سیاسی صورت حال اور ’’خراب اچار‘‘

سیاست کے عمل یا کھیل بلکہ یوں کہہ لیتے ہیں کہ علمی طور پر پڑھائے جانے والے مضمون سیاسیات کے مطابق سیاست اختیار کی کوشش (Struggle for Power) کا نام ہے۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ (To Decide Who Gets What) کہلاتا ہے۔ مطلب یہ بنتا ہے کہ اختیار ملنے کے بعد یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کس کو کیا ملے گا۔ آپ اس کو وسائل کی تقسیم یا پھر سادہ الفاظ میں بجٹ میں کی جانے والی تقسیم بھی کہہ سکتے ہیں۔ اب اس تعریف کا آخری حصہ کچھ یوں بنتا ہے کہ (What is There to Get) اب اس کا مطلب اس طرح سے ہے کہ ''ہے کتنا کچھ‘‘ جس کی تقسیم کا فیصلہ ہونا ہے۔ آپ اس کو کل بجٹ یا بجٹ کا حجم کہہ سکتے ہیں۔ ہم نے سیاست کے مطلب کو سمجھانے کے لیے ''تعریف‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے لیکن اردو میں اس لفظ کا ایک مطلب سراہنے‘ اچھا سمجھنے کے زمرے میں آتا ہے‘ جس سے معاملہ تھوڑا بگڑ جاتا ہے یا وہ مطلب بن جاتا ہے جس کو کہنا مقصد نہیں ہوتا۔ یہ بات اس لیے وضاحت سے کہنا پڑ رہی ہے کہ سیاست اور سیاستدانوں دونوں کو عالمی سطح پر بھی زیادہ اچھے الفاظ میں بیان یا یاد نہیں کیا جاتا۔ مائوزے تنگ نے کہا تھا کہ ''سیاست ہتھیاروں کے بغیر جنگ کا نام ہے‘ جبکہ جنگ ہتھیاروں کے ساتھ سیاست کا نام ہے‘‘۔ سیاست کو ایک ایسا کھیل بھی کہا جاتا ہے جس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اب اگر پاکستان جیسے ممالک کی سیاست کو دیکھا جائے تو واضح ترین تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کے پاس دماغ بھی نہیں ہوتا۔ دماغ نہ ہونے کا مطلب سب سے پہلے الیکشن میں حصہ لینے والوں کی تعلیمی قابلیت کو مانا جاتا ہے۔ صرف ایک الیکشن ایسا ہوا تھا جس میں الیکشن میں حصہ لینے والوں کے لیے صرف بی اے تک تعلیم کی شرط رکھی گئی تھی تو بہت سارے بڑے بڑے نام الیکشن سے باہر ہو گئے تھے۔ ایک عجیب منطق یہ پیش کی جاتی ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی بہت کم ہے‘ لیکن یہ بات پاکستان بننے کے بعد تک تو کافی حد تک ٹھیک تھی لیکن اب تو پاکستان میں شرح خواندگی عرصہ دراز سے پچاس فیصد کو عبور کر چکی ہے۔ لیکن ابھی تک کوئی بھی الیکشن لڑنے کے لیے کسی بھی قسم کی تعلیمی قابلیت ضروری نہیں۔
اب یہاں ایک عجیب ترین تضاد پر تھوڑا غور کریں۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد اور رہنمائی کرنے والے لیڈران کی واضح اکثریت تعلیمی اعتبار سے کسی بھی مغربی ملک کی لیڈر شپ سے بھی زیادہ خواندہ تھی۔ یہاں پر آپ تھوڑا رک جائیں اور مزید غور کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ پوری دنیا کی سیاسی تاریخ میں بھی آپ کو پاکستان بنانے والوں جتنی پڑھی لکھی قیادت نہیں ملے گی۔ اب کم از کم اس بات پہ آپ جتنا بھی فخر کریں تو کم ہوگا؟ اس سلسلے میں آپ پاکستان کے قومی شاعر اور مفکر پاکستان ہی کو لے لیں‘ جنہوں نے اس وقت پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی جب یورپ میں بھی اس ڈگری کے حامل لوگ چند ایک ہی ہوتے تھے۔ اس کے بعد قائداعظم برطانیہ سے قانون کی ڈگری حاصل کر کے آئے تھے۔ یہ سلسلہ یہاں رکتا ہے نہ ختم ہوتا ہے کیونکہ سر سید احمد خان‘ مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا شوکت علی لفظِ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی‘ لیاقت علی خان اور دیگر بہت سارے لوگ یورپ سے تعلیم یافتہ یا کم از کم مقامی سطح پر انتہائی تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ اب اس وقت کی مسلم آبادی کی شرح خواندگی کا حساب لگائیں تو یہ دس فیصد سے کم تھی۔ مزید واضح کرتے چلیں کہ کانگریس کی قیادت بھی مسلم لیڈرز کے مقابلے میں کم تعلیم یافتہ تھی۔ اب تو نکتہ آپ کو سمجھ آگیا ہو گا کہ وقت کے ساتھ اس تعلیمی قابلیت کو بڑھانا نہ سہی کسی حد تک برقرار تو رکھا جانا چاہیے تھا۔ چلیں پاکستان کے حکمران اس تعلیمی صلاحیت کو اپنے لیے برقرار نہیں رکھ سکتے تھے یا نہ رکھ سکے تو کم از کم اپنی قوم کو ہی اس قابل بنا دیتے کہ 75 سال گزرنے کے بعد ہی قوم کی شرح خواندگی سو فیصد کر لیتے۔ ارے ایک بات تو ابھی ادھوری رہ گئی‘ جو اس طرح ہے کہ پاکستان کے اندر کسی بھی شخص کو خواندہ قرار دینے کا معیار بھی انتہائی پست ہے۔ پہلے یہ معیار اپنا نام لکھ اور پڑھ سکنے کے برابر تھا جس کو بڑھا کر اب ایک پیرا گراف لکھنے اور پڑھنے کے برابر رکھا گیا ہے۔ جو سادہ الفاظ میں پرائمری یا پانچ سال کی تعلیم کے برابر بنتا ہے۔
اب اس کے لیے شروع میں سیاست کی تعریف بلکہ مطلب بتاتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ سیاست کے عمل میں بجٹ کی تقسیم ایک انتہائی اہم عمل اور حصہ ہے لیکن اس سیاسی حصے میں تعلیم کے لیے حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کسی بھی بجٹ میں یہ حصہ پانچ فیصد بھی نہیں ہو پایا۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ تعلیم کا مقصد وہی روایتی اہمیت بتانا ہی تو نہیں۔ تو جواب عرض ہے کہ نہیں جناب‘ اب اس کی ایک وجہ نہیں بلکہ کئی وجوہات ہیں جیسا کہ کسی بھی ملک کی ترقی نہیں بلکہ اس کے بقا کے لیے بھی تعلیم ناگزیر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تعلیم کا مطلب صرف پڑھنے لکھنے کے قابل ہونا نہیں ہے۔ اس تعلیم کی بدولت ہی تحقیق ہوتی ہے اور تحقیق ہی کی بدولت ایجادات ہوتی ہیں اور ایجادات کرنے والے ہی اپنی چیز کی منہ بولی قیمت وصول کرتے ہیں۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ تحقیق کرنے کا مطلب دماغ کاشت کرنا ہوتا ہے جبکہ ہمارے ملک کی آبادی کا بڑا حصہ ابھی زمین ہی کاشت کرتا ہے۔ اب دونوں کا فرق کچھ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں ایکڑز پر کاشت ہونے والی سال بھر کی تمام فصلوں کی قیمت یا مالیت دنیا میں کئی موبائل یا دیگر الیکٹرونکس بنانے والی کمپنیوں سے کم ہوتی ہے جو شاید چند ایکڑز پر قائم ہوتی ہے۔ جی ہاں! یہ بات درست ہے کہ ہماری کل زراعت کی مالیت دنیا کی کسی ایک جدید آلات یا مصنوعات بنانے والی کمپنی سے کم ہے جبکہ یہ کمپنی چند ایکڑز جگہ پر قائم ہوتی ہے۔ اب فرق وہی ہے کہ زمین نہیں دماغ کاشت کرنے کی ضرورت ہے۔ دماغ کاشت کرنے سے مراد تحقیق کا میدان ہے جس کے نتیجے میں آپ ایجادات کرتے ہیں یا پھر ایجاد شدہ چیزوں کو مزید جدید کیا جاتا ہے۔
ایک اور فرق ذہن نشیں کر لیں کہ اگر آپ کے ملک میں خوشحالی آبھی جائے تو آپ ایک امیر ملک کہلوا سکتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ہونے یا کہلوانے کے لیے آپ کو ٹیکنالوجی کے میدان میں خوشحال بننا ہوگا۔ اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ مڈل ایسٹ کے ممالک کے پاس بہت زیادہ دولت تیل کی بدولت موجود ہے لیکن یہ عالمی درجہ بندی میں ترقی پذیر ہی کہلوائیں گے نہ کہ ترقی یافتہ۔ اب بات ہو رہی ہے سیاست اور دماغ کی تو واپس پاکستان کی طرف آتے ہیں‘ جہاں دماغ یا پھر دماغ کا استعمال‘ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں ایک اور بنیادی فرق سمجھنا بہت ضروری ہے کہ سیاست کے میدان میں برسر پیکار بڑوں کو دو مختلف نام دیے جاتے ہیں۔ ایک لیڈر اور دوسرا حکمران۔ حکمران کوئی بھی ہو سکتا ہے‘ مطلب الیکشن جیت کر بڑے عہدے تک پہنچ جانے والے کے پاس اختیار آجاتا ہے اور اس کا حکم چلنا شروع ہو جاتا ہے جبکہ لیڈر کا مطلب رہنما ہوتا ہے جو دوسرے لوگوں حتیٰ کہ اپنی پوری قوم کی رہنمائی کرتا ہے۔ رہنمائی کا مطلب سادہ لفظوں میں راستہ دکھانا ہوتا ہے۔ اب صحیح سمت کا رستہ دکھانے والے کا صاحبِ دماغ ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔
ضروری نوٹ: آپ کو اگر آج کی تحریر کی واضح سمت سمجھ نہیں آئی تو عرض ہے کہ یہ عین اس طرز پر لکھا گیا ہے جس طرز پر ملک کی سیاست چل رہی ہے۔ یہاں میں گزشتہ کالم کا عنوان کہ پاکستان کی سیاست کا حال ٹھنڈے چاولوں،کھٹے دہی اور گرم بوتل والا ہو چکا ہے کے ساتھ خراب اچار کا اضافہ کرنا چاہوں گا۔ اس کو درست کرنے کے لیے رہنما کی ضرورت ہے کسی حکمران کی نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں