ٹھنڈے چاول، کھٹا دہی اور گرم بوتل؛ مطلب بہت ہی خراب اور بدمزہ صورتِ حال ۔ پہلے اس کی تھوڑی وضاحت کر لیتے ہیں؛ چاول ٹھنڈے ہونے کے بعد اپنا ذائقہ اور کھلا پن کھو دیتے ہیں؛ اگرچہ دیہات میں قدرے سخت حالات کے شکار لوگ رات کے بچے چاول صبح کے وقت دہی اور شکر ڈال کر کھا لیتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا ذائقہ برقرار رہتا ہے۔ دوسری چیز دہی ہے‘ اب ظاہر ہے کہ اس کی بھی ایک طبعی عمر ہوتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پانی چھوڑ دیتا ہے اور اس کے ذائقے میں کھٹاس آ جاتی ہے۔ سب سے آخر میں ذکر کولڈ ڈرنک کا۔ ہر کولڈ ڈرنک بوتل پر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے کہ مکمل ٹھنڈی ہونے پر پیا جائے، لہٰذا اگر بوتل کسی بھی وجہ سے گرم ہو جائے تو اس کا ذائقہ کھانسی کے کسی میٹھے شربت جیسا ہو جاتا ہے اور اگر اس میں سے گیس نکل جائے تو یہ تقریباً رنگ دار پانی کی طرح ہو جاتی ہے (یہاں ایک نسخہ بتاتا چلوں کہ چھوٹے بچے اگر کولڈ ڈرنک پینے کی ضد کریں تو یہ نسخہ آزما کر دیکھیں، انہیں وہ بوتل دیں جس کی گیس مکمل طور پر نکل چکی ہو‘ اس کے بعد دوبارہ بچہ بوتل پینے کی خواہش کا اظہار یا ضد نہیں کرے گا)۔
ا ب سوال ہے یہ ہے کہ ٹھنڈے چاول، کھٹا دہی اور ٹھنڈی بوتل والی صورتِ حال کس کی ہے ؟ تو آپ کے ذہن میں شاید اتحادی حکومت کا نام آئے، حالیہ ضمنی انتخابات میں جس کی شکست کی وجہ سے اس کا یہ حال ہو چکا ہے، کسی قدر یہ بات بجا ہے مگر تھوڑا وسیع تناظر میں سوچیں تو آج ہر سیاسی جماعت کی یہی پوزیشن نظر آتی ہے۔ اگر بات کی جائے عوام کی تو وہ بھی ایسی ہی صورتِ حال سے دو چار ہیں‘ چاہے ان کا تعلق انتخابات جیتنے والی پارٹی سے ہی کیوں نہ ہو۔ سو مطلب یہ ہے کہ اس وقت مجموعی طور پر ملک کی سیاسی صورت حال انتہائی بد مزہ ہے۔
اب باری باری تمام فریقوں کی صورتِ حال کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے الیکشن جیتنے والی جماعت! حالیہ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ہونے والے انتخابات میں اکثریت یا فیصلہ کن برتری حاصل کی ہے، لیکن تاحال وزیر اعلیٰ اور گورنر جیسے عہدوں پر متحارب جماعت کے اراکین تعینات ہیں۔ گورنر تو خیر وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے‘ اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود تحریک انصاف صوبے کی وزارتِ اعلیٰ سے بھی محروم ہے۔ حالیہ الیکشن کے نتائج نے تختِ پنجاب کا فیصلہ اس کے حق میں تو کر دیا ہے لیکن شاید اب کوئی نیا کھیل شروع ہو جائے۔ آج (جمعہ کو) پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی کرسی کا فیصلہ ہونا ہے لیکن اس سے قبل ہی کئی ایسی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں کہ حالات کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ ایک اہم وفاقی وزیر صاحب کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ پانچ ایم پی ایز غائب ہو جائیں۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ وہ بھاری رقم یا کسی اور لالچ کے عوض پی ٹی آئی یا قاف لیگ کے کچھ ارکان کو وزیر اعلیٰ کے الیکشن میں ووٹ دینے سے باز رکھیں۔ یہاں پر یہ واضح رہے کہ اب کسی بھی صورت مخالف پارٹی کے امیدوار یا اپنی پارٹی کے امیدوار کے خلاف ووٹ نہیں دیا جا سکتا۔ بجٹ، عدم اعتماد اور وزیراعلیٰ؍ وزیراعظم کے انتخاب کے وقت بہر صورت تمام ممبرانِ اسمبلی کو پارٹی پالیسی کی ہی پیروی کرنا ہوتی ہے۔ اگر کوئی امیدوار پارٹی پالیسی سے انحراف کرے گا ، اول تو اس کا ووٹ شمار نہیں ہو گا، دوم، وہ اپنی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل ہو کر ڈی سیٹ بھی ہو جائے گا۔ حتیٰ کہ ایسے اہم اجلاس سے غیر حاضر رہنے کی صورت میں بھی رکن اسمبلی ڈی سیٹ ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد اگر ایسی کوئی صور تحال بنتی ہے‘ مطلب کوئی رکن پارٹی پالیسی سے انحراف کرتا ہے اور ڈی سیٹ ہو جاتا ہے تو تحریک انصاف اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت نہیں کر پائے گی یوں کچھ مزید وقت گزر جائے گااور پنجاب کی حکومت مسلم لیگ (ن) ہی کے پاس رہے گی۔ ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں دوبارہ ضمنی الیکشن ہو گا‘ اگر دوبارہ تحریک انصاف جیت جاتی ہے تو پھر ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا ۔ اگر کوئی رکن استعفیٰ دیتا ہے‘ تب بھی یہی صورتحال بنے گی۔
پی ٹی آئی کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہمارے ایک رکن پنجاب اسمبلی کو 40 کروڑ روپے دے کر منحرف کیا گیا اور وہ اب ترکیہ (ترکی) میں ہے۔ تحریک انصاف کے تین ممبران نے ایک بیانِ حلفی بھی جمع کرایا ہے کہ انہیں حکومت کی طرف سے خریدنے کی کوشش کی گئی۔ ایسا ہی الزام حکومت کے ایک اتحادی ایم پی اے نے تحریک انصاف پر بھی لگایا ہے یعنی وہی پرانے گھسے پٹے سیاسی حربے استعمال کر کے اکثریتی جماعت کو اقتدار سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ تازہ چاول تیار ہیں، دہی بھی اپنی خالص شکل میں اور تازہ ہے اور بوتل بھی ٹھنڈی ٹھار ہے لیکن تحریک انصاف اور اس کے اتحادی یہ سب کچھ کھا‘ پی نہیں سکتے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا‘ ان چیزوں کی وہی حالت ہو گی‘ جو آج کے کالم کا عنوان ہے۔ اسی لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ جیت اور برتری کے باوجود‘ پی ٹی آئی کے لیے سیاسی چاول، دہی اور بوتل بہت حد تک بد مزہ ہیں یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب چیزیں دیر سے ہی سہی تحریک انصاف اور اتحادیوں کو مل جانے کی امید ہے مگر اس وقت تک ذائقہ برقرار رہنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔ ایک بات اس سیاسی جماعت کے لیے ٹھنڈے چاولوں سے بھی زیادہ بدمزہ ہے‘ وہ یہ کہ وفاق میں اس کی حکومت نہیں ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ جماعت قومی اسمبلی سے استعفے دے چکی ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ وفاقی اسمبلی میں بھی دو سیٹیں خالی ہو چکی ہیں۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ اگر پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں چلی جاتی ہے تو تھوڑی سی کوشش پر دوبارہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ ایک سیاسی پنڈت کے مطابق‘ تحریک انصاف والوں کو اپنے استعفوں سے متعلق حکومتی موقف واضح کرنے کیلئے اپنے استعفوں کا سٹیٹس پتا کرنا چاہیے ۔ ایسا کرنے سے حکومت پر دبائو مزید بڑھے گا۔ اگر حکومت استعفے قبول کرے گی تو پھر ایک ایسے ضمنی الیکشن کا منظر بنے گا جو عام انتخابات کا ماحول پیدا کر دے گا۔ایسا ہونے سے اور کچھ ہو نہ ہو‘ تحریک انصاف کی الیکشن کی مشق پختہ ضرور ہو جائے گی اور عوام کے اندر اس کی پیدا کردہ تحریک مزید ولولہ پکڑے گی۔
اب بات حکومتی جماعت کی تو وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ نواز نے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے عہدے تو حاصل کر لیے مگر ابھی تک یہ جماعت ڈھنگ سے جشن بھی نہیں منا پائی کیونکہ آئی ایم ایف نے اس کے ساتھ وہ سلوک کیا ہے جس کا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ حتیٰ کہ ایک وفاقی وزیر کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ اس ادارے نے انہیں تگنی کا ناچ نچا دیا ہے ۔ ٹھنڈے چاول، کھٹا دہی اور گرم بو تل و الی صورت حال تو ان کے لیے اُسی وقت پیدا ہو گئی تھی جب موجودہ وزیر اعظم کو اپنی پہلی تقریر میں اعلان کردہ تنخواہوں میں اضافے کا بیان واپس لینا پڑ گیا تھا۔ یعنی سر منڈواتے ہی اولے پڑے۔ اس کے بعد ایم کیو ایم نے بھی حسبِ روایت حکومت سازی کا عمل مکمل ہوتے ہی نیم ناراضی والے بیانات دینا شروع کر دیے۔ بلوچستان کے کچھ اراکین کی طرف سے بھی ایسے ہی بیانات سامنے آئے۔ موجودہ حکومت ایک آدھ ووٹ کے سہارے کھڑی ہے۔ اس لیے موجودہ وزیراعظم صاحب کو اپنے بڑے بھائی کو بھی مطمئن کرنا پڑتا ہے اور پیپلز پارٹی کی قیادت اور دیگر اتحادیوں سے رابطہ اور انہیں بھی راضی رکھنا پڑتا ہے۔ حکومت کا مزہ سب سے زیادہ اس وقت خراب ہوا جب تیل کی قیمت جمع کے بجائے ضرب کی طرز پر بڑھانا پڑی۔ ایک بات تو ہر حد کو پار کر گئی جس نے کاروباری برادری کی امیدوں پر اوس ڈال دی۔ جی ہاں ! آپ نے صحیح اندازہ لگایاکہ ڈالر کی قیمت نے کاروباری طبقے‘ جو مسلم لیگ کا بڑا حامی سمجھا جاتا ہے‘ کا وہ حال کیا کہ کسی کو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی ۔ محض کاروباری طبقہ نہیں‘ اس سے مہنگائی اور معاشی ابتری کا ایک سیلاب برپا ہو گیا ہے۔ اس سیلاب نے نہ صرف اس حکومت کے رہنے کا جواز دائو پر لگا دیا ہے بلکہ آئندہ الیکشن کو بھی اس کے لیے مشکل ترین بنا دیا ہے۔
اب بات ایک ایسے پہلو کی جو انتہائی اہم، معنی خیز اور تلخ ہے۔ پہلے یہ جان لیں کہ کچھ سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے ایک تیر سے دو نہیں بلکہ تین شکار کر لیے ہیں۔ ایک تو وفاق اور پنجاب کی حکومت تبدیل کی، دوسرا انتہائی مشکل حالات کا سارا بوجھ نون لیگ کے کندھوں پر ڈال دیا جس سے پنجاب میں اس پارٹی کا ووٹ بینک بری طرح متاثر ہوا ۔ تیسر ا،وفاق کے اندر حکومت میں اپنا حصہ اس انداز سے حاصل کیا کہ حکومت کے ماتھے کا جھومر سمجھی جانے والی وزارت مستقبل کے اپنے وزیراعظم کے امیدوار کے لیے حاصل کر لی۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ حکومت اپنی بقا کیلئے پیپلز پارٹی کو ایک گارڈ فادر کی حیثیت سے دیکھتی ہے اور پارٹی کے قائد اور بعض سینئر رہنمائوں کے مشورے کے باوجود اسمبلیوں کو تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کرانے کے بجائے حکومت کرتے رہنے کے لیے پیپلز پارٹی سے مدد اور رہنمائی کی طالب رہتی ہے۔
حالات کے دوسرے رخ کو دیکھا جائے تو موجودہ وزیر اعظم پہلی دفعہ اس مسند پر بیٹھے ہیں، ان کا بیٹا بھی پہلی بار وزیر اعلیٰ بناہے لیکن جیسے پہلے ذکر ہواکہ دونوں مسلسل بڑھتے دبائو اور مشکلات کے بھنور کا شکار ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ مسلم لیگ نواز کی قیادت د وبڑے خاندانوں میں ہیں۔ ایک مستقبل کا وارث اس وقت وزیر اعلیٰ ہے جبکہ دوسری مستقبل کی جانشین کے پاس اس وقت کوئی سیاسی و حکومتی عہدہ تو نہیں مگر جس طرح بھرپور الیکشن مہم چلائی گئی‘ اس سے یقینا بہت زیادہ سیاسی و انتخابی تجربہ حاصل ہوا ہو گا۔اس مہم کو امیج بلڈنگ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ بین السطور کچھ حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حالات میں سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ نواز کے 'شین گروپ‘ کو پہنچا ہے۔ پارٹی کے اندر سے بھی کچھ لوگ صاف الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ حالیہ الیکشن میں نواز شریف کا بیانیہ جیت گیا اور حکومت ہار گئی۔ اب آج کے کالم کے عنوان کی بات کی جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سیاسی اعتبار سے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے سیاسی چاول مکمل طور پر ٹھنڈے، دہی کھٹا اور بوتل گرم ہی نہیں ہو چکی بلکہ اس میں سے گیس بھی نکل چکی ہے۔