بات چل رہی تھی براعظم ایشیا کی‘ جہاں نئی سرد جنگ کی صورت میں چین اور امریکہ کا مقابلہ جاری و ساری ہے۔ جنگیں تو ختم نہیں ہوتیں لیکن جنگ کی کہانی کو مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایشیا کے اندر جاری جنگیں
ایشیا کے اندر دنیا کے سب سے زیادہ اندرونی و بیرونی محاذوں پر جنگ جاری ہے۔ اس کی سب سے بڑے اور پرانے محاذ کشمیر اور فلسطین کے ساتھ ساتھ شمالی اور جنوبی کوریا ہیں۔ ان سب محاذوں پر جنگ کا آغاز دوسری عالمی جنگ کے فوری بعد یکے بعد دیگرے ہوا تھا۔ اس کے بعد جلد ہی 1955-56ء میں ویتنام میں فرانس کی جگہ امریکہ نے لے کر سرد جنگ کا پہلا اور طویل ترین گرم محاذ کھولا تھا‘ جو بیس سال جاری رہا تھا۔ اس جنگ میں امریکہ کے اپنے مارے جانے والے فوجیوں کی تعداد ساٹھ ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ اس جنگ میں مارے جانے والے امریکی فوجیوں کی تعداد پہلی عالمی جنگ میں مارے جانے والے فوجیوں سے زیادہ تھی۔ اس جنگ میں امریکہ کو باضابطہ اور مکمل شکست ہوئی۔ اس جنگ کی بظاہر ایک وجہ تو ویتنام کو اشتراکیت کی طرز کا نظام اپنانے سے روکنا تھا لیکن اس کے ساتھ امریکہ کو ایک مقصد یہ بھی حاصل ہوا تھا کہ ایشیا کے اندر دوسری عالمی جنگ ختم ہونے کے باوجود گرم جنگیں جاری رہیں۔ اس سے پہلے ایک گرم جنگ شمالی اور جنوبی کوریا میں 1949ء سے 1953ء تک جاری رہی تھی جس کا مقصد بھی جنوبی کوریا کو اشتراکیت سے روکنا تھا۔ کوریا کی اس جنگ میں امریکہ سمیت سات ممالک نے جنوبی کوریا کا ساتھ دیا تھا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس جنگ میں بھی امریکہ نے ایک دفعہ شمالی کوریا پر ایٹمی حملہ کرنے کا سوچا تھا۔ ایک اور اہم بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ اس جنگ کو ختم کرنے یا پھر یوں کہہ لیں کہ شمالی کوریا کو شکست سے بچانے میں فیصلہ کن کردار 1949ء میں انقلابی آزادی حاصل کرنے والے ملک چین کی پانچ لاکھ سے زیادہ فوج نے ادا کیا تھا۔ اسی وجہ سے اس وقت کی امریکی فوج کی کمان کرنے والے جنرل نے چین پر حملہ کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔ اب 1948ء میں کشمیر کی جنگ‘ 1965ء اور پھر 1971ء کی پاک بھارت جنگیں تو صرف بھارت کے علاقائی تسلط کے جنونی خواب کی ایک جھلک ہیں ہی لیکن اس کے علاوہ جونا گڑھ اور مناودر پر قبضہ‘ سکم کی ریاست پر قبضہ کے ساتھ ساتھ بھارت کے اپنے اندر قائم ہونے والی ایک علیحدہ ریاست پر جنگ کے ذریعے قبضہ‘ ایک ایسی داستان ہے جس کا ذکر بہت ہی کم کیا جاتا ہے۔ یہ ریاست حیدر آباد کی تھی‘ جس پر بھارت نے ستمبر 1948ء میں اپنی بری فوج اور فضائیہ کے ذریعے حملہ کرکے اس کو اپنے اندر ضم کر لیا تھا۔ واضح رہے کہ اس ریاست کا رقبہ بنگلہ دیش سے بھی زیادہ تھا جبکہ اس کی آبادی ایک کروڑ اسی لاکھ کے قریب تھی۔ اس جنگ کے نتیجے میں حیدرآباد کی ریاست کے ہلاک ہونے والے رضا کاروں کی تعداد چالیس ہزار سے زیادہ تھی۔ اس کے نتیجے میں جو مسلمانوں کا قتل عام ہوا‘ اس کو آج بھی ایک Massacreکا نام دیا جاتا ہے۔ اس جنگ کے بعد ایک ہندو سندر لال کی نگرانی میں بننے والی کمیٹی کی رپورٹ کو پچاس سال سے زیادہ عرصے تک عام نہیں کیا گیا تھا۔ اس جنگی حملہ کو آپریشن پولوکا نام دیا گیا تھا۔ یہ نام دینے کی وجہ یہ تھی کہ بھارت نے عالمی سطح پر اس کو صرف ایک پولیس آپریشن ظاہر کیا تھا۔ یہ جنگی مہم کرنے سے بھارتی آرمی کے انگریز چیف نے انکار کر دیا تھا‘ اس لیے اس ظالمانہ کارروائی کی کمانڈ بھارتی فوجی افسروں نے کی تھی۔ اس جنگ میں سول مسلم آبادی کے قتلِ عام کی تعداد رپورٹ کے مطابق دو لاکھ بتائی گئی ہے۔ واضح رہے کہ حیدر آباد کی ریاست نے بھی پاکستان اور بھارت کے ساتھ شامل ہونے کے بجائے آزاد ریاست رہنے کا اعلان کیا تھا۔ مودی حکومت سے پہلے تک بھارتی حکومتیں اس قتل عام کے سانحہ کا خاص ذکر نہیں کیا کرتی تھیں لیکن اب بھارت سرکار نے سرکاری سطح پر ہر سال 17ستمبر کو ریاست حیدرآباد میں ہندوؤں کی طرف سے کیے گئے قتلِ عام کا جشن منانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اب واپس آتے ہیں ایشیا کی باقی جنگوں کی طرف تو شام‘ عراق‘ افغانستان‘ یمن‘ کویت‘ ایران‘ سعودیہ‘ آذربائیجان‘ برما‘ سری لنکا‘ مالدیپ‘ نیپال‘ بنگلہ دیش‘ سنٹرل ایشیا‘ جاپان‘ روس‘ چین‘ پاکستان‘ قطر‘ تائیوان‘ انڈونیشیا‘ فلپائین اور دیگر کئی ایشیائی ممالک کسی نہ کسی شکل میں جنگوں‘ سفارتی جھگڑوں‘ سرحدی تنازعات اور اندرونی خلفشار کا شکار ہونے والوں کی فہرست میں شامل ہیں۔اب سوال یہ بھی بنتا ہے کہ کیا ایشیا اتنا زیادہ جھگڑالو خود بخود بن گیا تھا اور آج بھی ہے؟ اس کی کھوج لگانے کے لیے سرد جنگ کے دوران یورپ اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم تھا۔ اس میں جرمنی ایک ایسا ملک تھا جو واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا لیکن سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ امریکہ نے کسی قسم کا گرم جنگی محاذ یورپ میں کھولا ہو۔ اس کے علاوہ روس کی گرفت کمزور ہوتے ہی سب سے پہلے یورپ کی آزادی اور سلامتی کا بندوبست کیا گیا۔ اس موقع پر ایک جملہ جو امریکہ نے یورپ کے فیصلے کرتے ہوئے کہا تھا‘ بہت یاد آتا ہے کہ ''Nothing About You,Without you‘‘۔ یہ فقرہ سب سے پہلے ریگن نے کہا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ یورپ کے متعلق کوئی فیصلہ یورپ کو شامل کیے بغیر نہیں کیا جائے گا۔ دوسری طرف افغانستان سے روس کی پسپائی کے بعد جو ہوا اور پھر باقی مسلم دنیا پر جو جنگیں مسلط کی گئیں‘ وہ سب آپ کے سامنے ہے۔
یورپ کو صرف اسلامو نہیں‘ ایشیا فوبیا بھی ہے
روس کی شکست کے بعد مسلم دنیا پر ظلم و جبر کی ایک ایسی لمبی داستان شروع ہوئی جو آج بھی جاری ہے۔ دہشت گردی کا شکار بھی مسلمان ہوئے اور ظلم کی انتہا دیکھیں‘ نام بھی مسلمانوں کا بدنام کیا گیا۔ اس تیس سال سے زائد عرصے کی کشت و خون کی پانچویں نسل کی جنگی داستان میں اسلامو فوبیا اپنے عروج پر پہنچا دیا گیا۔ مسلمانوں سے خوف کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کا وہ دور ہے جس میں انہوں نے پانچ سو سال سے زائد عرصے تک علم و حکمت کی دنیا میں عالمی سربراہی کی۔ اس کے علاوہ صرف مسلمان ہی وہ ایشیائی طاقت ہیں جنہوں نے یورپ کے کئی علاقوں پر راج بھی کیا۔ اب مغرب نے ماضی کے انہی کمالات کو آئندہ کسی بھی شکل میں روکنے کے لیے مسلم ممالک کو جنگی افراتفری اور کشمکش کا گڑھ بنا دیا اور اسی عرصے میں اسلامو فوبیا کا شکار ہو گئے۔ اب اس بات کو آگے لے کر چلیں تو پتا چلتا ہے کہ مسلمان ممالک کی ستر فیصد آبادی صرف ایشیا میں رہتی ہے‘ مطلب مسلمانوں کا اصل مرکز ایشیا ہی ہے۔ اب مغرب کے خیالات اور حرکات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایشیا کو کسی صورت اپنے برابر نہیں آنے دینا چاہتا کیونکہ ماضی میں بھی اگر عالمی حکمرانی مغرب کے علاوہ کسی نے کی ہے تو وہ صرف ایشیائی طاقتیں ہی تھیں جس میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ آج کل اسلامو فوبیا کے عالمی دن کی کا بھی بہت ذکر ہو رہا ہے لیکن تھوڑا سا غور کریں تو مغرب کو صرف اسلامو فوبیا ہی نہیں ہے بلکہ وسیع اور مکمل معنوں میں یہ ایشیائی فوبیا ہے۔ جس طرح مسلمانوں کو ان کے مذہب کی وجہ سے ظلم و انتشار کا شکار بنایا جاتا ہے‘ عین اسی طرح پہلے روس اور اب چین کو ان کے نظامِ اشتراکیت کی وجہ سے مخالف اور دشمن تصور کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ چین کے اندر اشتراکی نظام کو ایک عقیدے کی طرح ہی لیا جاتا ہے جبکہ مغرب 1917ء (روس میں دنیا کے پہلے اشتراکی انقلاب) سے اشتراکی فوبیا کا شکار چلا آرہا ہے۔ اب آج کی سرد جنگ کی وجہ اشتراکی چین عالمی کا طاقت بننا ہے۔ اب اس کو اشتراکی فوبیا کہیں یا پھر ایشیائی فوبیا بات ایک ہی ہے۔
نوٹ: اس جنگ میں مفید اور مہلک احمق کے طور پر بھارت سب سے بڑا مرکز اور ملزم بنا ہوا ہے۔