(3)… Subversion, Paradigm and Culture

بات چل رہی ہے کہ کسی بھی معاشرے کی سوچ‘ نظریات اور طرزِ ندگی کے کسی ایک پہلو یا پھر اسے پوری طرح سے ہلا کر رکھ دینے‘ نقصان پہنچانے‘ حتیٰ کہ سب کچھ یوں بدل دینے والے نظریات کی کہ اُس سماج میں رہنے والے ایک مصنوعی طرز کی بے مقصد (False and Fictitious) زندگی گزار رہے ہوں اور ان کو یہ احساس تک نہ ہو کہ وہ بے کار اور بے مقصد یا پھر کسی اور کی مرضی کی زندگی جی رہے ہیں۔ اس سارے کھیل کا نام Subversion ہے اور اس کے نتیجے میں آنے والی مکمل (تباہ کن) تبدیلی کو پیراڈائم شفٹ ہیں۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ملحد خیالات کا حامل کوئی شخص خدا پر ایمان لے آئے یا کوئی کمیونسٹ سرمایہ دارانہ نظام کا حامل ہو جائے، اس سے اس کی سوچ 180 ڈگری تک تبدیل ہو جائیگی۔ اس سلسلے میں ایک جنگ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے امریکہ کی طرف سے نیو ورلڈ آرڈر کے نام پر غیر مغربی دنیا پر مسلط ہے۔ اس جنگ میں ذکر کیا جائے بھارت کی تہذیب یا ہندو تہذیب کا تو یہ مغرب کے آلہ کار کے طور پر کام آئی۔ اب بھی بھارت نئی سرد جنگ میں چین کے خلاف اپنے تئیں امریکہ کی پراکسی جنگ لڑنے کی کوشش کررہا ہے اور اب Use سے Abuse ہونے کے مقام پر آچکا ہے۔ دو روز پہلے چین کی جانب سے جاری کردہ نئے نقشے‘ جسے نیا سٹینڈرڈ نقشہ کہا جا رہا ہے‘ ہی کی مثال لے لیں۔ اس نقشے میں چین نے ایک بار پھر بھارت کی ریاست اروناچل پردیش‘ جس کا رقبہ 83 ہزار مربع کلو میٹر سے زیادہ ہے‘ کو اپنا علاقہ قرار دے کر اسے ''زنکیاننگ‘‘ کا نام دیا ہے۔ بات واپس مغربی Subversion کی طرف آتی ہے تو علم ہوتا ہے کہ اس وقت ایک نئے عالمی ایجنڈے یا حکمت عملی پر کام ہو رہا ہے۔
Trans- World
Transکا لفظ ایسی جگہ استعمال کیا جاتا ہے جہاں جنس کا تعین نہ ہو رہا ہے، عین اسی طرح اس لفظ کا مطلب کسی بھی لفظ کے مفہوم کی حد مقرر نہ ہونا ہے۔ اس کی ایک مثال ہم نیشنل ازم کے حوالے سے لے سکتے ہیں، جب کچھ لوگ اپنے آپ کو کسی ایک ملک کا شہری کہنے کے بجائے کسی بڑی پہچان کو ظاہر کریں‘ مثال کے طور پر یورپ کے بہت سارے ممالک کے لوگ اپنے آپ کو اپنے ملک کے بجائے اپنی نسبت یورپ سے ظاہر کرتے ہیں اور خود کو یورپین کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ اس قسم کے نیشنل ازم کو ''ٹرانس نیشنل ازم‘‘کہا جا تا ہے۔ یہ تصور اس سے پہلے مسلم دنیا کے کچھ سکالرز مسلم دنیا یا ''امت‘‘ کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ اب آتے ہیں آج کی دنیا کی طرف‘ جہاں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے امریکہ نے نیو ورلڈ آرڈر کے نام پر دنیا کے کلچر کو اپنے طور پر ترتیب دینا شروع کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی کڑی تو حقوقِ نسواں کی تحریک تھی۔ یہ تحریک خواتین کی برابری کی حد تک تو ٹھیک تھی اور کسی قدر پرانی تحریک بھی لیکن اس کے اندر ٹرانس کے تحت کچھ ایسی چیزیں لائی گئی ہیں کہ جو انسانی قدروں ہی نہیں بلکہ قدرت کے واضح اصولوں کے بھی یکسر خلاف ہیں۔ اس میں سے سب سے بڑی مثال دو مردوں یا پھر دو عورتوں کی آپس میں شادی ہے۔ اسی طرح یہ بات اجاگر کرنا یا اس بات کو تقویت دینا کہ کوئی بھی مرد یا عورت اپنے ذہنی میلان کے سبب اپنی جنس کے مختلف تعین کا کا اعلان کر سکتا ہے۔ عرف عام میں اس تحریک کو LGBTQ+ کہا جاتا ہے۔
آج کی دنیا میں ٹرانس کی کچھ دیگر مثالیں بھی دیکھیں‘ جو بہت اہم اور معنی خیز ہیں۔ آج دنیا میں امن اور جنگ کا فرق مٹ چکا ہے۔ اسی طرح دنیا میں ترقی اور تباہی کا سفر ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ دنیا اتنی ٹرانس ہو چکی ہے کہ ایک ہی دن میں اتنی متضادخبریں آتی ہیں کہ کسی حصے میں ماتم اور کسی میں جشن کا سماں ہوتا ہے۔ بعض دفعہ تو ایسی خبر بھی سامنے آجاتی ہے کہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ خوشی کا اظہار کیا جائے، تعجب کا اظہار کیا جائے یا پھر افسوس کا اظہار کیا جائے۔ اس کی تازہ ترین مثال بھارت سے آنے والی بظاہر بہت بڑی خبر ہے کہ بھارت چاند کے جنوبی قطب پر پہنچ گیا ہے۔ برطانوی لوگوں نے اس خبر پر کچھ یوں اظہار کیا ہے کہ تعجب ہے جس ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہو یا اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہو‘ اس ملک نے چاند پر جانے پر اربوں ڈالر لگا دیے۔ اس بڑی کامیابی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا یہ کام آج سے ستر سال پہلے کر چکی ہے۔ اسی تناظر میں ایک مغربی اخبار میں ایک کارٹون چھپا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں موبائل فونز کی تعداد پورے ملک کے ٹوائلٹس کی تعداد سے زیادہ ہے۔ اس خبر کا ایک پہلو کچھ یوں بیان کیا جا رہا ہے کہ بھارت کے زمینی حقائق بہت پسماندہ ہیں، غربت بڑھی ہے،معاشی تفاوت میں اضافہ ہوا ہے، خود کشیوں کی شرح بڑھ رہی ہے مگر وہاں کی حکومت چاند پر جانے کے مشن کو اگلے الیکشن میں اپنی کامیابی کے طور پر استعمال کرے گی۔
ابتدا میں ذکر ہوا کہ چین کی جانب سے بھارت کی ایک پوری ریاست کو اپنا علاقہ ڈکلیئر کر دیا گیا ہے مگر بھارت صرف ہوائی بیانات دے رہا ہے۔ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ چین اس ریاست میں اپنا عمل دخل اور کنٹرول بدستور بڑھا رہا ہے اور اس میں باقاعدہ سڑکیں بھی تعمیر کر چکا ہے۔ اب بھارت یا تو اس قابل ہو کہ چین کے خلاف مزاحمت کر سکے، لیکن بھاری فوج گزشتہ پانچ سال میں چین کی فوج کے ہاتھوں متعدد بار ہزیمت کا سامنا کر چکی ہے۔ اس وقت حد پار ہوگئی تھی جب چین کی فوج نے بھارتی فوج کو مرغا بنانے کی تصویریں جاری کی تھیں۔ مکوں، گھونسوں، ڈنڈوں اور لوہے کے راڈز سے بھارتی فوجیوں کی مار پیٹ کی وڈیوز اس کے علاوہ ہیں۔ بھارت کے معاشی، سیاسی اور انتشار پذیر حالات کو مد نظررکھیں تو لگتا ہے کہ بھارت جیسے ملک کے لیے چاند پر جانے کا مشن ایسے ہی ہے جیسے کسی بھوکے شخص کو کھانا کھلانے کے بجائے اسے تھیٹر کا ٹکٹ دے دیا جائے۔ یہاں ایک خبر کا حوالہ بہت ضروری ہے جو گزشتہ روز ''رونامہ دنیا‘‘ میں شائع ہوئی، امریکہ کی ایک یونیورسٹی نے متنبہ کیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے لوگوں کی اوسط عمر سات سال تک کم ہو نا شروع ہو گئی ہے جس کی بڑی وجہ اس علاقے میں پائی جانے والی آلودگی ہے۔ اب امید کے ساتھ بھارت سے درخواست بھی ہے کہ اس سال اکتوبر میں سموگ جیسی زہریلی دھند کے آتے ہی وہ لاکھوں کلومیٹر دور چاند پر جانے کے بجائے محض تین ہزار میٹر کی بلندی پر جا کر بادلوں کو برسنے پر مجبور کر دے تاکہ پورے خطے کے لوگ اپنی سکڑتی ہوئی زندگی بحال کر سکیں۔ ویسے چاند پر جانے کی طرح‘ مصنوعی بارش برسانے کا طریقہ بھی چھ دہائیاں پرانا ہے اور بھارت یہ تجربہ پہلے بھی کر چکا ہے۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ بھارت کے چاند پر جانے کی خبر اچھی ہے ، تعجب والی ہے یا افسوس ناک ہے۔
ترقی یا تباہی
بات ہوئی تھی ٹرانس کی اصطلاح کی‘ مغربی ایجنڈے نے لوگوں کی شناخت اور پہچان کو بدلنے یا پھر اسے تباہ کرنے کا کام بڑی دیر سے شروع کر رکھا ہے۔ پہلے لوگوں کو خاندان سے دور کیا گیا، پھر مذہب کے تشخص کو مسخ کیا گیا، پھر جنسی پہچان کو مبہم کیا گیا۔ اب ایک یورپی لیڈر کی ایک تقریر بہت وائرل ہو رہی ہے۔ یہ ایک خاتون کی تقریر ہے جس میں لوگوں کو، خواتین و مرد کو‘ خدا، خاندان اور دوستوں سے دور اور علیحدہ کرکے صرف ایک معاشی اکائی بنا دیا گیا ہے۔ اس معاشی اکائی کا کام صرف امیروں کے لیے کام کرنا جس سے کچھ چیزیں پیدا ہو سکیں اور پھر ان پیدا کردہ چیزوں کو خریدنا یعنی تمام لوگوں کی ایک ہی شناخت ہے کہ وہ ایک کسٹمر ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی یہی بنیاد ہے۔ لوگ اس کے علاوہ کچھ اور سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ ان کے دماغ مشین بن کر رہ گئے ہیں۔ انہیں صرف کمانے اور اسے خرچ کرنے کی فکر ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی Subversion ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں