جعلی اور مضرِ صحت پانی

آج کی تحریر مکالمے کے سے انداز میں ہے اور اس کی بنیادی وجہ آج کے موضوع کی سنگینی ہے۔ مکالمے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ دونوں اطراف سے بات ہو رہی ہو‘ لہٰذا اس مکالمے کے دوسرے شریکِ کار قارئین ہیں، سو‘ اس کالم میں جو بھی سوال اٹھایا جائے یا بات کی جائے‘ اپنے ذہن میں اس کا جواب ہاں یا ناں میں دیتے جائیے۔ اس طرح آپ بھی اس گفتگو میں شریک ہو جائیں گے۔ اگر آپ کو یہ طرزِ تحریر عجیب محسوس ہو رہی ہو گی مگر یہ بھی جان لیں کہ آج کے کالم میں اٹھائے جانے والے نکات بھی اسی طرح کہ ہیں؛ عجیب وغریب۔ اب نشان دہی کردہ باتوں میں سے طے کرنا آپ کا کام ہو گا کہ یہ عجیب زیادہ ہیں یا غریب۔ چلیں ایک مکالماتی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔
یہ بتائیں کہ زمین پر زندگی کا سب سے بڑا اور بنیادی ماخذ کیا ہے؟ اس کا بہترین جواب سورج ہے۔ سورج کی شعائیں زمین پر آتی ہیں تو ہی ہر طرح کا سبزہ اپنی پیداوار کا عمل شروع کرتا ہے‘ جیسے فصلیںاور درخت۔ یہ زمین پر حرارت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اسی کے دم قدم سے زندگی ہے، سورج کی تپش ہی کی بدولت ہوائیں چلتی ہیں، بخارات فضا کی طرف جاتے ہیں اور بارشیں ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ سورج کی حرارت سے اگنے والے درخت ہی وہ ذریعہ ہیں جو ہمارے سانس لینے کے لیے آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ زندگی کا دوسرا بڑا ماخذ ہے پانی‘ جو ہم پیتے ہیں تو زندہ رہتے ہیں لیکن ایک بات اور بھی ذہن میں رکھیں کہ پانی ہی کی بدولت وہ تما م اجناس اگتی ہیں جن کو کھا کر ہم اپنی بھوک مٹاتے ہیں۔ شاید یہاں آپ سوچ رہے ہوں کہ آپ کو گفتگو میں شریک نہیں کیا جا رہا‘ ایسی بات نہیں! آپ کو بھی موقع ملے گا‘ ذرا صبر۔ بات ہو رہی تھی پانی کی۔ زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی کا ایک ذریعہ تو بارشیں ہیں، اس کے بعد زمینی ذرائع ہیں جن میں سب سے بڑا ذریعہ نہروں کا پانی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے ٹیوب ویل ایجاد کر لیے‘ جو زمین کو سیراب کرنے کا ایک اور بڑا ذریعہ ہیں۔ آج کے دور میں نہری پانی میں کمی کے باعث ٹیوب ویلز پر آبپاشی کا انحصار بڑھ رہا ہے۔
اب بتائیے کہ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ پانی کی کمی اور قلت کے باعث ایسی نہج بھی آ سکتی ہے کہ آپ کو گٹروںکے پانی کو استعمال میں لانا پڑے؟ جواب یقینا نفی میں ہوگا اور یہ سوچ کر آپ کو گھن بھی آئی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ سوال غیر انسانی اور بدتہذیبی پر مبنی لگا ہو۔ میں اس سوال پر معذرت چاہتا ہوں! لیکن بات کچھ یوں ہے کہ جب کوئی بھی چیز نایاب اور کم یاب ہو جائے تو پھر اس کی انتہائی خراب شکل کو بھی استعمال کرنے کا سوچنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے آپ وہ خبریں ذہن میں تازہ کر لیں کہ حرام جانور‘ کتے اور گدھے‘ بھی ذبح کر کے بیچ دیے گئے، مطلب لوگوں کو کھلا دیے گئے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ ظالمانہ فعل آج بھی جاری ہو۔ یہاں ایک بہت گمبھیر سچائی بیان کرتا چلوں: ایک شخص کو گرفتار کیا گیا جو ایک حرام جانور (کتا) ذبح کر رہا تھا، جب اس سے تفتیش کی گئی تو اس نے جواب دیا کہ وہ بہت زیادہ غریب ہے اور اس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں‘ اس لیے وہ یہ جانور ذبح کر رہا ہے تاکہ اپنی بھوک مٹا سکے۔ سوال کیا گیا کہ یہ تو حرام ہے۔ اس نے جواب دیا کہ حرام ہے تو کیا ہوا؟ مضرِ صحت تو نہیں! دنیا کے بہت سارے ملکوں میں لوگ کتے کا گوشت کھاتے ہیں۔اس نے مزید دلیل دیتے ہوئے کہا کہ آپ بتائیں‘ اگر میں چوری یا ڈاکا ڈال کر کچھ کمائوں تو کیا وہ حلال ہو گا؟ ہو گا تو وہ بھی حرام ہی مگر ہم اس سے اتنی کراہت محسوس نہیں کرتے۔ اس کے بعد کیا ہوا‘ ہمارا اس سے سروکار نہیں۔ ہم اس قصے کو یہیں پہ چھوڑ دیتے ہیں، کیونکہ ہمارا موضوع بلکہ مدعا پانی ہے۔ حرام جانوروں کی فروخت کے حوالے سے ایک بات تو رہ گئی، وہ یہ کہ اب بھی تواتر سے مردہ برائلر مرغیوں کے گوشت کی فروخت کی خبریں آتی رہتی ہیں اور کوئی بھی علاقہ ایسی خبروں سے بچا ہوا نہیں۔
پانی کے موضوع پر پہلے بھی کئی چیزوں کا ذکر ہو چکا ہے جن میں سے کچھ کو آج دہرانے کی ضرورت ہے‘ وہ یہ کہ پانی کی قلت اور آلودگی کی وجہ سے لوگوں کو یا تو پانی میسر نہیں یا وہ غیر صحت بخش پانی پینے پر مجبور ہیں۔ یہ بات بظاپر عام سی محسوس ہوتی ہے لیکن آگے بڑھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ بعض صورتوں میں تو پانی جعل سازی کے بھی کام آ رہا ہے۔ آپ یقینا جانتے ہوں گے؛ دودھ میں پانی ڈال کر بیچا جاتا ہے۔ یوں پانی دودھ کے بھائو بک رہا ہے۔ اب یہاں ایک بہت اہم سوال جنم لیتا ہے، وہ یہ کہ کیا دودھ میں ڈالا جانے والا پانی صاف ہوتا ہے؟ یقینا اس بات کا انحصار اس علاقے کے پانی پر ہے‘ جہاں پر یہ ملاوٹ کی جاتی ہے۔ اگر اس علاقے کا پانی کھارا ہے تو دودھ میں بھی وہی پانی ملایا جا رہا ہو گا مگر اس طرح کا پانی ملانے سے دودھ محض پتلا نہیں ہوتا بلکہ پانی کی طرح مضرِ صحت بھی ہو جاتا ہے۔ اگر آپ دودھ کو زیادہ دیر تک ابالیں گے تو پانی تو بخارات بن کر اڑ جائے گا مگر کھارے پن کے اثرات بہرحال کم نہیں ہو سکیں گے۔ اب بات اس سے بھی آگے بڑھ چکی ہے۔ آج کے دور میں جب زراعت کی اہمیت دوچند ہو چکی ہے‘ جعلی زرعی ادویات بھی اس طرح تیار ہوتی ہیں کہ ان کی مقدار بڑھانے کے لیے ان میں بھی پانی شامل کر دیا جاتا ہے۔ یہ ادویات چونکہ زہریلی ہوتی ہیں‘ اس لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں زہر بھی خالص نہیں رہا۔ انسانی استعمال میں آنے والے انجکشنز کا ذکر کیا کرنا، ان میں بھی پانی کی ملاوٹ کی جاتی ہے، لیکن سب سے زیادہ استعمال ہونے والی چیز جعلی کولڈ ڈرنکس ہیں۔ آپ نے اکثر یہ خبر سنی ہو گی کہ جعلی مشروبات کی فیکٹری پکڑی گئی، لیکن میری تشویش یہاں بھی اس میں ڈالے جانے والے مواد کے بجائے پانی سے متعلق ہے۔ کیا ایسے مشروبات میں استعمال ہونے والا پانی معیاری ہوتا ہے؟ یقینا جواب نفی میں ہے کیونکہ ناجائز منافع خوری کی وجہ سے ہی تو جعلی مشروب تیار کیے جاتے ہیں اور جو پانی میسر ہو‘ ان میں وہی استعمال کیا جاتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ ایک تو پانی مضرِ صحت‘ پھر یہ اتنا مہنگا بکتا ہے۔ اب آپ سے ایک ایسا سوال کروں گا جس کا جواب آپ کو بہر طور دینا ہوگا۔ جواب ہاں یا ناں میں ہونا چاہیے‘ یہ وارننگ میں پہلے ہی دے دوں کہ نہ صرف سوال تلخ ہو گا بلکہ شاید آپ کو اس سے گھن بھی آئے گی۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ اکثر دیہی علاقوں میں گائوں کا تمام سیوریج کا پانی ایک جوہڑ نما تالاب میں اکٹھا ہوتا رہتا ہے۔ پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کسان ٹیوب ویل چلاتے ہیں‘ جو بجلی یا ڈیزل سے چلتے ہیں۔ ان دونوں انرجی ذرائع کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس مہنگائی سے پہلے بھی بعض لوگ جوہڑ‘ مطلب گٹر نما تالاب کا پانی فصلوں کو لگاتے ہیں۔ اب لازمی بات ہے کہ یہ پانی تو مفت ہوتا ہے مگر مضرِ صحت بھی ہوتا ہے۔ جس فصل کو یہ پانی لگایا جاتا ہے‘ اس کھیت کی مٹی اور اس میں اگنے والی فصل میں بھی اس کے اثرات شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں‘ وہ اس کھیت سے حاصل ہونے والی فصل کو اپنے یا اپنے گھر والوں کے لیے نہیں رکھتے بلکہ تمام کی تمام فصل فروخت کر دیتے ہیں۔ جوہڑوں کا پانی کسی بھی صورت گٹروں کے پانی سے مختلف نہیں ہوتا جبکہ یہ پانی خوراک کا حصہ بن کر ہمارے استعمال میں آ رہا ہے۔ آپ نے یہ خبر سنی ہو گی کہ شہر کے قریب گٹروں اور نالے کے پانی سے کاشت ہونے والی فصلوں کو تلف کر دیا گیا۔ اکثر تو یہ فصلیں نظر میں آ جاتی ہیں مگر بہت بڑی تعداد ایسی ہے‘ بالخصوص دور دراز علاقوں میں کاشت ہونے والی فصلیں جنہیں گندے نالوں اور گٹروں کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے‘ جو شہریوں کے استعمال میں آ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دور دراز علاقوں میں جو مضرِ صحت پانی استعمال ہو رہا ہے‘ اس کا کیا ہو گا۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ اور کیا کوئی حل بچا بھی ہے یا نہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں