قابلِ رحم سابق امریکی صدر

پاکستان کے اندر سول بیورو کریسی‘ خاص طور پر پولیس اور کمشنری نظام میں نچلی سطح پر تحصیلدار، نائب تحصیلدار اور سب سے بڑھ کر پٹواری تک کا رعب و دبدبہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اس ملازمت‘ جو دراصل بادشاہت ہوتی ہے‘ کے ختم ہونے کے بعد وہ خود کو زندہ لاش قرار دیتے ہوئے کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ ایک برخوردار شاگرد‘ جو اس وقت ڈی آئی جی کے عہدے پر کام کر رہا ہے‘ چند روز قبل ملنے کے لیے آیا۔ میں نے اس کی ایک تصویر بنائی اور کہا کہ کسی کو بتا سکوں گا کہ بہت سارے شاگردوں میں سے ایک ایسا بھی تھا جو صرف ملنے کے لیے چلا آیا۔ اس سے اقتدار یا اختیار کی ناپائیداری کے موضوع پر بات ہو رہی تھی، میں نے کہا کہ آپ لوگوں سے سب کو یہ گلہ رہتا ہے کہ عہدہ ملنے کے بعد آپ اپنے اساتذہ اور رشتہ داروں تک کو بھول جاتے ہو، حتیٰ کہ سامنا ہونے پر بھی پہچاننے یا سلام دعا سے کتراتے ہو۔ اس پر اس نے اعتراف کرتے ہوئے جواب دیا کہ سر! بات یہ ہے کہ اختیار، پروٹوکول اور مراعات ہی اتنی زیادہ مل جاتی ہیں کہ ان کو ہضم کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس گفتگو میں ایک تھانے کے ایس ایچ او کو حاصل اختیارات کا بھی ذکر ہوا۔ مشہور ہے کہ اگر ایک ایس ایچ او کو مکمل طور پر علم ہو جائے کہ اس کا اختیار کتنا ہے تو وہ اپنے حواس کھو بیٹھے۔ یہ گفتگو اس نکتے پر مکمل ہوئی کہ خامضبوط ندانی پس منظر کے حامل اس انتہائی مؤدب اعلیٰ عہدیدار شاگرد نے کہا کہ ریٹائرڈ افسران عہدہ، طاقت اور اختیار چھن جانے کے بعد زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ پاتے اور جتنا عرصہ وہ زندہ رہتے ہیں‘ اس دوران ان کی ذہنی حالت نیم مردہ ہو چکی ہوتی ہے۔ اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہنے لگا کہ بعض افسران تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ذاتی عملہ رکھتے ہیں جو کم از کم کوئی فون آنے پر اسے اٹینڈ کرے اور پھر کہے کہ رکیں! میں صاحب سے بات کرواتا ہوں۔ اس دوران تنخواہ کے علاوہ جو خصوصی کمائی ہوتی ہے یا غیر منصفانہ نظام کی وجہ سے وہ دولت و مراعات ملتی ہیں‘ ان کا کوئی ذکر نہیں کیا جائے گا۔ اس ساری بحث کا تعلق آج کل کی عالمی سیاست سے بہت زیادہ ہے، جس کا ذکر ہم گزشتہ کالم سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔
دنیا کا سابق تھانیدار
یہ بات بظاہر بہت عجیب لگتی ہے کہ اس جدید دور میں دنیا یعنی عالمی سطح کی سربراہی و حاکمیت کے لیے ''تھانیدار‘‘ کا لفظ استعمال کیا جائے۔ اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ عالمی سیاست کا جو بھی تھانیدار ہو‘ اس کے اختیارات کی ابتدا تو ہے‘لیکن انتہا کوئی نہیں۔ یہاں تک کہ اس کی لفظی مذمت شاید ہی چند ممالک کریں، وہ بھی ایسے طاقتور ممالک‘ جو عالمی حکمران سے مخاصمت رکھتے ہوں۔ بات امریکہ کی ہو رہی ہے تو ہم کسی دانشور، ماہرِ سیاسیات، ڈپلومیٹ یا سیاست دان کی بات نہیں کرتے بلکہ دو دفعہ امریکہ کے صدر رہنے والے بل کلنٹن کے الفاظ پیش کرتے ہیں جس سے اندازہ ہو سکے گا کہ امریکہ جیسے جمہوری ملک کا صدر جب اپنی مدت کی حد یعنی آٹھ سال پورے ہونے کے بعد عہدے سے ہٹ جاتا ہے تو وہ کیا محسوس کرتا ہے۔ بل کلنٹن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ دنیا کا سب سے قابلِ رحم شخص وہ ہوتا ہے جس کے ساتھ ''سابق‘‘ امریکی صدر لکھا ہو۔ امید ہے کہ اب اس بات بلکہ بیان کردہ فلسفے کا نچوڑ سمجھ آ گیا ہو گا۔ امریکی صدر کا انتخاب ایسا موقع ہوتا ہے کہ پوری دنیا کے ممالک، حکومتیں، سرکاری و نیم سرکاری ادارے اس پر نظریں جمائے ہوتے ہیں کہ دیکھیں نیا صدر کون منتخب ہوتا ہے اور اس کی پالیسیاں کس قسم کی ہوتی ہیں، نیا صدر کس قسم کے اتحادی اور کون سے دشمن چنتا ہے۔ بات محض نئے صدر کی سیاسی یا معاشی پالیسیوں ہی کی نہیں ہوتی بلکہ ثقافتی اور نظریاتی محاذوں پر بھی تبدیلیوں کا امکان موجود ہوتا تھا۔ اس کی سب سے بڑی اور آسان مثال ہم اپنے ملک سے لیتے ہیں۔ جب افغانستان میں روسی افواج موجود تھیں تو امریکہ کے نزدیک سوویت یونین سے لڑنے والے افغان حریت پسند اور مجاہد تھے کیونکہ روسی افواج نے ان کے ملک پر حملہ کیا تھا۔ اس وقت امریکہ نے پاکستان کے سرحدی علاقوں کو اپنا بیس کیمپ بنا رکھا تھا اور پوری دنیا سے سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے افراد کو بھرتی کر کے یہاں سے انہیں ہر ممکن امداد کے ساتھ افغانستان بھجوایا جا رہا تھا۔ واضح رہے کہ اس وقت جنگ لڑنے والے افغان رہنمائوں کا امریکہ میں ریڈ کارپٹ استقبال ہوا کرتا تھا۔ ہالی وُڈ کی کئی فلمیں اس موضوع پر بنائی گئیں جن میں افغان مجاہدین کو ''خراجِ تحسین‘‘ پیش کیا گیا۔ اب آپ مشرف دور کو یاد کریں تو یکدم پالیسی بدل گئی‘ وہی افغان جو سوویت یونین کے خلاف لڑنے سے جہادی اور مجاہد قرار پائے تھے‘ اب دہشت گرد بن گئے۔ یہ واقعات واضح طور پر بتاتے ہیں کہ دنیا میں عالمی قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔ عالمی طاقتوں کا مفاد ہی قانون کا درجہ رکھتا ہے۔ بیس سال تک امریکہ افغانستان میں پورے جنگی جاہ و جلال کے ساتھ موجود رہا، جہاں چاہا بمباری کی، حتیٰ کے اپنے ہی بنائے ہوئے مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے کر ان کو مارنا شروع کر دیا۔ اس سارے جنگی عمل میں اس نے بھارت کو بھی شامل کر لیا جو ایک جنگ زدہ ملک میں درجنوں قونصل خانے کھول کر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مشغول رہا۔ آپ کو وہ وڈیو یاد ہو گی جس میں بھارت کے سکیورٹی ایڈوائزر ایک تقریب سے خطاب میں واشگاف الفاظ میں اقرار کرتے ہیں کہ وہ بھاری رقوم کے عوض پاکستان مخالف گروہ چلاتے رہے ہیں۔ اسی طرح دنیا بھر میں موجود امریکہ کے پانچ سو سے زائد فوجی اڈوں کو لے لیں‘ یہ کسی بھی قسم کے قانون کے تحت نہیں ہیں۔ اگر کوئی قانون عالمی سطح پر ہے بھی تو یہی کہ ''یہاں کوئی قانون نہیں ہے‘ سوائے طاقت کے‘‘۔ مگر اب وقت بدل رہا ہے اور عالمی حکمرانی کا تاج مہینوں اور ہفتوں کے حساب سے امریکہ کے ہاتھوں سے کھسک رہا ہے۔
نئی عالمی بادشاہت
اس جمہوری دور میں ''بادشاہت‘‘ کا لفظ عجیب لگتا ہو گا مگر یہ ایک عملی حقیقت ہے۔ بادشاہت میں نہ صرف اختیارات لامحدود ہوتے ہیں بلکہ اس میں جاگیر اور رعایا بھی ہوتے ہیں۔ آج کل کرنسیوں میں باشاہ کا لفظ ڈالر کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کو دنیا کی تمام کرنسیوں کا بادشاہ (Currency King) مانا جاتا ہے۔ امریکہ کی عالمی حکمرانی یا بادشاہت کے برقرار رہنے یا چھن جانے کا یہی ایک معیار ہے؛ یعنی ڈالر کی قدر اور ساکھ۔ جیسا کہ گزشتہ کالم میں بھی ذکر ہوا کہ De- Dollarization پر اس وقت دنیا بھر میں اُتنی ہی بحث ہو رہی ہے جتنی کبھی کووڈ کی عالمی وبا پر ہوا کرتی تھی۔ اب De- Dollarization اس قدر تیزی سے ہو رہی ہے کہ اس وقت امریکہ کا جنوبی ایشیا میں سب سے بڑا حامی بھارت بھی لگ بھگ ڈیڑھ درجن ممالک کے ساتھ اپنی تجارت باہمی کرنسیوں میں کر رہا ہے۔ اس سلسلے کی سب سے اہم کڑی یہ ہے کہ بھارت نے بنگلہ دیش کے ساتھ بھی باہمی تجارت بھارتی روپے اور بنگالی ٹکا میں کرنا شروع کر دی ہے۔ یہ ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے۔ اسی حوالے سے ایک اور نکتہ قابلِ غور ہے۔ آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ گزشتہ چند سالوں میں سونے کی قیمت مسلسل اور بہت تیزی سے اوپر گئی ہے۔ یہ قیمت عالمی سطح پر بھی اسی طرح اوپر گئی ہے جس طرح پاکستان میں ڈالر کی قدر اور پٹرول کا بھائو بلند ہوا ہے۔ اب آپ کو سمجھ آ جانی چاہیے کہ دنیا کے بیشتر ممالک نے ''ڈی ڈالرائزیشن‘‘ سے قبل ہی اپنے سرکاری یا قومی ذخائر کو ڈالر کے بجائے سونے پر منتقل کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور حالیہ چند مہینوں میں اس عمل میں کافی تیزی آئی ہے۔
نوٹ: پاکستان میں جو لوگ ڈالر کو صرف اس لیے خریدتے اور سنبھال کر رکھتے ہیں کہ اس کی قدر میں اضافہ ہوتا رہے گا اور یہ محفوظ سرمایہ کاری ہے‘ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنی اس پالیسی پر غور کرنا شروع کر دیں، اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں