کرپشن‘ ترقی اور وہ صاحب

کرپشن کی اقسام ہوں‘ اس کے مختلف انداز یا درجہ بندیاں‘ بد قسمتی سے ہمارے ملک بشمول ہمارے خطے جنوبی ایشیا میں یہ سب کچھ اس انداز اور شدت سے موجود ہے کہ آپ اس کا مطالعہ و تحقیق کر سکتے ہیں۔ لیکن کیا عجیب صورتحال ہے کہ ایک وفاقی وزیر نے اپنے بیان میں ایک ایسی منطق پیش کردی ہے کہ جو شاید نہیں بلکہ یقینا پوری دنیا میں منفرد ہے۔ اس بیان کا کافی چرچا ہے‘ اس لیے آپ کو بھی یاد آہی گیا ہو گا کہ احسن اقبال صاحب نے کہا ہے کہ وہ کئی ایسے ممالک کے نام بتا سکتے ہیں جنہوں نے کرپشن کے باوجود ترقی کی ہے۔ اب اس تناظر میں زیادہ دماغ کھپانے کی ضرورت نہیں ہے‘ کیونکہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں چند ہی ایسے ہیں جنہوں نے گزشتہ ستر سے 75 برسوں میں ترقی کی ہے‘ باقی یا تو اس سے پہلے کے ترقی یافتہ ہیں یا پھر اب بھی ترقی پذیر ہی کہلواتے ہیں۔ سب سے پہلے تو مغربی ممالک ہیں جنہوں نے صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی ترقی کے پھل کو حاصل کر لیا تھا‘ لیکن ان تمام ممالک میں کرپشن نام کا جانور تو درکنار کوئی پرندہ بھی نہیں ملتا۔ ان ممالک میں کرپشن کا کوئی الزام ہی لگ جائے تو لوگ عہدہ چھوڑ دیتے ہیں‘ کوئی حادثہ ہو جائے تو متعلقہ وزیر استعفیٰ دے دیتا ہے۔ بیسویں صدی میں سب سے پہلے روس وہ ملک تھا جس نے تیزی کے ساتھ ایک ترقی یافتہ ملک کا درجہ حاصل کیا تھا۔ اس ملک نے دوسری عالمی جنگ جیتی اور اس کے بعد امریکہ کے برابر کی طاقت بنا رہا۔ انقلابی قیادت کے ہٹ جانے کے بعد وقت کے ساتھ اس ملک میں کرپشن قدرے ابھری اور اشرافیہ کے کچھ لوگ اس میں ملوث ہونا شروع ہوگئے۔ اس کے بعد یہ ملک نہ صرف اپنی عالمی برتری گنوا بیٹھا بلکہ چودہ حصوں میں تقسیم بھی ہو گیا۔ اس کے بعد جاپان وہ ملک ہے جس نے ایٹمی حملے کے بعد دوبارہ کوشش کی اور ایک ترقی یافتہ ملک بنا‘ صرف الزام لگنے پر استعفیٰ دینے والوں میں یہاں کے لوگ سر فہرست ہیں۔
اب آگے ذکر آتا ہے دو بڑی مثالوں کا‘ مطلب دو ایسے ممالک جنہوں نے گزشتہ کچھ دہائیوں میں ترقی کی ہے۔ اس میں پہلی مثال سنگاپور کی ہے۔ یہ ایک شہر پر مشتمل ملک ہے۔ اس کے سب سے پہلے وزیراعظم نے اپنے پولیس چیف کو بلایا اور کہا کہ میں اس ملک میں کرپٹ لوگوں سے نجات اور قانون کی عملداری میں اعلیٰ ترین نتائج چاہتا ہوں‘ کیا تم یہ کر سکتے ہو؟ اس پولیس چیف نے یہ تاریخی الفاظ کہے: یہ بالکل ممکن ہے مگر جناب وزیراعظم‘ احتساب آپ سے شروع ہوگا۔ اب اس بات سے جو بات اس نے واضح کی وہ یہ تھی کہ اگر کرپشن یا قانون کی عملداری میں آپ‘ یعنی وزیراعظم‘ بھی ملوث ہوئے تو مجھے اختیا ر ہو کہ میں آپ کو گرفت میں لا سکوں‘ تو میں پورے ملک میں قانون کا بول بالا کر سکوں گا۔ وزیراعظم نے اس پولیس چیف کو اس بات کی یقین دہانی کروائی۔ اس وزیراعظم کی ایک وڈیو موجود ہے جس میں وہ‘ محاورۃً یہ کہتا ہے کہ اگر میرے مرنے کے بعد بھی کوئی کام خراب ہوا تو میں قبر سے باہر آکر اسے روکوں گا۔ آج یہ ملک پوری آب و تاب سے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں جگمگا رہا ہے۔
اب اس کے بعد باری آتی ہے تیزی سے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بنتے ملک‘ یعنی چین کی جہاں کرپشن کی لعنت بہت زیادہ تھی۔ اس کے حکام نے محسوس کیا کہ ان کی ترقی کی راہ میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو انہوں نے بڑی کرپشن کے کیسز میں سزائے موت تک لاگو کردی۔ حد تو یہ ہے کہ مجرم کو گولی مارنے کے بعد وہ اس گولی کی قیمت بھی مرنے والے کے لواحقین سے وصول کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر قانون کی عملداری میں سزائے موت کی مخالفت کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ قتل کے کیسز میں بھی عمر قید تک ہی کی سزا دی جاتی ہے۔ لیکن چین نے کرپشن پر سزائے موت رکھی ہے‘ حالانکہ وہ یہ بھی کر سکتے تھے کہ کرپشن کرنے والے کی تمام جائیداد اور اثاثے ضبط کر لیتے اور اس کو عمر قید کی سزا دے دیتے‘ لیکن چین کے حکام کے مطابق یہ اتنی بڑی لعنت اور رکاوٹ ہے کہ باقی لوگوں کو باز رکھنے کیلئے کرپٹ شخص کیلئے سزائے موت ہی رکھی گئی۔ چین کا دورہ کرنے والے لوگ بتاتے ہیں کہ جب وہ سیر کرتے ہوئے کسی ٹورسٹ گائیڈ یا ڈرائیور سے کچھ معلومات لیتے تھے تو بتاتے تھے کہ جس پل کے اوپر سے ہم گزر رہے ہیں‘ کبھی یہ پل گر گیا تھا تو تعمیر کا ٹھیکہ لینے والے کو اسی جگہ دفن کر دیا گیا تھا۔ وہ اس طرح کی متعدد مثالیں اور بھی دیتے ہیں۔ اگرچہ اس وقت چین دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے لیکن تقریباً دو برسوں کے اندر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے جا رہا ہے۔ اور ایسا کرتے ہوئے وہ امریکہ سے پہلے نمبر کا درجہ چھین لے گا۔ اب ترقی کی چین سے بڑی مثال تو پوری دنیا کی پوری تاریخ بھی کھنگال لیں تو نہیں ملتی۔ واضح رہے چین اپنی آزادی کے وقت تقریباً مکمل طور پر ناخواندہ‘ صرف زراعت پر انحصار کرنے والا انتہائی غریب ملک تھا۔ زیادہ دور جانے کی بھی ضرورت نہیں‘ 1990ء تک چین کی فی کس آمدنی پاکستان کی فی کس آمدنی سے بھی کم تھی۔ چین کے متعلق مشہور ہے کہ 1980ء کی دہائی تک چین میں جو بھی دو لوگ ملتے تھے تو وہ ایک دوسرے کو سلام کرنے‘ مطلب حال احوال پوچھنے کے بجائے یہ پوچھتے تھے کہ کیا تم نے کھانا کھا لیا ہے؟ مجھے آج بھی یاد ہے کہ نوے کی دہائی میں یہ الفاظ ایک اخبار میں چھپے تھے کہ اب چین اس قابل ہو گیا ہے کہ اس کے لوگ کھانے کی بجائے یہ پوچھتے ہیں کہ ''تم کیسے ہو‘‘۔ جبکہ کرپشن کے ناسور سے نجات حاصل کرنے کے لیے انہیں کیا کرنا پڑا وہ ہم ذکر کر چکے ہیں۔
چین کے علاوہ حالیہ برسوں میں ترقی کرنے والے ممالک میں جنوبی کوریا کا ذکر بھی آتا ہے۔ اس ملک میں بھی اتنی ترقی ہوئی ہے کہ اسے ترقی یافتہ ممالک میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس کا جڑواں ملک شمالی کوریا ہے‘ جس کے ساتھ اس کے تعلقات بہت کشیدہ ہیں۔ شمالی کوریا ایک ایٹمی طاقت ہے مگر معاشی طور پر انتہائی پسماندہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس ملک میں سیاسی کرپشن ہے کیونکہ وہاں پر ایک ہی خاندان کی حکومت چلی آرہی ہے۔ ملک میں انتہائی سخت گیر قسم کے قوانین لاگو ہیں‘ لوگ گھٹن کا شکار ہیں لیکن اس ملک کا حکمران اور اس کے قریبی لوگ انتہائی شاہانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ مزید غور کریں تو ایک ملک ملائیشیا نظر آتا ہے جو تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس کا بنیادی کردار حال ہی میں انتقال کرنے والے مہاتیر محمد صاحب تھے۔ لیکن یہاں بھی عجیب قصہ کرپشن کا خاتمہ ہے‘ مہاتیر محمد صاحب اقتدار سے علیحدہ ہوئے تو آنے والے حکمران نے کرپشن کا بازار گرم کر دیا‘ مجبوراً مہاتر محمد بڑھاپے کی عمر میں دوبارہ الیکشن لڑ کر اقتدار میں آئے اور دوبارہ سب سے پہلے کرپٹ لوگوں ہی کو سزا دی۔ اب ان ممالک کے علاوہ کوئی اور ملک ایسا نہیں ہے جس نے اتنی ترقی کر لی ہو کہ اس نے ترقی پذیر کے بجائے درمیانی ترقی‘ Moderately developedکا درجہ ہی حاصل کیا ہو۔
اب بات ہمسایہ ملک بھارت کی جس نے آزادی چین سے دو سال پہلے حاصل کی‘ آزادی کے وقت اس کا انفرا سٹرکچر بھی چین سے بہتر تھا‘ پھراس ملک میں کبھی جمہوریت بھی پٹڑی سے نہیں اتری‘ یہ ملک سیاسی طور پر سیکولر بھی ہے‘ قدرتی وسائل بھی کسی سے کم نہیں مگر یہاں دنیا کی سب سے بڑی غریب آبادی رہتی ہے۔ اس ملک میں اب بھی کروڑ لوگوں کو یہ تک نہیں پتہ کہ بجلی کس چیز کا نام ہے۔ اس ملک میں چالیس فیصد سے زیادہ بچے کم وزن کے پیدا ہوتے ہیں۔ اب اگر آپ اس ملک کی ترقی نہ کرنے کی یا پسماندگی کی وجہ ڈھونڈیں گے تو آپ کو کرپشن کے علاوہ اور کوئی وجہ نظر نہیں آئے گی۔ اب احسن صاحب نے کس حساب سے یہ بیان داغا‘ اس کا حساب میں تو نہیں لگا سکا۔ آپ کیا کہتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں