جنوبی ایشیا 'مستقبل کا افریقہ‘، 'بدترین ایشیا‘ اور 'نچلا ترین ایشیا‘ ہے۔ یہ عنوانات اور ان کی وجوہات کا ذکر راقم اپنے کالموں میں گزشتہ دو سال سے زائد عرصہ کرتا چلا آ رہا ہے۔ اسی طرح بھارت سے متعلق 'مفید سے مہلک احمق‘، 'بگ بلنڈرز آف بھارت‘، 'بلائنڈ بلنڈرز آف بھارت‘ اور 'نرگسیت میں مبتلا بلا‘ جیسے عنوانات استعمال کیے گئے۔ بہت سارے لوگ اس پر خاصے تعجب کا اظہار کیا کرتے تھے کہ بھارت تو بہت آگے نکل چکا ہے، ترقی کی منازل طے کر چکا ہے، اس کی اکانومی دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے جا رہی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ میں نے اس وقت بھی اپنے کالموں میں متعدد بار اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ یہ ملک تضادات کا مجموعہ ہے لہٰذا یہ عنقریب کسی منفی انجام کو پہنچے گا۔ اب اس کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ حال ہی میں کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے کینیڈین پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران بھارت پر واشگاف الفاظ میں ایک کینیڈین شہری کے قتل کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ ان الزامات نے بھارت کی حد اور اس کے عالمی قد میں مزید کمی کر دی ہے۔ اس طرح کے الزامات اور انکشافات کی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
بھارت کے جدید تضادات
بھارت کے نوبیل انعام یافتہ مصنف (Amartya Sen) نے اپنی کتاب کا عنوان رکھا تھا: An Uncertain Glory: India and its Contradictions۔ امرتیا سین کہتا ہے کہ بھارت کے تضادات کی وجہ سے اس کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے۔ اسی طرح بھارت کے مشرقِ وسطیٰ میں تعینات رہے سابق سفیر تلمیذ احمد نے چند ماہ قبل اپنے ملک کے بارے میں کہا تھا کہ یہ اپنے ہی خیالات و تصورات میں مبتلا ایک self-absorbed ملک ہے۔ بھارت کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ جارحانہ تعلقات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بھارت ایک برطانوی طرز کی راج شاہی سوچ میں مبتلا ملک ہے۔ اگر ایک نظر آج کے بھارت پر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ بھارت کی نقشوں کی جنگ یعنی سرحدی تنازعات پاکستان کے علاوہ نیپال، بھوٹان اور سب سے بڑھ کر دوسری بڑی عالمی طاقت چین کے ساتھ بھی ہیں اور یہاں لگ بھگ ساڑھے تین ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر تنازع چل رہا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اس کی سرحد بنگلہ دیش کے ساتھ بھی مکمل طور پر واضح نہیں ہے اور اسی طرح کے معاملات میانمار کے ساتھ بھی ہیں۔ چین کے ساتھ اس کی سرحد کی حیثیت ایک عارضی لائن کی ہے، جس کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل او سی) کہا جاتا ہے۔ چین کے ساتھ سرحدی تنازعات میں گزشتہ پانچ برس سے ایک کشیدہ صورتحال چل رہی ہے۔ یہ کشیدگی اروناچل پردیش کی پوری ریاست پر چین کی جانب سے اپنا حق جتانے سے شروع ہوئی تھی۔ چین نے حال ہی میں ایک نیا سرکاری نقشہ جاری کیا ہے جس میں اِس پوری ریاست کو چین نے اپنا حصہ قرار دیا ہے۔ قبل ازیں نیپال نے دوسری دفعہ اپنا نیا نقشہ جاری کیا ہے جس میں بھارت کا مزید علاقہ اپنا حصہ قرار دیتے ہوئے اس نے بھارت کو مزید پیچھے دھکیل دیا ہے۔
بھارت میں آئندہ الیکشن کی آمد آمد ہے۔ ایسے میں ایک فاشسٹ طرز کے حکمران نریندر مودی نے اپنی قوم کو واضح طور پر ہندو اور غیر ہندو آبادی میں تقسیم کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ریاست منی پور ہے، جہاں 3 مئی سے شروع ہونے والی خانہ جنگی طرز کی کشیدگی پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا۔ اتنے بڑے ملک کے لیے یہ ایک کھلا چیلنج ہے۔ بھارت کی آرمی بھی اس علاقے کے حالات کو نارمل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حالات کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس علاقے کی پولیس نے اپنی ہی آرمی کی ایک یونٹ ''آسام رائفلز‘‘ کے خلاف ایف آئی آر کٹوا رکھی ہے۔ جس ملک کی پولیس اس کی فوج پر فسادات اور قتل کا الزام لگائے‘ اگر دور دراز کا کوئی ملک اس پر اپنے شہری کے قتل کے الزام لگاتا ہے تو اس میں حیرانی کی قطعاً کوئی بات نہیں۔ اس سے بھی بڑا اور کھلا تضاد یہ ہے کہ بھارت نے اپنی ایجنسیوں سے کینیڈا میں قتل کراتے ہوئے یہ بھی نہ سوچا کہ دنیا کے پانچ ممالک کی ایجنسیاں اس پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان پانچ ممالک میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ شامل ہیں جن کی خفیہ ایجنسیوں نے ''پانچ آنکھوں‘‘ کے نام سے ایک انوکھا اتحاد بنا رکھا ہے۔ ایسے میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کی حالت ایک ایسی ایجنسی کی سی ہے جس کی ایک آنکھ بھی بمشکل کام کرتی ہے، وہ کیسے اپنے کسی مخالف کو خفیہ طور پر قتل کر سکتی ہے، وہ بھی کینیڈا جیسے ملک کی سرزمین پر جو پانچ انٹرنیشنل ایجنسیوں کے اتحاد کا باقاعدہ حصہ ہے۔
''خام ایجنسی‘‘ کی خراب آنکھیں
بھارت کی خفیہ ایجنسی کا نام RAW ہے۔ اگر اس لفظ کو الٹا پڑھیں تو یہ war یعنی جنگ بنتا ہے۔ RAW کا مطلب خام چیز ہوتا ہے، مثلاً جب لوہا زمین سے نکلتا ہے تو اس کی شکل ایک مٹی کے ڈھیلے کی طرح ہوتی ہے، اس کو گرم کرکے اس میں سے فالتو مواد علیحدہ کیا جاتا ہے، تب لوہا نکھر کر سامنے آتا ہے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی کی حالت بھی ایسی ہی ہے یعنی خام۔ اس ایجنسی کی شہرت صرف اور صرف بالی وُڈ فلموں کے سبب ہے۔ یہ ایجنسی کتنی خام یعنی غیر معیاری ہے‘ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ایک خفیہ میٹنگ بلائی اور منصوبہ بنایا کہ مغربی پاکستان پر بھی حملہ کیا جائے گا۔ لیکن اس میٹنگ کے فوری بعد یہ ساری پلاننگ امریکہ کے صدر کی میز پر پہنچ چکی تھی۔ اس پر امریکی صدر نکسن نے فوری طور پر اندرا گاندھی کو فون کر کے دھمکی دی اور اس طرح کی کسی بھی حرکت سے باز رہنے کی ہدایت کی۔ 'را‘ کو اس تاریخی واقعے ہی سے سبق سیکھ لینا چاہیے تھا کہ اس کے معاملات کس حد تک خفیہ ہیں۔ یہاں پر ایک تاریخی انکشاف بھی کرتے چلیں کہ اس واقعے کے بعد جب امریکی ریسرچرز نے تحقیقات کیں تو پتا چلا کہ وزیراعظم اندرا گاندھی کے ایک قریبی وزیر امریکی ایجنسی کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے۔ یہ صاحب‘ جو امریکی ایجنسیوں کے پے رول پہ تھے‘ بھارت کے نائب وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔ باقی باتیں چھوڑیں‘ بھارت کی طاقتور ترین وزیراعظم اندرا گاندھی خود روسی ایجنسی کے پے رول پر تھیں۔ اندرا گاندھی کو روس نے VANO کا کوڈ نام دیا تھا جس کا مطلب ایک بے کار چیز ہوتا ہے۔ جو ایجنسی اپنی وزیراعظم اور نائب وزیراعظم کا ہی پتا نہ چلا سکے کہ وہ غیر ملکی ایجنسیوں کے ایجنٹ ہیں‘ اس کی صلاحیت و استعداد کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ کیسے سمجھ لیا گیا تھا کہ کینیڈا جیسے جدت کے حامل مغربی ملک کی سرزمین پر ایک متحرک شخصیت کو قتل کیا جائے گا اور کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا؟ یہاں پر اس 'خام‘ یعنی غیر معیاری ایجنسی کو یہ بھی خیال کرنا چاہیے تھا کہ یہ سکھ لیڈر کینیڈا کا ایک معزز شہری ہے۔ عالمی سیاست میں کسی شخص کو ہیرو یا ولن یا ولن سے پھر ہیرو کا درجہ دینا‘ یہ صلاحیت ایک سپرپاور کے پاس ہی ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ انٹرنیشنل ایجنسیاں دوسرے ملکوں کے حکمرانوں کو بھی راستے سے ہٹا دیتی ہیں لیکن وہ ملک اور ان کی ایجنسیاں اتنی طاقتور اور باصلاحیت ہوتی ہیں کہ کوئی نشان تو کیا‘ ان کا نام لینے والا بھی پیچھے نہ رہے۔ خود بھارت کے تین حاضر وزرائے اعظم قتل ہو چکے ہیں جن میں سے ایک دیارِ غیر میں مارا گیا تھا۔ اس لیے اس ایجنسی کو پانچ آنکھوں والی عالمی ایجنسیوں کے اتحاد سے مقابلہ کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ کہیں یہ اس کی آخری غلطی ہی نہ ہو ۔ اس کی اپنی حالت تو محض ایک آنکھ والی بھی نہیں ہے، اور اگر ہے بھی تو اس سے جو کچھ یہ دیکھتی ہے وہ خام یعنی ادھورا ہوتا ہے۔ ویسے اب بھارت سرکار کی آنکھیں کھل چکی ہوں گی، لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ ان کھلی آنکھوں سے بھارت زمینی حقائق کو دیکھنا شروع کرتا ہے یا نہیں۔