مقابلہ ،کشمکش اورجنگیں …(2)

گزشتہ کالم میں بات ہو رہی تھی کہ دنیا میں جو ایک ایسا نظام رائج ہو چکا ہے‘ جس میں تعاون یا میل جول کے بجائے مقابلے‘ کشمکش اور جنگ جیسی خصوصیات زیادہ نمایاں ہیں۔ واضح رہے کہ عالمی طاقتوں کے درمیان حاکمیت کے لیے کشمکش اور جنگیں ایک مکمل علیحدہ موضوع ہے۔ یہاں کشمکش سے مراد وہ معاشی تقسیم ہے جس میں اضافہ روز افزوں ہے۔ مطلب امیر اور غریب کے درمیان فرق کافی زیادہ بڑھ چکا ہے۔ اس کے ساتھ اگلی بات‘ جو اپنی جگہ بہت زیادہ سنگین ہے کہ درمیانہ طبقہ یا جسے مڈل کلاس کہا جاتاہے‘ بہت تیزی کے ساتھ لوئر کلاس میں منتقل ہو رہی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کی موجودہ صورتحال آپ کو یہ چیز سمجھنے اور سمجھانے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان سے متعلق کہا جاتا ہے کہ ''پاکستان غریب نہیں بلکہ Poorly گَورن کیا جانے والا ملک ہے‘‘۔ یہاں ایک دقت یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ اس ملک کے مسائل اور ابتر حالات کو صرف مقامی مسئلہ سمجھتے اور بتاتے ہیں لیکن اگر وہ کنویں کے مینڈک کی طرح صرف کنویں میں دیکھنے کے بجائے پورے سمندر یعنی عالمی منظر نامے کو دیکھیں تو انہیں پتا چلے کہ اس ملک کو عالمی طاقتوں‘ اداروں اور سب سے بڑھ کر ایک پڑوسی ملک‘ جو ایک عالمی طاقت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے‘ سب پاکستان کو گھیرے ہوئے ہیں اور گھیرے رکھنا چاہتے ہیں۔ افسوس کہ ہماری کرپٹ اشرافیہ اس سارے کھیل کو سر انجام دینے میں ایک آلہ کار کا کردار نبھاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو ایک خفیہ ایجنسی کے اہلکار نے Political Prostitute کا نام دیا تھا۔ یہ کوئی گالی نہیں بلکہ یہاں اس سے مراد ایسے سیاسی لوگ ہیں جو قومی مفادات کے بجائے محض ذاتی مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس اصطلاح کے موجد نے اسے صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا کے تمام پسماندہ ممالک کے لیے استعمال کیا تھا‘ جس میں سب سے پہلے اس نے مثال بھارت کی دی تھی۔ اسی خفیہ اہلکار نے بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کا کوڈ نام ''Vano‘‘رکھا تھا جس کا مطلب ایک بیکار چیز ہے۔ یہ وہی اہلکار ہے جس نے بھارتیوں کو مفید احمق کا نام بھی دیا تھا۔
جنوبی ایشیا میں کشمکش یا جنگ
اب ہم معاشی مشکلات‘ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم اور اس حوالے سے موجود کشمکش کی بات کرتے ہیں۔ اگر عالمی معاشی بحران کی بات کریں تو پوری دنیا اس مشکل سے دو چار ہے لیکن چین ایک ایسا اشتراکی ملک ہے جس کے لیے نظریۂ اشتراکیت کسی عقیدے سے کم نہیں۔ خود چین میں اب بہت ساری ایسی معاشی اصلاحات ہو چکی ہیں جن کی بنا پر اب اسے مِکسڈ معیشت بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن اس ملک نے اپنی غریب آبادی کی تعداد کو قابو میں رکھنے اور اسے بنیادی ضروریات کی آسان فراہمی کے لیے اپنی ترجیحات وضع کر رکھی ہیں۔ان بنیادی ضروریات میں خوراک‘ توانائی‘ ادویات‘ ٹرانسپورٹ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس ملک میں کرپشن کرنے والوں کو سزائے موت بھی دی جاتی ہے۔ اسی کے ساتھ چین نے اپنے ہاں قدرتی ماحول کو صاف رکھنے یعنی آلودگی پر قابو کے لیے بھی بہت کامیاب کوششیں بھی کی ہیں۔ واضح رہے کہ چین نے دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی بارش کا نظام بھی شروع کر رکھا ہے۔ اس کی مدد سے فضا کو صاف رکھنے سے زیادہ پانی کی قلت پر قابو پانے میں بہت مدد ملتی ہے۔ اس کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ سال کے وہ دن جب صرف بادل بنتے ہوں لیکن بارش نہ ہوتی ہو‘ اس موسمیاتی نظام کی مدد سے ان بادلوں کو برسنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس سے زرعی زمینیں سیراب ہو جاتی ہیں اور زائد پانی زمین میں جذب ہونے سے زیر زمین پانی کے ذخائر کو برقرار رکھنے میں مدد بھی ملتی ہے۔ چین نے اپنی آبادی پر کچھ اس طرح سے قابو پایا ہے کہ اب آبادی میں سالانہ اضافے کے حوالے سے یہ دنیا کا پہلا‘ دوسرا‘ حتیٰ کہ تیسرا ملک بھی نہیں رہا اور اس ملک کی آبادی سالانہ محض پینتالیس سے پچاس لاکھ تک بڑھ رہی ہے۔ دوسر طرف پاکستان اور نائیجیریا جیسے ممالک ہیں جن کی سالانہ آبادی چین سے زیادہ بڑھتی ہے۔ رہی بات بھارت کی تو اس کی سالانہ آبادی ایک کروڑ ستر لاکھ کے حساب سے بڑھتی ہے۔
بھارت اس وقت اپنے طور پر ایک عالمی طاقت کا روپ دھارنے کی کوشش کر رہا ہے جو دراصل اس کا ایک فلمی بہروپ ہے۔ بھارت اندرون ملک علیحدگی پسند تحریکوں‘ مسلح کشیدگیوں‘ دنیا کی سب سے بڑی غریب آبادی‘ ایک چوتھائی آبادی کے لیے بجلی نہ ہونے کی مشکل‘ دنیا کا سب سے آلودہ خطہ ہونے کے باوجود علاقائی ہی نہیں بلکہ عالمی جنگوں کا حصہ بن رہا ہے۔ بھارت محض چین کے ترقی کے سفر کو روکنے کے لیے ملاکہ سٹریٹ‘ جو چین کے لیے ایک اہم بحری گزرگاہ ہے‘ کے قریب ایک نیا بحری اڈا تعمیر کرنے میں مصروف ہے۔ چین کے علاوہ بھارت کے نیپال‘ بھوٹان اور سری لنکا سے بھی تعلقات کشیدہ ہیں۔ پاکستان کا تو ذکر ہی رہنے دیں جس کو نقصان پہنچانے کے لیے بھارت خود تباہ ہونے کو بھی تیار ہے۔ امریکہ کے چلے جانے کے باوجود افغانستان میں اپنے بیس سالہ جنگی قیام کی باقیات کی مدد سے وہ اب بھی پاکستان میں دہشت گردی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بھارت نے جنوبی ایشیا کو ایک انوکھی کشمکش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ انوکھی کشمکش اس طرح سے بنتی ہے کہ سالانہ بیس لاکھ لوگ بھارت چھوڑ رہے ہیں‘ وہاں پانی بدستور ختم ہو رہا ہے‘ آلودگی کا زہر ہر سانس کے ساتھ بھارتی شہریوں کے اجسام میں جا رہا ہے‘ وہاں کی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں لیکن یہ انوکھا ملک جس کو مفید اور مہلک احمق کہا جاتا ہے‘ اندرونی مسائل کو یکسر نظر انداز کر کے بیرونی محاذوں پر اُس ملک سے لڑ رہا ہے جس کے ساتھ اب امریکی اتحادی بھی تعلقات بڑھا رہے ہیں۔ آپ باقی چھوڑ یں‘ صرف فرانس ہی کو لے لیں جو واضح طور پر امریکہ اور چین کی سرد جنگ میں مکمل طور پر غیر جانب دار ہو چکا ہے۔
بھارت؛ انوکھا مہلک ملک اور اس کی کشمکش
ہم بنیادی طور پر بات کر رہے ہیں مقابلوں‘ کشمکش اور جنگوں کی تو اس حوالے سے بھارت دنیا کا سب سے انوکھا اور سب سے بڑا مہلک ملک ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارت جو بھی فیصلہ کرتا ہے وہ دنیا کی سب سے بڑی آبادی کے لیے اس طرح ہوتا ہے کہ بھارت اب آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اب بات کشمکش کی ہو رہی ہے تو افراد ہوں یا کوئی ملک‘ اس کی ایک کشمکش کسی دوسرے ہوتی ہے۔ یعنی کسی کا مقابلہ کرنا‘ کسی دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کرنا یا شکست دینا لیکن کشمکش کی ایک شکل ایسی ہوتی ہے جو خود سے ہوتی ہے۔ اس کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ فلاں بندہ اپنے آپ سے مقابلہ کر رہا ہے یا ایک اندرونی کشمکش میں مبتلا ہو چکا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اپنے آپ سے جنگ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس میں ہر دو صورتوں میں شکست اپنی ہی ہوتی ہے۔اب آپ بھارت کا انوکھا باگل پن دیکھیں کہ یہ ملک اپنے لوگ بھوکھے مرتے چھوڑ کر دوسروں کو مارنے پر لگا ہوا ہے۔ بھارت کو جو پیسہ اپنے عوام کے کھانے اور پینے کے صاف پانی پر لگانا چاہیے‘ وہ اسے دوسروں کو مارنے کے لیے بارود خریدنے پر لگا رہا ہے۔ آپ نے بھارتی فلموں میں ہی دیکھا ہوگا کہ کچھ گینگسٹر اپنی فیملی چھوڑ کر غنڈہ گردی میں مصروف رہتے ہیں۔ بھارت اور نہیں تو اپنی بنائی فلموں سے ہی عبرت حاصل کر لے جن کے آخر میں ایسے غنڈے بے موت مارے جاتے ہیں اور کوئی ان کا نام لینے والا بھی نہیں ہوتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں