ڈالر اور ڈالر کے مالک

ترقی پذیر ممالک بالخصوص جنوبی ایشیا میں پتہ نہیں کیوں ''بری خبر ہی بڑی خبر بنتی ہے‘‘۔ اس سلسلے میں ہم نے گزشتہ کالم میں بظاہر مضبوط جمہوریت کہلوانے والے ملک بھارت کا تفصیل سے ذکر کیا تو پتہ چلا کہ وہاں کرپشن کے متعدد کیسوں کی دھوم ہی نہیں بلکہ اودھم مچا ہوا ہے۔ سری لنکا دیوالیہ ہو چکا ہے۔ بنگلہ دیش‘ جس کی ترقی کے بظاہر چرچے ہیں‘ نے عالمی اداروں سے چار ارب ڈالر کا قرض مانگ لیا ہے۔ ویسے تو معاشی ابتری ایک عالمی المیہ بن چکا ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک میں تو پچھلے دو برسوں میں وہ کچھ ہو چکا ہے اور تاحال ہو رہا ہے‘ جو پہلے کبھی دو دہائیوں میں بھی نہیں ہوتا تھا۔ یہ بات پاکستان کے حوالے سے اب ایک عالمی مثال بنتی جا رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی اونچی اڑان ہے اور اب ڈالر اتنا اوپر جا چکا ہے کہ نظر آنا بند ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بنیادی بات عرض کرتا چلوں کہ اتنی تیزی سے صرف اُس ملک کی کرنسی کی قدر میں کمی آتی ہے جہاں خانہ جنگی ہو رہی ہو یا کوئی اور ایسا بڑا مسئلہ در پیش ہو کہ اُس ملک کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہو۔ جبکہ پاکستان نے پانچویں نسل کی جنگ کامیابی سے لڑی ہے۔ اس کے ساتھ دہشت گردی کے عفریت پر بھی قابو پایا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کی طبعی زندگی میں تسلسل دیکھنے میں آیا ہے اور مسلسل تیسرا دور اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔
شاید پاکستان جیسے ممالک ہی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہیں جمہوریت کا خراج دینا پڑتا ہے۔ اس کی وضاحت یوں کی جاتی ہے کہ جب تک جمہوریت پختہ نہ ہو تواس کے نتیجے میں کچھ سائیڈ افیکٹ یا نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں۔ اس کی پہلی مثال یوں دی جاتی ہے کہ کچھ ناتجربہ کار لوگ حکمران بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ترجیحات قومی کے بجائے ذاتی ہوتی ہیں‘ یہ لوگ اپنے قریبی لوگوں کو نوازنا شروع کر دیتے ہیں بلکہ نوازتے ہی چلے جاتے ہیں۔ قوم اگر زیادہ خواندہ نہ ہو تو یہ لوگ اپنا تاثر عوام کے اندر ایک دیوتا کا بنا لیتے ہیں‘ جسے آپ شخصیت پرستی بھی کہہ سکتے ہیں۔ اسی عنصر کے تحت پھر ایک خاندان یا چند خاندان جمہوریت کے نام پر ''خاندانی آمریت‘‘ قائم کر لیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں سالہا سال اسی خاندان کے لوگ برسر اقتدار رہتے ہیں۔ دورانِ اقتدار اگر کسی حکمران کی ہلاکت ہو جائے تو اس کی پارٹی کے ووٹ بینک میں کبھی نہ ختم ہونے والا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر ان مثالوں سے آپ کے ذہن میں صرف پاکستان آرہا ہے تو آپ بنگلہ دیش اور بھارت کی مثالیں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ صرف بھارت میں نہرو خاندان نے چھتیس سال تک وزارتِ عظمیٰ پر قبضہ جمائے رکھا۔ بنگلہ دیش میں اس وقت بھی شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی برسر اقتدار ہے‘ جو ہر قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف ذاتی تسکین کے لیے ایک جماعت کے بزرگ رہنمائوں کو پھانسی دینے میں مصروف ہے۔ واپس آتے ہیں جمہوریت کے خراج کی طرف‘ اس ضمن میں اگلا نقطہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایسے ممالک میں حکمران جان بوجھ کر اپنی قوم کو تعلیم اور شعور سے دور رکھتے ہیں تاکہ ان کے اقتدار کو دوام ملتا رہے۔ اور سب سے بڑھ کر وہ ملک و قوم سے دیگر حقوق کے علاوہ جینے کا حق بھی چھین لیتے ہیں‘ جس کی وجہ ان حکمرانوں کی پہاڑ سے اونچی اور کھائی سے گہری کرپشن کی داستانیں ہوتی ہیں۔ اس کا اندازہ آپ حال ہی میں سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کے بعد اس کے حکمرانوں کی رہائش گاہوں کے مناظر سے لگا سکتے ہیں۔ جولائی کے مہینے میں اپنے افتتاح کے پانچ دن بعد ہی گڑھوں میں بدل جانے والی سڑک کی مثال لے لیں جس پر تقریباً دو ارب ڈالر لاگت آئی تھی۔
اب آخر میں بات کرتے ہیں ایسے ممالک کی جن کے حکمران اپنے ملکی معاملات کی فکر کرنے کے بجائے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر ایسے کام کرنے سے بھی نہیں کتراتے جن سے ملک کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اسی سلسلے میں وہ اپنی کرپشن کی دولت کو بیرون ملک ٹرانسفر کرکے وہاں نہ صرف بڑی رہائش گاہیں بناتے ہیں بلکہ اپنے کاروبار بھی قائم کر لیتے ہیں۔ اس سرمایہ کا ملک سے نکل جانا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی انسان کے جسم سے خون نکال لیا جائے۔
اب واپس آتے ہیں ڈالر کی اونچی اُڑان کی طرف‘ تو پہلی بات جو یقین سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ مصنوعی طریقے سے کیا جا رہا ہے‘ ورنہ ایسا کبھی بھی کسی بھی کرنسی کے ساتھ نہیں ہوا۔ پاکستان کا معاشی حجم بہت بڑا نہیں ہے‘ 2018ء میں پاکستان کا کل جی ڈی پی 314 ارب ڈالر تھا جو اب روپے کی قدر گرنے کے بعد محض 263ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ پاکستان جیسے ملک کی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے اگر کوئی ملک وہاں ایک سو ارب ڈالر کا کھیل بھی کھیلتا ہے (جو امریکہ جیسے بڑے ملک کے لیے ایک انتہائی معمولی رقم ہے) تو وہ صورت حال کو اپنی مرضی کے مطابق خراب کر سکتا ہے۔ ایک ارب ڈالر سے پاکستان جیسے کسی بھی ملک کی کرنسی کے ساتھ کھلواڑ کیا جا سکتا ہے۔ ایسی گومگو سے دوچار معاشی صورتحال میں درآمد کنندگان ضرورت سے زیادہ ڈالر خریدنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ اس خدشے کے پیش نظر ڈالر خریدتے ہیں کہ اب روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ ہی ہوگا‘ کوئی کمی یا استحکام نہیں آئے گا۔ درآمد کنندگان اپنا سرمایہ ڈالر کی صورت میں اس لیے رکھتے ہیں تاکہ ان کو اپنی در آمدات کیلئے ادائیگیوں میں آسانی رہے اور کثیر منافع حاصل ہو۔ اس کے علاوہ اگر ملک کی سیاسی صورت حال عدم استحکام کا شکار ہو جائے تو زیادہ امیر لوگ بھی اپنا سرمایہ دوسر ی کرنسیوں میں منتقل کر لیتے ہیں۔ اور پاکستان کی سیاسی صورتحال میں جو سرکس جاری ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔
اب اگر بیرونی مداخلت کی بات کی جائے تو امریکہ اور بھارت نہیں چاہتے کہ پاکستان میں سی پیک جیسا گیم چینجرمنصوبہ اپنے پایہ تکمیل تک پہنچے ۔ اس کے علاوہ ایک مسند رائے یہ بھی ہے کہ یوکرین میں روس کی‘ چین کے تعاون سے مداخلت کی وجہ سے امریکہ بہت پریشان ہے‘ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایک جوابی معاشی حملہ تیار کر رکھا ہے۔ اس لیے امریکہ اب پاکستان میں صرف رجیم چینج کے بجائے ساری گیم ہی چینج کرنا چاہ رہا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے اندر استحکام اور امن ہونے کی صورت میں سب سے زیادہ فائدہ چین کا ہے۔ پاکستان کے بعد اس وقت پاکستان کے لیے چین سے زیادہ کوئی بھی فکر مند نہیں ہے۔ ایک بات یاد رہے کہ بھارت تا حال سی پیک کے منصوبے کو سبو تاژ کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ ایک نظریہ یہ بھی موجود ہے کہ پاکستان کی ایسی حالت یہاں صدارتی نظام لانے کے لیے کی جا رہی ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک تشویش یہ بھی ظاہر کی جا رہی ہے کہ سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کے بعد اب پاکستان کی باری ہے۔ اس سلسلے میں انتہائی تشویش کی بات موجودہ حکومتی اتحاد کے طور اطوار ہیں جو ہر صورت حکومت میں بھی رہنا چاہتے ہیں اور ملکی معیشت کو سنبھالنے کے لیے صرف بیانات تک محدود ہیں۔ حالانکہ ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی ساکھ بھی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر جتنے بھی اچھے الفاظ کا چناؤ کر لیا جائے مگر مجموعی صورت حال دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ ملک کے ساتھ کچھ Big or Bad کرنے کی کوششیں بلکہ سازشیں جاری ہیں ‘ ورنہ ڈالر اور ڈالر والوں نے کبھی یوں روپے کی بے قدری نہیں کی تھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں