اس سال کے اختتام یا اگلے سال کے پہلے مہینے میں دنیا جس چیز کو خاص طور پر نوٹس کرے گی وہ دنیا کی کل آبادی کا آٹھ ارب کے ہندسے کو عبور کرنا ہو گا۔ وقت بتانے والی گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی سب سے تیز چلتی سے لیکن اگر بات کی جائے کہ وہ کون سی چیز ہے جو سیکنڈ کی سوئی سے بھی تیز ہے تو وہ دنیا میں آبادی میں اضافے کی نشاندہی کرنے والے کلاک کی سوئی ہے۔ سادہ لفظوں میں آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر سیکنڈ میں دنیا میں دو لوگوں کا اضافہ ہوتا ہے اور یہ اضافہ انتقال کر جانے والوں کو مائنس کر کے بتایا جا رہا ہے۔ اس اوسط کو ہم دنیا میں سالانہ کل اضافے سے بہتر طور سمجھ سکتے ہیں جو تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ ہے۔ دنیا کی آبادی نے سات ارب کا ہندسہ اکتوبر 2011ء میں عبور کیا تھا۔ اس طرح گیارہ سال سے کچھ زیادہ وقت میں یہ آٹھ ارب ہونے جا رہی ہے۔ اس سے پہلے دنیا کی آبادی چھ ارب 1999ء میں اکتوبر ہی کے مہینے میں ہوئی تھی۔ یعنی چھ ارب آبادی کے سات ارب ہونے میں 12 سال لگے۔ اب سات ارب سے آٹھ ارب ہونے میں گیارہ سال کا عرصہ لگا ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کی آبادی میں کل اضافے کا نوے فیصد ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ مسلم دنیا سالانہ کل اضافے کے اعتبار سے باقی دنیا سے کہیں آگے ہے۔ یہاں پر ایک بات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے اور وہ یہ کہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں آبادی میں کل اضافہ تقریباً صفر ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں بچوں کی پیدائش نہیں ہو رہی بلکہ سالانہ بچوں کی کل پیدائش، ان ممالک میں انتقال کر جانے والے افراد کی تعدا د کے برابر ہوتی ہے۔ بلکہ کچھ ممالک میں تو شرحِ پیدائش شرحِ اموات سے بھی کم ہے جس کی وجہ سے ان ممالک میں شرحِ آبادی میں اضافہ منفی میں ہے۔ اس سلسلے میں روس اور جاپان دو بڑی مثالیں ہیں جن کی آبادی میں مسلسل کمی نوٹ کی جا رہی ہے۔
اگر بات کی جائے جنوبی ایشیا، مطلب بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی‘ جو اس علاقے کے بڑے ممالک ہیں‘ تو دنیا میں آبادی میں سب سے زیادہ اضافے والا علاقہ یہی ہے۔ محض ان تین ممالک میں سالانہ کل اضافہ دو کروڑ پینتیس لاکھ سے زائد ہے۔ یہ اضافہ کل اضافے کا تیس فیصد بنتا ہے جو یقینا بہت زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں بنگلہ دیش ایک کامیاب ملک اس طرح قرار پائے گا کہ اس نے اپنی آبادی کی رفتار پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔ اس کی کل آبادی ساڑھے سولہ کروڑ ہے جبکہ 1971ء میں اس کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔ تھوڑا غور کریں تو یہ انتہائی غیر معمولی بات ہے۔ واضح رہے کہ بھارت میں سالانہ کل اضافہ ایک کروڑ ستر لاکھ ہے جو انتہائی تشویش ناک ہے۔
دنیا میں اہمیت کے حامل موضوعات کو اجاگر کرنے کے لیے ایک مخصوص دن منایا جاتا ہے، اس فہرست میں پانی کا عالمی دن، ماحولیات کا عالمی دن، زمین کا عالمی دن، جنگلات کا عالمی دن وغیرہ اہم ہیں لیکن ایک بات بہت اہم اور خاص ہے اور وہ یہ کہ ان تمام مسائل کو پیدا کرنے والے فیکٹر مطلب آبادی میں خطرناک اضافے کا بھی عالمی دن منایا جاتا ہے اور یہ دن ہر سال گیارہ جولائی کو منایا جاتا ہے۔ اس سال یہ دن عید کی چھٹیوں کی وجہ سے اسی طرح نظر انداز ہو گیا جس طرح پاکستان میں آبادی میں ہونے والے اضافے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی آبادی 23کروڑ سے بھی زائد ہو چکی ہے اورخطرناک بات یہ ہے کہ اس میں ہر سال پچاس لاکھ کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے یعنی ہر دو سال بعد ملکی آبادی میں ایک کروڑ کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ مزید غور طلب بات یہ ہے کہ یہ بھارت کے بعد، دنیا بھر میں سالانہ دوسرا بڑا اضافہ ہے۔ یہاں پر یہ سوال ابھر سکتا ہے کہ چین جو آبادی کے اعتبار سے تاحال دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے‘ اس کا سالانہ اضافہ پاکستان سے کم کیسے ہو گیا تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ اس کی آبادی میں سالانہ اضافہ پینتالیس سے اڑتالیس لاکھ ہے۔ اپنے قیام کے وقت پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا چودھواں بڑا ملک تھا لیکن اب یہ آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ پاکستان سے آگے انڈونیشیا ہے جس کی کل آبادی 28کروڑ ہے؛ تاہم اس کی آبادی میں سالانہ کل اضافہ 28 لاکھ ہے‘ اس حساب سے ہماری آبادی انڈونیشیا کے مقابلے میں سالانہ بائیس لاکھ زیادہ بڑھتی ہے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ چند ہی سالوں میں ہم آبادی کے اعتبار سے انڈونیشیا کو بھی پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ یہاں پر یہ پیشِ نظر رہے کہ جب پاکستان کی آبادی کی بات کی جاتی ہے تو اس میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی آبادی کوشمارنہیں کیا جاتا۔ اس کی وجہ ان علاقوں کا سپیشل سٹیٹس ہے۔ اگر ہم ان علاقوں کی آبادی کو بھی شامل کر لیں تو پاکستان کی آبادی میں ساٹھ سے ستر لاکھ کا مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ اپنے قیام کے وقت پاکستان کی آبادی محض سوا تین کروڑ تھی جو اب انتہائی تیزی سے بڑھ کر23کروڑ سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔
بات ہوئی آبادی کے دن کی اہمیت کی تو یہ ذہن میں رکھیں کہ ہمارے جیسے ممالک میں پانی کی کمی، ماحولیات کے مسائل، زیر کاشت رقبے میں کمی، کاشت کاری کے لیے آلودہ پانی کا استعمال، زیرِ زمین پانی کا معیار خراب ہونااور اس پانی کی سطح مسلسل نیچے جانا، یہ سب مسائل براہِ راست آبادی میں بے ہنگم اضافے کی وجہ سے ہیں۔ آبادی میں بے تحاشا اضافے کی وجہ ہی سے گوشت کی کمی پورا کرنے کے لیے برائلر مرغی کو متعارف کرایا گیا تھا۔ گھروں میں خالص دیسی گھی کی جگہ بناسپتی گھی کا استعما ل شروع ہوا تھا۔ زمینوں سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے مصنوعی کھادوں کا استعمال اور سب سے بڑھ کر دودھ کی طلب پوری کرنے کے لیے مصنوعی اور مضرِ صحت دودھ کی پیداوار۔ یہ سب مسائل آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ یہ مصنوعی خوراک 1970ء کی دہائی میں ہماری زندگی میں داخل ہونا شروع ہوئی تھی جبکہ اس وقت بزرگ حضرات مصنوعی کھاد والی زمین کی گندم تک نہیں کھاتے تھے، اسی طرح بہت سارے لوگ بناسپتی گھی کھانے سے انکاری تھے۔ یہ بزرگ کم از کم ایک کھیت ایسا ضرور رکھتے تھے جس میں مصنوعی کھاد استعمال نہ کی گئی ہو بلکہ یہ اس کھیت کو ٹیوب ویل کا پانی بھی نہیں لگاتے تھے۔ ان بزرگوں کو کیا علم تھا کہ ان کی آنے والی نسلیں گائوں کے پاس موجود تالاب نما جوہڑ کے پانی سے کاشت ہونے والی فصلیں اور سبزیاں بھی کھایا کریں گی۔ اور تو اور گوشت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ وقت بھی آئے گا کہ لوگ حرام جانور بھی ذبح کرکے بیچ دیں گے۔ یاد آیا ! مردہ مرغی یا پھر قریب المرگ جانوروں کا ذکر تو رہ ہی گیا‘ جن کا گوشت مردار جانوروں سے بھی زیادہ زہریلا اور مضرِ صحت ہو تا ہے۔ یہ بھی کھلے عام بیچا اور کھایا جاتا ہے۔
مغربی ممالک بالخصوص امریکا میں اب بھی آپ کو ایسی فصلیں، سبزیاں اورایسی گندم مل جاتی ہے جس کی کاشت میں مصنوعی کھاد استعمال نہ کی گئی ہو۔ ان چیزوں کی قیمت یقینا دوسری چیزوں سے زیادہ ہوتی ہے مگر ان کی لذت اور غذائیت کا مقابلہ دوسری اشیا سے نہیں کیا جا سکتا۔ دوست بتاتے ہیں کہ آپ جب کسی سٹور میں داخل ہوں تو سامنے واضح طور رپر لکھا ہوتا ہے کہ جو غذائی اجناس آپ خریدنے لگے ہیں وہ کس طرح کاشت کی گئی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اگر آپ انڈے خریدنے لگتے ہیں تو ان پر بھی لکھا ہوتا ہے کہ جس مرغی نے یہ انڈے دیے ہیں اس نے کس قسم کی غذا کھائی تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکا کی آبادی اس کے کل رقبے اور زیرِ کاشت رقبے کے مقابلے میں کہیں کم ہے اور اس میں سالانہ اضافہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے جیسے ممالک میں آبادی کی شرح پر قابو کیوں نہیں پایا جا سکا‘ اس کا ذکر اگلے کالم میں۔