر سادہ پانی پئیں۔
بات شروع ہوئی تھی آبادی میں اضافے کے حوالے سے مگر جب بھی یہ موضوع زیرِ بحث آئے گا‘ آلودگی اور پانی کی کمی جیسے مسائل بھی ابھر آئیں گے۔ اب آپ تصور کر کے دیکھیں کہ جس ملک میں سالانہ پچاس لاکھ لوگوں کا اضافہ ہوتا ہو‘ لازم سی بات ہے کہ وہاں پانی کی کھپت میں بھی اسی حساب سے اضافہ ہوتا ہو گا۔ اس ضمن میں یہ بات ضرور ذہن میں رکھیں کہ کسی بھی ملک یا خطے کا‘ قدرت کی طرف سے سالانہ پانی کا ایک کوٹہ مقرر ہوتا ہے اور اس کوٹے میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ اس کو آپ یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں ہونے والی سالانہ اوسط بارشیں اور برف باری ہی اس کوٹے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ انہی بارشوں کا پانی زمین میں جذب ہوتا ہے‘ جسے ہم مختلف طریقوں سے زمین سے نکال کر پیتے ہیں یا دیگر استعمالات میں لاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پہاڑی علاقوں میں ہونے والی بارشیں اور برف باری دریائوں کے بہنے کا سبب بنتی ہیں۔ یہ دریا مستقل طور پر پانی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ان دریائوں پر ڈیم بنا کر پانی کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان ایک لحاظ سے دنیا کا اکلوتا ملک ہو گا جو اپنے مستقبل کو خود تباہ کرنے کے درپے ہے۔ وہ اس طرح کہ یہاں پر ایک آئیڈیل ڈیم ''کالا باغ‘‘ کی مخالفت محض سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ اگرچہ اب کچھ دیگر ڈیم بن رہے ہیں مگر سالانہ کھپت میں اضافے کے حوالے سے یقینا یہ ناکافی ہوں گے۔ ڈیم کوئی ایسی چیز نہیں کہ ایک بار بن گئی تو کئی دہائیاں اس پر تکیہ کر کے گزر گئیں۔ یہ کام مسلسل جاری رہنے والا ہے، یعنی ہمیں ہر سال چھوٹے بڑے نئے ڈیموں‘ مصنوعی جھیلوں اور تالابوں وغیرہ کی تعمیر کا آغاز کرنا چاہیے۔ جنوبی ایشیا جیسے خطوں کو اس وقت پانی کی کمی کا سامنا اس حد تک ہے کہ شاید آنے والے وقتوں میں جو نئے الفاظ ایجاد ہوں گے وہ پانی ہی کے ارد گرد گھومیں گے‘ جس طرح آج ہم نے ذکر کیا محفوظ اور مضبوط پانی کا لیکن ہم تو محض پانی کے حوالے سے بھی قلت کا شکار ہیں۔