چین کا مہنگائی کنٹرول ماڈل اور کالا باغ ڈیم

آج کی دنیا ایک معاشی گرداب میں صرف پھنس ہی نہیں چکی بلکہ جکڑی بھی جا چکی ہے۔ یہ سلسلہ کورونا وبا کے دنوں سے شروع ہوا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس میں کمی آنے کے بجائے مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ خبریں دیکھ اور سن کر آنکھیں‘ کان اور دماغ مان بھی لیں تو دل پھر بھی ان حقیقتوں کو تسلیم نہیں کرتا کہ یورپ کے بڑ ے بڑے ممالک‘ جرمنی، فرانس اور برطانیہ‘ بھی انتہا کی مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان ممالک کا اصل اور کڑا امتحان سردیوں کی شدت کے ساتھ شروع ہوگا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یورپ میں سردی اتنی زیادہ پڑتی ہے کہ وہاں پر رہائشی اور دفتری بلڈنگوں میں گرمائش کا نظام لازم ہو تا ہے لیکن یو کرین جنگ کی وجہ سے روس سے یورپ کو گیس کی سپلائی تعطل کا شکار ہے۔ یورپ میں انرجی کا بحران اس قدر سنگین ہو چکا ہے کہ گیس کی قیمتوں میں تین گنا تک اضافہ ہو چکا ہے۔ یورپ میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی طرز پر انرجی کے کم استعمال کے لیے مختلف قسم کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ صرف برطانیہ میں کساد بازاری کا یہ عالم ہو چکا ہے کہ بیروز گاروں کی تعدا د80 لاکھ کی سطح کو چھو رہی ہے۔
اب اس بحران کا ایک عجیب پہلو آپ کو بتاتے ہیں، جو یہ ہے کہ یورپ سمیت امریکہ میں غربت اور بیروز گاری کی وجہ وسائل کے نہ ہونے سے ہرگز نہیں بلکہ وسائل کی انتہائی غیر منصفانہ تقسیم اس کی بنیادی وجہ ہے۔ اس کو آپ سادہ طریقے سے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ امریکہ پوری دنیا کی کل آمدنی کا تقریباً ایک چوتھائی سمیٹ لیتا ہے جبکہ اس کی کل آبادی محض 33 کروڑ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا صرف چا ر فیصد ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ سو میں سے 23 سے 25 روپے اگر صرف چار لوگوں کے حصے میں آتے ہوں تو ایسے ملک کو خوشحال ہونا چاہیے یا نہیں ؟لیکن اس کے باوجود اسی امریکہ میں ایک فیصد یعنی 33 لاکھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے حصے میں روزانہ کی بنیاد پر ایک ڈالر بھی بمشکل آتا ہے۔ اسی طرح اس ملک میں بیروزگاری کی شرح تقریباً چار فیصد ہے جبکہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اس تعدا دیا شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ تیزی سے بڑھتی قیمتوں کو معاشیات کی زبان میں افراطِ زر(Inflation)کہا جاتا ہے۔ اس وقت امریکہ میں افراطِ زر کی شرح 8فیصد کے قریب ہے جو خاصی زیادہ ہے۔ ان حقائق کا بنیادی مدعا یہ ہے کہ امریکہ میں بھی دولت کا بڑا نہیں تو اکثر حصہ امیروں کی دسترس میں ہی رہ جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ یوں اس بات کو سمجھ لیں کہ امریکہ کے دس فیصد لوگ امریکہ کی کل دولت کے 70 فیصد پر قابض ہیں۔
اب آپ کو ایک اور پہلو کی طرف لے کر چلتے ہیں، جسے Purchasing power parity یا مختصر قوتِ خرید کہا جاتا ہے۔ اگر آپ دیہی بیک گرائونڈ رکھتے ہیں تو اس کو زیادہ آسانی سے سمجھ جائیں گے کہ شہروں کی نسبت قصبات اور دیہات میں بہت سی چیزوں کی قیمتوں میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ آپ دودھ کی مثال لے لیں جو گائوں وغیرہ میں اپنی خالص حالت میں 80 سے 100 روپے فی کلو؍ لیٹر میں بہ آسانی مل جاتا ہے جبکہ لاہور شہر سے اگر آپ اسی طرح کا خالص دودھ حاصل کرنا چاہیں تو یہ کسی بھی صورت 150 روپے فی کلو سے کم قیمت میں میسر نہیں ہو گا۔ اس سے قدرے ملتی جلتی صورت حال گندم‘ آٹے اور سبزیوں کی بھی ہوتی ہے۔ ہم بات کر رہے تھے مغربی ممالک کی تو وہاں پر اشیا کی قیمتیں خاصی بڑھ چکی ہیں اور مزید بڑھنے کا خدشہ ہے جس سے لوگوں کی قوتِ خرید پست تر ہوتی جارہی ہے۔ جو اشیا زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے بنیادی ضرورت سمجھی جاتی ہیں، جیسے بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ، خوراک وغیرہ‘ ان کی قیمتوں کے گراف کو community price index کہا جاتا ہے۔ یہ گراف بھی امریکہ و یورپ میں بلند سے بلند تر ہو رہا ہے۔اب وہ اہم بات جس کے لیے یہ سب تمہید باندھی گئی ہے۔ اس وقت دنیا کا ایک ہی ملک ہے جس میں مہنگائی، افراطِ زر اورکمیونٹی پرائس انڈیکس کی شرح میں نہایت معمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور اس ملک کا نام ہے؛ پیپلز ریپبلک آف چائنا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ چین‘ جہاں سے کورونا وبا کا آغاز ہوا تھا اور جہاں ابھی تک بعض مخصوص علاقوں اور شہروں میں لاک ڈائون کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے‘ میں افراطِ زر کی شرح کبھی بھی دو فیصد سے زیادہ نہیں رہی۔ اس کی وجہ اس کا نظام ہے جس کو سوشل ازم کہا جاتا ہے۔
سوشل ازم در اصل اشتراکیت کے نظام ہی کی ایک نرم شکل ہے۔ اس کا سب سے بنیادی نکتہ یہ ہے کہ غربت کی وجہ وسائل کا نہ ہونا نہیں بلکہ وسائل کی نا مناسب تقسیم ہے۔ یہ فلسفہ جدید اشتراکیت کے بانی کارل مارکس کا پیش کردہ ہے۔ یہاں پر ایک اور بات کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے کہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی غریب آبادی کو غربت کی دلدل سے نکال کر مڈل کلاس میں لانے والا ملک چین ہی ہے۔ یہی وہ ملک ہے جہاں 1980ء کی دہائی تک جب دو لوگ آپس میں ملتے تھے تو وہ حال چال پوچھنے کے بجائے یہ پوچھتے پائے جاتے تھے کہ ''کیا تم نے کھانا کھا لیا ہے؟‘‘۔اور تو اور 1990ء میں چین کی فی کس آمدن پاکستان سے بھی کم تھی جبکہ آج اس ملک میں جتنی آبادی مڈل کلاس کا درجہ رکھتی ہے اتنی یورپ کی کل آبادی نہیں ہے۔ سوشل ازم وہی نظام ہے جس کا ایک بنیادی نعرہ یہ ہے کہ ''روٹی، کپڑا اور مکان ہر انسان کا حق ہے‘‘۔ جدید چین کے بانی مائوزے تنگ سگریٹ نوشی بھی کیا کرتے تھے، اس لیے وہ اکثر آف دی ریکارڈ کہا کرتے تھے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کے علاوہ سگریٹ (جو پیتا ہو)بھی ہر انسان کو دیں گے۔ چین کے موجودہ سربراہ مسڑشی جن پنگ نے اب ایسی ریفارمز کا اعلان کر رکھا ہے جن کے ذریعے وہ چین میں لوگوں کے درمیان دولت کی تقسیم کے فرق کو کم ترین شرح پر رکھنا چاہتے ہیں۔ اس اصلاحی ماڈل کو چین کی قیادت Common Prosperity کا نام دیتی ہے۔
ایک ملک کے نظام کے طور پر چین میں صرف ڈیڑھ فی صد افراطِ زر کو سمجھنا ہو تو جان لیجیے کہ حکومت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ روز مرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں کو بہر صورت قابو میں رکھا جائے۔ یہاں معاشیات کا ایک اصول بیان کرنا ضروری ہے کہ جس معاشرے یا ملک میں افراطِ زر کی شرح دو فیصد ہوتو اسے معاشیات کے علم میں آئیڈیل قرار دیا جاتا ہے جبکہ چین کی موجودہ شرح دو فیصد سے بھی کم یعنی صرف ڈیڑھ فیصد ہے۔ چین والے اس قسم کے معاشی انصاف یا برابری کو ''معاشی جمہوریت ‘‘کا نام دیتے ہیں۔ اس کو آپ یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہر انسان کو صرف ووٹ کا حق دینا ہی اہم نہیں‘ اس کو زندہ رہنے بلکہ جینے کے لیے تمام ضروریات و سہولتیں فراہم کرنا ہی اصل جمہوریت ہے۔ عموماً جمہوریت کو جمہور یعنی عوام سے منسوب کیا جاتا ہے حالانکہ جمہوریت کا لفظ اصل میں یونانی زبان کے لفظ Demos سے اخذ کردہ ہے جس کا اصل ترجمہ لوگ یا عوام نہیں بلکہ مڈل کلاس ہے۔ اسی ضمن میں ایک اہم ترین عالمی معاشی اصول یاد رکھنا ضروری ہے جو یہ کہتا ہے کہ کسی بھی ملک کی معاشی مضبوطی کا انحصار سب سے زیادہ اس بات پر ہے کہ اس ملک میں مڈل کلاس کی شرح کیا ہے۔ بصورتِ دیگر وہی کچھ ہوگا جو اس وقت عالمی صورت حال ہے کہ دنیا کے گیارہ فیصد لوگ دنیا کی کل دولت کے اسی فیصد سے زائد پر قابض ہیں۔
امیر وں کے قبضے میں اتنی زیادہ دولت جمہوریت کی بنیادی اساس کے خلاف ہی نہیں بلکہ متضاد بھی ہے۔ اب رہی بات اشتراکیت اور سوشل ازم کے الفاظ سے اس نفرت کی جس کے تحت ہمارے ہاں اس کو کفر و الحاد تک قرار دیا گیا تو گزارش ہے کہ اس کا نام کچھ بھی رکھ لیں‘ امیر اور غریب کا فرق ضرور کم کریں۔ یہ وہی بات ہے جو کالا باغ ڈیم سے متعلق کہی جاتی ہے کہ اس کا نام سفید یا سبز ڈیم رکھ لیں، لیکن اس کو تعمیر ضرور کریں کیونکہ اس کی مخالفت محض سیاست دان کرتے ہیں‘ ماہرین نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں