کرپشن اور ترقی

کرپشن ویسے تو نہ صرف پاکستان بلکہ اس پورے خطے کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال بھارت میں ایک فرم کی جانب سے متعدد بینکوں کے ساتھ کیا جانے والا 34 ہزار کروڑ سے زائد مالیت کا فراڈ ہے۔ اب یہ پڑھ کر سب سے پہلے تو اس کا سادہ اعداد میں اندازہ لگا لیں۔ پہلے یہ سمجھ لیں کہ سو کروڑ ہوں تو ایک ارب بنتا ہے، یوں ایک ہزار کروڑ کا مطلب ایک کھرب ہے۔ اب علم ہوا کہ 34 کھرب بھارتی روپوں کا فراڈ ہوا ہے۔ اس رقم کو اگر امریکی ڈالر میں تبدیل کریں تو یہ 43 ارب ڈالر سے بھی زیادہ رقم بنتی ہے۔ امریکی ڈالر میں بیان کرنے سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ رقم دنیا کے بے شمار ممالک کے کل جی ڈی پی کے مساوی ہے۔ اس رقم کو ایک اور سادہ طریقے سے بیان کریں تو حساب کچھ یوں بنے گا کہ یہ رقم اگر بھارت میں ایک کروڑ فی خاندان کے حساب سے بینک میں لمبے عرصے کے لیے فکسڈ ڈیپازٹ کرا دی جائے تو 34 ہزار خاندان ماہانہ لگ بھگ ایک لاکھ روپیہ منافع لے سکتے ہیں‘ وہ بھی گھر بیٹھے۔ اس بات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ 34 ہزار خاندان گھر بیٹھے اس رقم سے بسہولت اوسط زندگی بسر کر سکتے ہیں۔پاکستان کی معیشت کے حساب سے یہ کتنی بڑی رقم ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ رقم لگ بھگ پاکستان کے ایک تہائی غیر ملکی قرض کے مساوی ہے۔ لیکن اس فراڈ کے کرداروں کو پکڑنے، ان سے یہ رقم واپس لینے کے حوالے سے بھارت میں کوئی خاص ہلچل نہیں ہو رہی؛ البتہ ایک بات ضرور ہے کہ اپوزیشن والے اپنا سیاسی سکور بڑھانے کی حد تک اس کرپشن کیس سے متعلق کچھ واویلا ضرور کر رہے ہیں۔
مذکورہ کیس کو مختصراً جان لیں کہ ایک کمپنی DHFL نے 2010ء سے 2018ء کے دوران یونین بینک آف انڈیا (یو بی آئی)کی قیادت میں 17 بینکوں سے 42 ہزار کروڑ روپے سے زائد کا قرض لیا تھا۔ جس میں سے 34615 کروڑ روپے بقایا ہیں۔ اس قرض کو 2020ء میں فراڈ قرار دیا گیا تھا۔یو بی آئی کا کہنا ہے کہ قرض جن مقاصد کے لیے حاصل کیا گیا‘ ان منصوبوں پر خرچ نہیں ہوا بلکہ یہ رقم ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں دوسری کمپنیوں کو منتقل کر دی جاتی تھی۔ لگ بھگ 65 کمپنیوں کو یہ رقم منتقل کی گئی۔ممکن ہے کہ اس طریقہ کار سے آپ کو ہمارے ہاں چل رہے کچھ مشہور کیسز یاد آ جائیں۔ بہر حال آج کے کالم میں کرپشن کا ذکر جس بیان کے حوالے سے ہو رہا ہے وہ بھی آپ کو یاد ہوگا۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی کا فرمانا ہے کہ کرپشن ملکی ترقی میں رکاوٹ نہیں ہے‘ کئی ایسے ممالک ہیں جنہوں نے ہم سے زیادہ کرپشن کے باوجود ترقی کی ہے۔
پہلے ذکر ملک میں کرپشن کے ان اندھے کنووں کا ہو جائے جن میں گرنے والے پیسے ہزاروں نہیں بلکہ اربوں کروڑ ہیں اور جن کا کوئی ذکر بھی نہیں کیا جاتا۔ اس میں سرفہرست بجلی کے محکمے کی کرپشن ہے جو لامحدود رفتار سے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ سرکاری اہلکار غیر رسمی گفتگو میں اور ماہرین اپنے انٹرویوز میں اس کو باقاعدہ تسلیم کرتے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں حکومت کی جانب سے حالیہ پے در پے اضافے سے پہلے کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ سالانہ تین ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے جبکہ تین ارب کے قریب بجلی لائن لاسز میں ضائع ہو جاتی ہے۔ اب یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حالیہ اضافوں کے بعد بجلی کی چوری لامحالہ بڑھے گی۔ اس چوری میں بڑا حصہ صنعتی علاقوں کا اس لیے ہوتا ہے کہ ایک طرف تو بجلی کا استعمال زیادہ ہوتا ہے‘ دوسرا کمرشل استعمال کے نرخ واضح طور پر زیادہ ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے ایک دوست‘ رانا صاحب نے عجیب انکشاف کیا۔ کہنے لگے: پروفیسر صاحب! بجلی کا محکمہ کرپشن کے حوالے سے پولیس کو بھی مات دے چکا ہے۔ میں نے وضاحت مانگی تو بولے: پولیس کے محکمے سے چونکہ ہر بندے کا واسطہ نہیں پڑتا۔ آپ خود ہی سوچیں کہ پچھلے پانچ سالوں میں آپ کتنی بار پولیس سٹیشن گئے؟ آپ کو کتنے ہی ایسے لوگ مل جائیں گے جن کا زندگی میں کبھی پولیس سے واسطہ نہیں پڑا ہو گا لیکن...! وہ گفتگو کو روکتے ہوئے بولے: اور یہ بہت بڑا لیکن ہے کہ بجلی کے محکمے سے ہر کسی کا اور ہر وقت کا واسطہ ہے کیونکہ بجلی تو ہر کوئی اور تقریباً ہر وقت استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح یہ واسطہ اس وقت متعدد واسطوں میں بدل جاتا ہے جب بجلی چلی جاتی ہے، مطلب اگر بجلی کی بندش کا دورانیہ طویل ہو جائے تو لوگ متعلقہ دفتر والوں کو فون کر کے واسطے دیتے ہیں کہ بجلی بھیج دیں۔ اصل بات کی طرف واپس آتے ہوئے رانا صاحب بولے کہ جو بجلی کے چھ سو ارب روپے کے نقصان کی بات آپ نے کی‘ وہ بھی بل دینے والوں ہی کے کھاتے میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ اب اس میں یقینی طور پر اضافہ ہو گا کیونکہ بجلی کے نرخوں میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے بلکہ آئندہ بھی یہ اضافہ جاری رہنے کا خدشہ ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ جو چوری ہر وقت ہو رہی ہے اور دھڑلے سے ہو رہی ہے‘ حکومت اس کو روکنے میں ناکام ہے تو باقی کرپشن کو کیسے روکے گی۔
اب ایک اور کرپشن کے معاملے کی طرف چلتے ہیں جس کو کرپشن کی دیوی بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ سگریٹ نوشی سے متعلق ہے۔ پاکستان میں لگ بھگ بیس فیصد‘ مطلب سوا چار کروڑ لوگ سگریٹ پیتے ہیں۔ آپ فی کس ایک پیکٹ کا حساب لگا لیں تو روزانہ کم و بیش چار کروڑ سگریٹ کے پیکٹ فروخت ہوتے ہیں۔ سگریٹ کے ٹاپ برانڈز کی قیمت کا ذکر کریں تو پتا چلتا ہے کہ حالیہ بجٹ کے بعد فی پیکٹ چالیس روپے تک کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اسی طرح گزشتہ دس سالوں سے تقریباً ہر سال سگریٹ پر ٹیکس میں دس فیصد کی شرح سے اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اس پر چونکہ کوئی اعتراض بھی نہیں کرتا کہ سگریٹ پر ٹیکس کیوں بڑھا ہے لہٰذا حکومت ہر بجٹ میں سگریٹ پر ٹیکس لازماً بڑھاتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ جو پیسہ سگریٹ نوشوں کی جیب سے نکلتا ہے وہ ملکی خزانے میں کیوں نہیں پہنچتا؟ محض دو سالوں کا ٹیکس اضافہ لے لیں تو یہ لگ بھگ ساٹھ روپے فی پیکٹ بنتا ہے‘ اگر پچاس روپے کی اوسط رکھیں اور اس کو چار کروڑ سے ضرب دیں تو یہ دو ارب روپے روزانہ بنتے ہیں۔ اگر یہاں کوئی سوال اٹھائے کہ کچھ برانڈز سستے بھی ہوتے ہیں جو عموماً مزدور طبقہ پیتا ہے تو اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اس کے مقابلے میں بڑے برانڈز بھی ہیں جو امرا کا شوق ہیں اور ان پر ٹیکس بھی زیادہ ہے۔ پھر بھی ٹیکس کی لاگت پچاس کے بجائے پچیس روپے کر لی جائے تو بھی روزانہ کی بنیاد پر ایک ارب روپے اکٹھے ہونے چاہئیں۔ یقینا اکٹھے ہوتے ہوں گے مگر سگریٹ نوشوں کی جیب سے نکل کر قومی خزانے کے بجائے ٹیکس کے محکمے کے اہلکاروں، سگریٹ بنانے والوں اور اس کے تقسیم کنندگان کی گہری اور لمبی جیبوں میں چلے جاتے ہوں گے۔
ہم نے چند حقائق کے ساتھ حکومت کی توجہ دن رات ہونے والی اس چوری اور فراڈ کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ہے جس کی مجموعی لاگت کم و بیش ایک ہزار ارب روپے بنتی ہے۔ اب یہ کتنے ارب ڈالر بنتے ہیں اس کا ذکر پھر کبھی! بات شروع ہوئی تھی بھارت سے‘ جو سیکولر جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کہ جہاں ایک چائے والا بھی وزیراعظم بن جاتا ہے مگر اس کی معاشی ابتری دن بدن بڑھ رہی ہے۔ اس کے مقابل چین میں اپنی طرز کا ون پارٹی سسٹم ہے جس کو مغربی ممالک آمریت سے تشبیہ دیتے ہیں، وہاں لبرل ازم کا پیمانہ بہت نیچے ہے، میڈیا بھی کنٹرولڈ ہے مگر پھر بھی وہ ترقی کر رہا ہے۔ دونوں ملکوں میں فرق صرف کرپشن کا ہے۔ بھارت میں کرپشن ایک کلچر کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ چین میں اس کی سزا موت ہے۔ وزیر صاحب نے ابھی تک اپنے بیان کی کوئی معقول وضاحت پیش نہیں کی۔ مطلب انہیں چاہیے کہ وہ ایسے ممالک کی مثال بھی پیش کریں جنہوں نے کرپشن کے باوجود ترقی کی ہے۔ویسے انہوں نے اپنے بیان میں ''کئی ملکوں‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہاں کرپشن کے باوجود ترقی ہوئی۔جناب وزیر صاحب آپ نے یہ کیا قصہ چھیڑ دیا ہے‘اب اس فلسفے کے بانی کا نام بھی بتا دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں