''زمین و آسمان کبھی بھی انسان کے لیے اس ملک سے زیادہ بہتر رہائش پر متفق نہیں ہوئے‘‘۔ امریکا کے بارے میں سب سے زیادہ یہی جملہ بولا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے، کیونکہ زرعی وسائل، معدنی خزانوں اور موسمی تغیرات‘ ان سب حوالوں سے یہ ملک انتہائی امیر ہے۔ اس کے بعد اس ملک کا جغرافیہ بہت آئیڈیل ہے کہ کوئی بھی ایسا بڑا یا طاقتورملک اس کے پڑوس میں نہیں ہے جس سے اس کو کوئی خطرہ لاحق ہو۔ اس کے مشرق اور مغرب کی جانب دنیا کے دو بڑے سمندر بحر اوقیانوس اور اٹلانٹک ہیں، اس کے شمال میں کینیڈا جیسا پُرامن ملک ہے۔ اس کے جنوبی علاقے سے میکسیکو جیسے قدرے غریب اور انڈر ورلڈ کا گڑھ سمجھے جانے والے ایک غیر مستحکم ملک کی سرحد لگتی ہے لیکن اس سے امریکا کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اب باری آتی ہے انسانی وسائل کی‘ امریکا جدید تحقیقات اور ایجادات کے حوالے سے دنیا کا سرخیل سمجھا جاتا ہے۔ عسکری صنعت میں امریکا بلاشرکت غیرے دنیا بھر میں اپنی اجارہ داری رکھتا ہے۔ دنیا کی کل آمدنی کا ایک چوتھائی حصہ اکیلا امریکا لے جاتا ہے، جبکہ دنیا کی کل آبادی کا محض پانچ فیصد اس ملک میں آباد ہے۔ اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ سالانہ کل آمدن کے حوالے سے چین آنے والے دو سالوں میں امریکا کو پیچھے چھوڑ دے گا لیکن یہ بات بہت اہم ہے کہ چین کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ ہے جبکہ امریکہ کی کل آبادی چالیس کروڑ سے بھی کم ہے۔ اس طرح امریکا فی کس آمدن کے حوالے سے چین سے کہیں آگے ہے اور رہے گا۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ چین کی سالانہ فی کس آمدن 11 ہزار ڈالر ہے جبکہ امریکا کی سالانہ فی کس آمدن تقریباً 63 ہزار ڈالر ہے۔
امریکا ایک ایسا ملک ہے جہاں پوری دنیا کے علاقوں، مذاہب، زبانوں اور نسلوں کے لوگ آباد ہیں۔ اسی لیے امریکا کو Nation of the Nations یعنی اقوام کی قوم یا عالمی قوم کہا جاتا ہے۔ سماجی ماہرین کی نظر میں اتنے زیادہ تنوع والا ملک معاشرتی طور پر زیادہ مضبوط نہیں ہوتا۔ اس امر کو سماجیات کی زبان میں Homogenity Index یعنی یگانگت کا پیمانہ کہا جاتا ہے لیکن امریکا نے اپنے ہاں قانون کی عملداری اور معاشی مضبوطی سے اس کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیا، بلکہ امریکی اس کو Unity in Diversity کا نام دیتے ہیں۔ یہاں ایک معنی خیز واقعہ بیان کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک بار ایک امریکی سفیر سے کسی نے سوال کیا کہ امریکا جانے کے لیے بہت زیادہ اور خاصے مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اس پر امریکی سفیر نے جواب دیا کہ اگر کوئی شخص ان تمام مشکل مراحل کو عبور کر سکتا ہے تو ایسے دماغ والے کی امریکا کو چوبیس گھنٹے اور سارا سال ضرورت ہے۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ امریکا دماغی صلاحیتوں والے افراد اور بھاری سرمایہ رکھنے والوں کو ہر حال میں خوش آمدید کہتا ہے۔ یہ ہیومن ریسورسز ہی اس کی کامیابی کا ایک بڑا راز ہیں۔
ان سار ی باتوں اور حقیقتوں کے باوجود امریکا اب کچھ بہت خاص قسم کے مسائل کا شکار ہو چکا ہے۔ یہ سلسلہ پچھلے دو‘ تین سالوں میں اپنے عروج پر پہنچ کر امریکا کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا چکا ہے۔ نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ امریکا کے سکیورٹی ادارے اس کے بارے میں باضابطہ طور پر خبردار کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ذکر امریکا کی سیاہ فام آبادی کا‘ جو امریکا کی کل آبادی کا تقریباً چودہ فیصد ہے۔ یہ گوروں کے بعد دوسری سب سے بڑی اکائی ہے۔ یہ لوگ ان غلاموں کی اولاد ہیں جن کو جبری مزدوری کیلئے افریقہ سے لایا جاتا تھا۔ یہ آبادی باضابطہ طور پر اپنے حقوق ہی نہیں بلکہ اپنی بقا کی جنگ بھی لڑ رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ امریکی سفید فام پولیس کے ہاتھوں تواتر سے سیاہ فام لوگوں کا ہلاک ہونا ہے۔ اس سلسلے میں I Can't Breathe کا مشہور جملہ‘ جو ایک سیاہ فام جارج فلائیڈ نے اس وقت بولا تھا جب ایک پولیس والے نے اس کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھ کر اپنا پورا وزن اس پر ڈالا ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں اس کی ہلاکت بھی ہو گئی تھی‘ایک تحریک کا نعرہ بنا تھا۔ اس واقعے کے بعد Black Lives Metter کا سلوگن بلند ہوا تھا۔ آج پوری دنیا میں کوئی بھی کرکٹ میچ شروع ہونے سے پہلے تمام کھلاڑی اپنی ایک ٹانگ دہری کرکے زمین پر لگا کر اور اپنے ایک ہاتھ کا مکا بنا کر ہوا میں لہرا کر اس مہم سے وابستگی کا اقرار کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک اور سیاہ فام نوجوان کی ہلاکت کے بعد امریکا میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ پولیس نے اس شخص کو پکڑنے کے لیے اس پر 90 سے زائد گولیاں برسائیں جن میں سے اسے 60 گولیاں لگیں۔ حالیہ مظاہروں میں ایک پلے کارڈ پر درج تھا کہ ''انصاف نہیں تو امن نہیں‘‘۔ سیاہ فاموں نے ایک تنظیم ''امریکی ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف بلیکس‘‘ بنا رکھی ہے جو بہت فعال ہے۔ اس تنظیم نے اس ہلاکت کو کھلا قتل قرار دیا ہے۔ اس سے قبل یہاں چین اور منگولین نسل کے لوگوں پر تشدد اور ان کی ہلاکتوں کی ایک خطرناک لہر بھی چلی تھی۔ اس پُرتشدد لہر میں چین سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا جاتا تھا۔ یہ کووڈکی وبا کے عروج کے دنوں کی بات ہے۔ اس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چین سے متعلق بیانات اور کورونا کو چینی وائرس قرار دینے کے روش نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔ اس کو روکنے کے لیے چینی افراد نے ''ایشیا سے نفرت چھوڑ دو‘‘ کے عنوان سے ایک تلخ اور تیز مہم چلائی تھی۔ اس کے بعد تشدد کے واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی تھی۔ اس مہم سے پہلے مسلمان امریکیوں کی نفرت کا نشانہ بنتے تھے۔ حجاب میںملبوس خواتین پر حملوں کے بے شمار واقعات رپورٹ ہوئے۔ حالیہ تاریخ سے علم ہوتا ہے کہ ہر دور میں امریکیوں کو کوئی مشترکہ دشمن درکار ہوتا ہے جو اس قوم کو یکجا رکھتا ہے۔
اب ذکر ایک حالیہ واقعے کا جو امریکا کے یومِ آزادی یعنی چار جولائی کو ایک پریڈ کے دوران پیش آیا۔ اس میں مبینہ طور پر ایک سفید فام نوجوان نے فائرنگ کر کے چھ لوگوں کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ پولیس نے ملزم کی گرفتاری نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو گھروں سے باہر نہ آنے کی وارننگ جاری کر دی۔ اس کے بعد سینکڑوں پولیس والے اور دیگر سکیورٹی ادارے سارے علاقے کو گھیرے میں لے کر ہر گھر کی تلاشی لینے لگے۔ یہ مناظر ٹی وی پر دیکھ کر یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب امریکا میں ہو رہا ہے۔ امریکی میڈیا اس واقعے کی شدت کو کم سے کم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔ کبھی زخمیوں کی تعدا درجنوں میں بتائی جاتی اور کبھی چند ایک۔ اسی طرح اس واقعے کی رپورٹنگ میں بھی کئی تضادات دیکھنے میں آئے۔ لیکن یہ واقعہ کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ اس طرح کے بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات اب امریکا میں ایک معمول بن چکے ہیں۔ امریکی میڈیا ان واقعات کو دہشت گردی کے بجائے Mass Shooting قرار دینے پر اکتفا کرتا ہے۔ تھوڑا تفصیل میں جائیں تو پتا چلتا ہے کہ صرف چار جولائی تک‘ اس سال امریکا میں اس قسم کے واقعات کی تعدا تین سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف اس سال میں اوسطاً ماہانہ ایسے پچاس واقعات پیش آئے جو ہر لحاظ سے بہت زیادہ ہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق‘ امریکا میں اس طرح کے واقعات کی تعداد پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پوری دنیا میں پیش آئے اس طرح کے کل واقعات کے تیس فیصد امریکا میں پیش آ رہے ہیں۔ جیسا پہلے عرض کیا کہ امریکا میں دنیا کی لگ بھگ پانچ فیصد آبادی رہتی ہے جبکہ دنیا کی کل آمدن کا پچیس فیصد امریکا کے حصے میں آتا ہے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فائرنگ کے واقعات کا تناسب امریکی آمدنی کے تناسب سے بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ اب امریکا کے لیے پوری دنیا کی فکر اور اس میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے بجائے نہ صرف اپنے ملک کے اندر کی فکر کرنے اور اس میں سدھار لانے کا وقت آن پہنچا ہے بلکہ یہ کافی حد تک گزر بھی چکا ہے۔ مطلب امریکا اس معاملے میں پہلے ہی خاصی تاخیر کا شکار ہو چکا ہے۔