بقا کے لیے جنگیں لازم

گزشتہ کالم میں ذکر ہوا تھا منفی امن کا، اس کے مفہوم پر بہت سے لوگوں نے تعجب کا اظہار کیا ہے۔ بتایاگیا تھا کہ اگردنیا کے ممالک میں جنگ کرنے کی خواہش، ضرورت، حالات یا وجوہات موجود دہوں لیکن جنگ ہو نہ رہی ہو تو ایسی صورتِ حال کو 'منفی امن‘ کہا جاتا ہے۔ اب اس کی متبادل بلکہ متضاد صورت ِحال کواصل یا مثبت امن کہا جاتا ہے۔ مثبت امن کی کمی نہ صرف عالمی طاقتوں میں پائی جاتی ہے بلکہ پوری دنیا ہمہ وقت مثبت امن کی متلاشی رہتی ہے۔ آئیے! امن کی اس صورت کے مختلف طریقوں‘شکلوں اور درجوں کا احاطہ کرتے ہیں۔
امن نام ہے اگلی جنگ کی تیاری کے دور کا
عالمی تعلقات کے مضمون میں جو کلیہ ایک عقیدے کی طرح پڑھایا‘ سمجھایا اور تسلیم کیا جاتا ہے‘ اس کے مطابق ایک جنگ کے بعد ہونے والے نقصانات سے نکلنے اور وسائل دوبارہ اکٹھے کرنے یعنی اگلی جنگ کی تیاری میں جو وقت لگتا ہے اس دورانیے یا وقفے کا نام امن ہے۔ آپ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے درمیان کے وقفے ہی کو دیکھ لیں‘ اس پر یہ مقولہ پوری طرح فٹ بیٹھتا ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے محض اکیس سال بعد دنیا دوسری عالمی جنگ کی لپیٹ میں آ گئی۔ تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ جنگوں میں تواتر اور تباہی کا دور صنعتی انقلاب کے بعد عروج پر پہنچا۔ مشینوں نے جہاں معاشی پیداوار میں اضافہ کیا‘ وہیں جنگی مصنوعات کی نہ صرف پیداوار بڑھائی بلکہ زیادہ تباہی پھیلانے والا اسلحہ بھی پیدا کرنا شروع کر دیا۔ اس بات کو ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اب جنگیں خود بھی ایک صنعت بن چکی ہیں۔ ''وار انڈسٹری‘‘ میں امریکہ کا نام ٹاپ پر آتا ہے جو جنگی سازوسامان کی فروخت سے سب سے زیادہ زرمبادلہ اور منافع کماتا ہے۔ اس صنعتی جنگ کے پس منظر کرداروں میں مغرب کے چند مشہور خاندانوں کے نام بھی آتے ہیں جو جنگیں برپا کرنے کی باقاعدہ اور کامیاب کوششیں کرتے رہے ہیں۔ جنگوں اور خانہ جنگیوں سے ہونے والی تباہی کے بعد یہ حکومتوں کو بھاری بھرکم قرضے دے کر بھاری منافع کماتے ہیں۔ اس طرح جنگیں دیگر صنعتوں کی طرح ایک منافع بخش صنعت کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس موضوع پر سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران نے کئی کتب تحریر کی ہیں جو مغربی حوالوں کے ساتھ مزین ہیں۔ یہ تحقیقاتی ریسرچز پڑھ کر حیرت گم ہو جائے گی کہ تاریخ اور پولیٹکل سائنس کی نصابی ہی نہیں‘ بلکہ دیگر کتابوں میں بھی ان جنگوں اور ان کے لیے ہونے والی سرمایہ کاریوں کا کوئی ذکر ہی نہیں ملتا۔
جنگوں کے اندر بھی جنگیں ہوتی ہیں
دوسری عالمی جنگ کے بعد کسی وقفے کے بغیر ہی سوویت یونین اور امریکہ میں سرد جنگ شروع ہو گئی تھی۔ اب یہاں جنگوں کا ایک نیا انداز سامنے آتا ہے کہ جنگ کے اندر بھی ایک جنگ شروع ہوسکتی ہے بلکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہی سلسلہ چلتا رہا تھا۔ اس کو اگر مزید غور سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ جب روس میں 1917ء میں اشتراکیت کا انقلاب آیا جس نے بادشاہت کا خاتمہ کیا تھا‘تو اس وقت پہلی عالمی جنگ جاری تھی۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عالمی جنگ میں بھرپور مصروفیت اور اس میں الجھے ہونے کے باوجود امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے روس میں برپا ہونے والے اس انقلاب کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ جنگ کے اندر جنگ کی دوسری اور اپنی طرز کی منفرد مثال دوسری عالمی جنگ میں روس اور امریکہ کا باہم مل کر جرمنی کے خلاف لڑنا ہے، حالانکہ عالمی سطح پر یہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف نظریات کی جنگ بھی لڑ رہے تھے۔ نظریا ت کی یہ جنگ دوسری عالمی جنگ کے اختتام سے پہلے ہی‘ اس وقت باقاعدہ طور پر شروع ہو گئی تھی جب ونسٹن چرچل نے یہ بیان دیا تھا کہ روس سے اشتراکیت کے پھیلائو کے خلاف مشرقی یورپ سے آگے ایک لوہے کا پردہ لگا دیا گیا ہے اور اشتراکیت کو اس سے آگے نہیں آنے دیا جائے گا۔ اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ کو نام تو سرد جنگ کا دیا گیا مگر اس کے نتیجے میں کوریا اور ویتنام میں بیس سال اور افغانستان میں دس سال تک گرم اور مکمل جنگیں بھی لڑی گئیں۔ اس سرد جنگ میں مسلم ممالک امریکہ کے ساتھ مل کر لڑے۔ خاص طور پر افغانستان کی جنگ میں امریکہ نے اسلحے کے علاوہ اسامہ بن لادن سمیت تیس سے پینتیس ہزار افراد کی بھرتی میں بھی مکمل مدد فراہم کی تھی۔ لیکن آج جب تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان بھرتیوں کی آڑ میں امریکہ کے ذہن میں ایک اگلی جنگ کی تیاری چل رہی تھی۔ یہ اگلی جنگ امریکہ نے سرد جنگ کے ختم ہوتے ہی مسلم ممالک پر مسلط کر دی تھی اورمسلم ممالک آج تک اس جنگ کا ایندھن بنے ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ امریکہ کی اشیر باد سے عراق کے کویت پر حملے سے شروع ہواتھا جس کے بعد یکے بعد دیگرے مسلم ممالک کو براہ راست یا بالواسطہ طور پر بیرونی و اندرونی جنگوں میں دھکیلا گیا۔ امریکہ کے ایک جنرل کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ پنٹاگون کے لوگوں نے اسے بلا کر کہا تھا کہ اس سے پہلے کہ کوئی اگلی سپر پاور امریکہ کے سامنے آئے‘ ہم نے مسلم ممالک کی حکومتوں کو تباہ کر کے ختم کرنا ہے۔ اس جنرل کو عراق، لیبیا، شام اور افغانستان پر حملہ کرنے کا آرڈر ملا تھا۔ اس کے بعد بھارت کی مدد سے اور بھارت ہی کی خواہش پر مغربی سرحد کے ذریعے بدامنی پھیلا کر پاکستان کو بھی بیس سال تک جنگی نشانے پر رکھا گیا۔ علاوہ ازیں ایران، مصر، صومالیہ، نائیجیریا اور یمن سمیت دیگر مسلم ممالک کے ساتھ جو ہوا‘ اور جو ہو رہا ہے وہ آج سب کے سامنے ہے۔ مطلب یہ کہ بظاہر جو جنگی تیاری مسلم سویلینز کوسوویت یونین کے خلاف کرائی جا رہی تھی اور افغانستان کی جنگ میں انہیں شریک کر کے جس جنگی ماحول میں دھکیلا جا رہا تھا‘ وہ جنگ صرف سوویت یونین کے خلاف نہیں تھی بلکہ سرد جنگ کے بعد مسلمانوں کو باہم جنگی کشمکش میں مبتلا کرنا بھی امریکہ ہی کا ایک پلان تھا۔
امن کو خطرہ ہے جنگوں سے لیکن جنگیں ناگزیر ہیں
دنیا بھر میں جو بجٹ فوجوں کے لیے مختص کیا جاتا ہے اس کو دفاعی بجٹ کہا جاتا ہے لیکن امریکہ جیسی سپر طاقتوں کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو بجٹ مختص کیا گیا ہے‘ وہ دفاعی نہیں بلکہ جنگی بجٹ ہے۔ امریکہ اور مغرب کے حوالے سے خاص طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ممالک ایشیا کو بطور بر اعظم امن کی حالت میں نہیں رہنے دینا چاہتے کیونکہ صرف ایشیا ہی ہے جو امریکہ اور یورپ کی بالادستی کو ٹکر دے سکتا ہے۔ اسی لیے ایشیا کو اپنے دفاع کی جنگ میں الجھا دیا گیا ہے بلکہ پاکستان جیسے ملک تو بقا کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ امن (بقا) چاہتے ہیں تو جنگ کے لیے ہمیشہ تیار رہیں۔ جنگوں کی تیاری اب کوئی آسان کام نہیں ہے۔ سامانِ حرب کے نت نئے انداز‘ فوجوں کی بھرتی اور تیا ری وغیرہ پر بھاری بھرکم اخراجا ت آتے ہیں جبکہ جنگوں میں لامحدود نقصانات ہوتے ہیں لیکن جنگی تیاریوں اور جنگیں لڑے بغیر بھی گزارہ نہیں ہے۔ اس صورتحال کے لیے یہ فقرہ موزوں ترین ہے ؛ تاہم اس کو سمجھنا اور اس میں ایک توازن رکھنا بھی ایک انوکھی جنگ ہے کہ ''امن کو خطرہ جنگوں سے ہے لیکن امن و بقا کے لیے جنگیں ناگزیر ہو چکی ہیں‘‘۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جنگیں اب ایک طرزِ زندگی بن چکی ہیں۔
ضروری نوٹ: آپ اگر انفرادی سطح پر دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ ہم اکثر یہ فقرہ سنتے ہیں کہ زندگی ایک جنگ ہے۔ ہم ممالک کے بارے میں فیصلہ تو نہیں کر سکتے لیکن انفرادی یا ارد گرد کی زندگی میں کس طرح امن یا پھر سکون قائم رکھنا ہے‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسا توازن رکھیں کہ زندگی کو جنگ سے ایک کم مقام یعنی مقابلے اور مسابقت تک ہی محدود رہنے دیا جائے کیونکہ جنگوں میں فاتح کوئی نہیں ہوتا، ہاں! کم نقصان اٹھانے والا بظاہر فاتح ضرور کہلا سکتا ہے، مگر وہ بھی محض اگلی جنگ کا فیصلہ ہونے تک۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں