گزشتہ کالم میں ڈالر کی انتہا درجے کی اڑان سے متعلق یہ نچوڑ نکالا گیا تھا کہ یہ اڑان مصنوعی‘ مطلب Man Made ہے۔ اس کا مقصد پاکستان کا معاشی بازو مروڑنا ہے۔ اب جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں‘ ڈالر کی قدر میں لگ بھگ پندرہ روپے کا فرق پڑ چکا ہے اور اس وقت اس کی قدر 230 روپے سے بھی کم ہو چکی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک نے اس حوالے سے سخت اقدامات کیے ہیں اور ان میں سے ایک نمایاں اقدام اس کی افغانستان سمگلنگ کو روکنا ہے۔ کرنسی کا یہ کھیل اس وقت بنگلہ دیش میں بھی شروع ہو چکا ہے مگر وہاں کی حکومت نے اپنے کرنسی ڈیلروں پر بر وقت کریک ڈائون شروع کر دیا ہے۔ اب پاکستان کی حکومت کو بھی یہی اقدام کرنا چاہیے کیونکہ کرنسی کے ریٹ میں اتار چڑھائو سے سب سے زیادہ فوائد یا منافع یہی لوگ اٹھاتے ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق پاکستان کے حساس اداروں نے بھی ڈالر کے اس بھیانک کھیل کو روکنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے، وگرنہ اچانک اتنی نمایاں کمی نہ آتی۔ اب ضرورت جنگی بنیادوں پر مزید اسی قسم کے اقدامات کی ہے کیونکہ یہ معاشی بقا کا معاملہ ہے۔
بہت سارے لوگوں نے بیرونی مداخلت اور دیگر ذرائع سے کسی کرنسی کی بے قدری اور ملک کی معیشت کو خراب کرنے کے کھیل کی تفصیلات پوچھی ہیں۔ اس ضمن میں گزارش یہ ہے کہ اگر کسی ملک کی معیشت کو ٹارگٹ کر لیا جائے تو اس کو کئی طریقوں سے ڈبونے کی کو شش کی جاتی ہے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں کسی ایک شعبے میں مصنوعی طریقے سے اضافہ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس شعبے میں ملکی سرمایہ بھی لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس دوران اس شعبے میں قیمتوں میں انتہائی درجے کا مصنوعی اضافہ ہو جاتا ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ پچھلی ایک ڈیڑھ دہائی میں پاکستان میں پراپرٹی کی قیمتوں میں ڈالر سے بھی زیادہ تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ بیس‘ پچیس لاکھ والا پلاٹ ڈیڑھ کروڑ تک پہنچ گیا۔ بہت سارے لوگ یکدم موٹر سائیکل سے بڑی بڑی گاڑیوں پر پہنچ گئے۔ درمیان میں یہ سلسلہ خاصا عروج پر پہنچ گیا تھا اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ جو پلاٹ ایک دم سے ڈیڑھ کروڑ کا ہو گیا تھا‘ وہ واپس پچاس لاکھ پر آگیا۔ اس کے نتیجے میں بہت سارے لوگ دوبارہ گاڑیوں سے موٹر سائیکل پر آگئے۔ اب اس کھیل کی تفصیلات ملاحظہ فرمائیں۔ ایک بڑا گروپ مارکیٹ میں آتا ہے، جس کے پاس اربوں‘ کھربوں روپے موجود ہوتے ہیں۔ وہ مارکیٹ میں پیسہ پھینکتا ہے اور دھڑا دھڑ زمین خریدنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ گروپ مارکیٹ سے روزانہ کی بنیاد پر پلاٹ خریدنا شروع کر دیتا ہے جس سے ایک ہلچل مچتی ہے۔ ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصول کے مطابق قیمتیں بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کھیل کو شروع کرنے والے گروپ کو سرمایہ بیرونِ ملک سے بھی آجاتا ہے۔ نئی کالونیوں کے اشتہارات ہر جگہ نظر آنے لگتے ہیں تاکہ لوگوں میں یہ احساس ہی پیدا نہ ہو بلکہ مضبوط بھی ہو جائے کہ یہ شعبہ ترقی کر رہا ہے۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے جن مقامی لوگوں کو پراپرٹی کی ضرورت نہیں ہوتی‘ وہ بھی زمین خریدنا شروع کر دیتے ہیں۔ قیمتیں بڑھتی جاتی ہیں اور دیگر کاروبار کرنے والے بہت سے لوگ بھی اس شعبے کا رخ کر لیتے ہیں۔ اب ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ وہ مخصوص گروپ جس نے یہ سارا کھیل شروع کیا تھا‘ اپنا حساب کتاب لگاتا ہے کہ اس دوران اس نے اپنا سرمایہ ڈبل کر لیا ہے؟ اس مرحلے پر یہ گروپ واپسی کا سفر اختیار کرتا ہے اور خریدی گئی ساری پراپرٹی کو بیچنا شروع کر دیتا ہے۔ شروع میں یہ فروخت مرحلہ وار کی جاتی ہے، بسا اوقات اس کی قیمت مارکیٹ ریٹ سے کچھ کم رکھی جاتی ہے۔ اولاً تو لوگوں کو سمجھ نہیں آتی اور کچھ انجان افراد اس کو خریدنا شروع کر دیتے ہیں کہ شاید کچھ عرصے بعد وہ اسے منافع پر فروخت کر سکیں لیکن یہ قیمت اب کم ہوتی ہوتی بالآخر اسی سطح پر پہنچ جاتی ہے جہاں سے یہ شروع ہوئی تھی۔ کچھ لوگ اس کھیل میں اربوں‘ کھربوں کا منافع بنا لیتے ہیں جبکہ مقامی لوگوں کا سرمایہ ڈوب جاتا ہے۔ یہ مصنوعی طریقوں سے معاشی کھیل کھیلنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس طرح کا کھیل دیگر غیر پیداواری شعبوں میں بھی کھیلا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مقامی لوگ کنگال ہو جاتے ہیں جبکہ قومی معیشت کو بھی دھچکا لگتا ہے۔ اس عمل کو hit کرنا کہتے ہیں۔ اس قسم کے کھیل کی تفصیلات میں Confessions of an Economic Hit Man نامی کتاب بہت نمایاں ہے جس میں یہ سارے حربے تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ یہ کھیل 1990ء کی دہائی میں ایشیا میں تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں کو ڈبونے کے لیے مغربی ممالک کی طرف سے ریاستی سطح پر بھی کھیلا گیا تھا جس کے بعد وہ ممالک جو ایشیا کے معاشی ٹا ئیگر کہلانے لگے تھے‘ بعد میں صرف کاغذی شیر بن کر رہ گئے۔
ایک اہم نکتہ سمجھنا بہت ضروری ہے جو یہ ہے کہ امریکا کی سربراہی میں مغربی یورپ کے ممالک بالخصوص برطانیہ یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ایشیا میں کوئی معاشی طاقت ابھرے۔ اگر کوئی ابھرے بھی تو وہ ان کی ہمنوا ہو جیسے جاپان ہے۔ اس سے پہلے اس مغربی گروپ نے روس کو نشانہ بنایا تھا اور آج کل چین کے پیچھے یہ قوتیں ایک سائے کی طرح لگی ہوئی ہیں۔ اگرچہ روس کے ساتھ ان کا تنازع نظریاتی بھی تھا مگر چین تو اپنے نظام کو اشتراکیت سے قدرے نرم کر کے مغربی معاشی نظام کی طرز میں ڈھال چکا ہے لیکن چونکہ چین ایک ایشیائی ملک ہے اس لیے یہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کو منظور نہیں۔ آپ اس کھیل کو مزید سمجھنا چاہتے ہیں تو دنیا کے نقشے پر نظر ڈالیں‘ آپ کو پوری دنیا کے اسّی فیصد تنازعات ایشیا میں ملیں گے۔ بات بہت بنیادی ہے کہ اگر ایشیا ایک طاقت کے طور پر ابھرتا ہے تو اس سے مغرب کی حکمرانی چیلنج ہوتی ہے، جو اسے کسی طور منظور نہیں۔
اب بات پاکستان کی‘ جس کی گزشتہ حکومت نے واضح طور پر امریکہ کو ''ناں‘‘ کہنا شروع کردیا تھا۔ اتفاقیہ طور پر ایسا ہوا کہ یوکرین پر روسی آپریشن کے آغاز کے وقت پاکستان کے وزیراعظم روس میں موجود تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان چین کے تمام پڑوسی ممالک میں چین کے لیے سب سے زیادہ ناگزیر ہے۔ چین نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، سی پیک کے سبب اس کو اپنے تجارتی راستوں میں دس ہزار کلو میٹر اور لگ بھگ پچیس دن کی بچت ہوتی ہے۔ ان حالات میں مغرب کے لیے پاکستان کو سبق سکھانا یا اس کو مشکلات میں ڈالنے کا مطلب چین کو ڈرانا اور تشویش میں مبتلا کرنا ہے۔ اسی تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کو چین کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چین تائیوان پر دعویٰ رکھتا ہے جہاں اس وقت اس کی امریکا کے ساتھ تلخی بڑھتی جا رہی ہے لیکن یہ تلخی کسی بھی طور پر معاشی اہمیت کی حامل نہیں بلکہ صرف علامتی ہے۔ اس کے بعد پاکستان ہی بچتا ہے اسی لیے پاکستان پر دبائو بڑھایا جارہا ہے اور اس میں معاشی دبائو ہی ایسا ہتھیار ہے جو اس طرح سے کام کرتا ہے کہ عسکری ہتھیار بھی مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں۔
پاکستان کے مشرق میں بھارت کی شکل میں ایک ازلی دشمن موجود ہے۔ یہ وہی ملک ہے جس نے افغانستان میں امریکی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پر ایک جنگ مسلط کیے رکھی۔ بھارت کے مسلح کردہ گروہ اب بھی افغانستان میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ یاد رہے امریکا افغانستان میں بیس سال تک موجود رہا‘ اس دوران ایک نئی نسل پروان چڑھ گئی۔ اس نسل کی ایک بڑی تعداد بھارت کے زیر اثر اور بھارت میں پلی بڑھی ہے۔ اب آپ کو پاکستان سے افغانستان کی طرف ڈالر کی سمگلنگ کی وجہ سمجھ آگئی ہو گی۔ ذہن نشین رکھیں کہ بھارت کی مجموعی ملکی پیداوار 2 ہزار چھ سو بلین ڈالر ہے جبکہ پاکستان کی کل معاشی پیداوار تین سو بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بھارت اپنی کل معاشی پیداوار کا اتنا حصہ‘ جو پاکستان کی کل پیداوار کے برابر ہو‘ محض پاکستان کو مشکلات میں ڈالنے کے لیے وقف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت اس مکروہ کھیل کو تمام پڑوسی ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی لیے اسے ایشیا کا ''مردِ بیمار‘‘ کہا جاتا ہے، جو پورے جنوبی ایشیا میں تنازعات اور پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔