مال ہو تو سب کچھ بلکہ سب کو خریدا جا سکتا ہے۔ لیکچرر نے یہ فقرہ بولا تو حاضرین میں سے کسی نے نفی میں سر ہلایا جس پر لیکچرر نے کہا کہ آپ کو خریدنا بھی تو آنا چاہیے۔ اس کے بعد ایک تفصیلی لیکچر شروع ہوا۔ یہ لیکچر گڈ گورننس کے موضوع پر کوئی پندرہ سال پہلے ہوا تھا۔ مطلب اس وقت بھی ملک میں کرپشن روز افزوں تھی اور حکومت کا سب سے بنیادی مدعا کرپشن ہی گردانا جاتا تھا اور یہ بطور موضوع ایک یونیورسٹی کے ایم فل کے سلیبس میں بھی شامل تھا۔ یہاں اُس دلیل کا ذکر کرنا مقصود ہے جو ہمارے ملک میں بہت زیادہ دی جاتی ہے لیکن مؤثر نہیں ہے۔ وہ دلیل جمہوریت سے جڑی ہے کہ ترقی کیلئے جمہوریت ناگزیر ہے لیکن اس دلیل کی نفی کیلئے مجھے یہاں بھارت‘ چین اور روس کی مثالیں دہرانا پڑیں گی کہ روس نے جمہوریت کے بغیر عالمی طاقت کا مقام حاصل کیا اور اب چین نے بھی ایسا ہی کیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت‘ جو خود کو دنیا کی بڑی جمہوریت کہلانا پسند کرتا ہے‘ بظاہر چاند پر تو پہنچ چکا ہے اور اس کی معیشت بھی ہمارے مقابلے میں مضبوط ہے لیکن اس کی آدھے سے زیادہ آبادی آج بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ان تین ممالک کی مثال دینے کا مقصد یہ ہے کہ روس اور چین میں جمہوریت نہیں لیکن انہوں نے اپنے ہاں کرپشن پر جنگی بنیادوں پر قابو پایا جبکہ بھارت ایک جمہوری ملک ہونے کے باوجود آج بھی کرپشن میں دھنسا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ فارغ لوگ تو کنویں بھی خالی کر دیتے ہیں‘ اسی طرح کرپشن ملکوں کے خزانے خالی کر دیتی ہے۔ اگر کرپشن کی اقسام کی بات کی جائے تو پہلی بڑی قسم جو جنوبی ایشیا کے ممالک میں پائی جاتی ہے وہ Embezzlementہے جس کا لفظی ترجمہ تو غبن ہے لیکن اس سے ہڑپ کر جانا بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔ کرپشن کی اس قسم میں یا تو صرف کاغذوں میں کوئی منصوبہ دکھا کر سرکاری مال ہڑپ کیا جاتا ہے یا پھر سرکار سے بھاری قرض معاف کروا لیے جاتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے اچھے بھلے منافع بخش اداروں کو دیوالیہ ظاہر کر دیا جاتا ہے تاکہ اس کے ذمہ واجب الادا رقم نہ چکانا پڑے۔ کرپشن کی دوسری قسم کک بیکس ہے۔ اس کا مطلب وہ کمیشن ہے جو کسی بھی بڑے منصوبے کا ٹھیکہ دیتے وقت حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک بہت بڑے لیول پر کیا جانے والا گھپلا ہے۔ اسے سمجھنے کیلئے اس کی گہرائی جاننا بھی بہت ضروری ہے۔
سڑکوں کی لمبی قبریں
ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک پر چاہے ان کی قومی آمدن سے زیادہ قرض چڑھا ہوا ہو یا وہاں کے عوام غربت سے مر رہے ہوں‘ وہاں سڑکوں کے منصوبے ہمیشہ جاری رہتے ہیں۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ایسے منصوبے لوگوں کی نظروں میں آتے ہیں جس سے یہ منصوبہ شروع یا منظور کروانے والے سیاستدان کا چرچا ہوتا ہے لیکن اس ضمن میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ سڑکیں ایک لاوارث قبر کی طرح دو سے تین سال میں ہی بیٹھ جاتی ہیں۔ یہاں مجھے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ایک تقریر یاد آ رہی ہے جو انہوں نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں پشاور کے ایک تعلیمی ادارے میں کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم لوگ تعلیمی منصوبوں پر اسلئے رقم نہیں لگاتے کہ یہ کسی کو نظر نہیں آتے جبکہ سڑکیں اور پل اسلئے بناتے ہیں کہ یہ سب کو نظر آتے ہیں۔ اب سڑک بنانا تو غلط نہیں لیکن غہر معیاری مٹیریل لگا کر ایسی سڑک بنانا کہ صرف دو تین سال بعد دوبارہ بنانی پڑے‘ یہ تو قوم کے مستقبل کو برباد کرنے کے مترادف ہے کیونکہ ان تعمیراتی منصوبوں کی وجہ سے اکثر اوقات تعلیمی اور صحتِ عامہ کے منصوبوں کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ اور یہ مشق تو اب ہمارے ملک میں معمول بن چکی ہے کہ جب کوئی نئی سڑک بن جاتی ہے اس کے بعد یاد آتا ہے کہ سیوریج لائن تو ڈالی ہی نہیں اور اگر سیوریج لائن پہلے بچھا لی تھی تو پانی یا گیس کی لائن رہ گئی تھی جس ڈالنے کیلئے سڑک کی پھر سے اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو جاتی ہے۔ چین جانے والے اکثر افراد واپس آ کر بتاتے ہیں کہ وہاں ٹورسٹ گائیڈ سیاحوں کو دورانِ سفر جس پل یا سڑک پر سے گزر رہے ہوں‘ اس کی تاریخ بتاتے ہوئے یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سڑک یا پل کے نیچے کتنے کرپٹ ٹھیکیداروں کی قبریں ہیں‘ جن کو غیرمعیاری تعمیر کی وجہ سے سزائے موت کے بعد اسی سڑک یا پل کے نیچے دفن کر دیا گیا تھا تاکہ نیا آنے والا ٹھیکیدار ایسی جرأت نہ کر سکے۔ اگر انہی سڑکوں کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو یہ آپ کو قوم کی ترقی کا قبرستان لگیں گی۔ آپ نے یہ تو سن رکھا ہوگا کہ بھارت کا ریل کا نظام دنیا کے چند بڑے ریل کے نظاموں میں سے ایک ہے۔ پاکستان میں بھی دنیا کا ایک بڑا اور قدیم ریلوے نظام موجود ہے لیکن اگر پاکستان کے ریل کے نظام کا دیگر ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو پاکستان میں ٹرین کی اوسط رفتار بمشکل ایک سو دس کلو میٹر فی گھنٹہ ہے جبکہ دنیا کے بہت سار ے ممالک میں یہ رفتار پانچ سو کلو میٹر فی گھنٹہ سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ پانچ سو کلو میٹر صرف حوالے کے لیے بتایا ہے جبکہ دنیا میں ٹرینوں کی رفتار اس بھی زیادہ ہو چکی ہے۔اب آپ تصور کریں کہ اس رفتار سے اگر ٹرین پاکستان میں چلے تو آپ ایک گھنٹے کے اندر لاہور سے اسلام آباد جا سکتے ہیں جبکہ اعلیٰ ترین سروس والی بسیں بھی یہ سفر کم از کم ساڑھے چار گھنٹے میں طے کرتی ہیں۔ اگر آپ ذاتی گاڑی بھی استعمال کریں تو اس سفر میں چار گھنٹے تو آرام سے صرف ہوں گے جبکہ دوسری طرف جدید ٹرین سے یہ فاصلہ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں طے ہو سکتا ہے۔ اگر ٹرین یہ سفر ایک گھنٹے میں بھی طے کرے تو بھی یہ موازنہ ایک چار کا بنتا ہے۔
ٹرین اور کرپشن کی رفتار
جدید ٹرینوں کا مقابلہ تو اب ہوائی جہازوں سے کیا جا رہا ہے۔ اس کی مثال کچھ یوں دی جا سکتی ہے کہ اگر آپ جہاز سے لاہور سے اسلام آباد جائیں تو آپ کو وہ آدھ سے ایک گھنٹے بھی شمار کرنا پڑے گا جو ایئر پورٹ پر چیکنگ یا فلائٹ میں تاخیر کی نذر ہوتا ہے جبکہ سفر کا وقت اس کے علاوہ ہے۔ اگر اس ہوائی سفر کا دورانیہ آپ آدھا گھنٹہ بھی فرض کر لیں تو بھی لاہور سے اسلام آباد کا بذریعہ جہاز سفر ڈیڑھ گھنٹے کا ہوگا جبکہ بلٹ ٹرین کے ذریعے اس سفر کا دورانیہ اس سے کم ہوگا۔ ٹرین کے سفر کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ دورانِ سفر آپ چل پھر سکتے ہیں۔ اگر آپ کو لاہور سے کراچی جانا ہے تو آپ یہ سفر برتھ پر لیٹ کر بھی کر سکتے ہیں۔ باقی باتیں چھوڑیں‘ ٹرین کا سفر دنیا میں سب سے زیادہ محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔ آخری بات یہ کہ ٹرین کا سفر جہاز کے مقابلے میں آٹھ سے دس گنا حتیٰ کہ اس سے بھی زیادہ سستا ہو سکتا ہے۔ اس کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ جہاں جہاز پر پچاس ہزار روپے لگے گیں وہاں ٹرین پر یہ سفر پانچ ہزار روپے میں ہو سکتا ہے۔ آپ اس کو احتیاط کے طور پر پانچ گنا بھی کر لیں تو بھی یہ فرق پچیس ہزار بمقابلہ پانچ ہزار بنتا ہے جو ہر طرح سے ناقابلِ یقین ہے۔
ویسے تو ٹرین کے سفر کا سڑک کے ذریعے سفر سے کوئی موازنہ نہیں بنتا لیکن اگر آپ یہ موازنہ کر بھی لیں تو ٹرین کے سفر کا دورانیہ اور کرایہ سڑک کے سفر سے کئی گنا کم ہوگا۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا ریلوے کا نظام تو خسارے میں جا رہا ہے اور نجی بس کمپنیاں دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں۔ دونوں کی رفتار اور تحفظ میں وہی فرق ہے جو حلال اور حرام کمائی کا ہے۔ ریل کا نظام کرپشن کی نذر ہو کر برباد ہو چکا ہے یا جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ اگر قومی اداروں کو نیک نیتی سے چلایا جائے تو یہ قوم کو پالتے ہیں لیکن اگر کرپشن کی نذر ہو جائیں تو صرف چند خاندان ہی پلتے ہیں بلکہ پل پل کر پھٹ جاتے ہیں۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو معاشرے میں قلت اور کثرت کو جنم دیتا ہے۔ یہ مالی کثرت اور قلت وہ ذلت ہے جو قوموں کو ہڑپ کر جاتی ہے۔ آپ نے خاندانی غلاموں (Bonded Labour) کے بارے میں تو سنا ہوگا‘ ان لوگوں کی کئی کئی نسلیں اپنے بڑوں کا لیا قرض معمولی مزدوری کی صورت میں ادا کرتی رہتی ہیں۔عالمی طاقتیں اپنے دیے ہوئے قرضوں اور اپنے بنائے مالیاتی اداروں کے ذریعے اس جدید دور میں بھی ہمارے اوپر ایک آمریت مسلط کیے ہوئے ہیں۔ ان عالمی طاقتوں اور عالمی اداروں کی طرف سے قرض دیے جانے کے بعد کوئی چیک نہیں رکھا جاتا کہ جس مقصد کیلئے قرض لیا گیا تھا اسی مقصد کیلئے استعمال ہوا یا ہڑپ کر لیا گیا۔ عوام صرف ایک گھن چکر کا سمجھ لیں تو ان کے ہوش اڑ جائیں گے۔ یہ بھاری قرض لے کر کرپٹ اشرافیہ اپنے جیسے افسروں کی مدد سے قرض کی یہ رقم انہی ممالک میں منتقل کر دیتی ہے جہاں سے یہ مشکل شرائط پر عوام کی بہبود کے نام پر لیا جاتا ہے اور اسی رقم سے وہاں اپنے محل کھڑے کرتی ہے اور عوام کی کئی نسلیں اس قرض کی ادائیگی میں اپنی زندگی گزار دیتی ہیں۔