یہ 1950ء کی بات ہے جب چین نے بھارت سے ملحقہ علاقے تبت کو اپنے اندر ضم کیا تھا۔ اس وقت کے بھارت کے آرمی چیف نے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو سے کہا کہ بھارت کو چین سے ملحقہ سرحد پر خاص توجہ دینی چاہیے، لیکن نہرو نے جواب دیا کہ بھارتی فوج صرف کشمیر اور پاکستان کی سرحدی صورتحال پر اپنی توجہ مبذول رکھے۔ یاد رہے کہ تبت کے بڑے علاقے کے چین میں ضم ہونے کے بعد بھارت چین کا ساڑھے تین ہزار کلومیٹر طویل سرحد والا ہمسایہ ملک بن گیا تھا۔ اس قدر طویل سرحد کے باوجود بھارت کی تمام تر اور جارحانہ توجہ محض پاکستان کو کسی بھی طریقے سے نقصان پہنچانے پر مرکوز رہی۔ عین اس وقت دوسرا محاذ بھارت نے اپنے اندر خودمختار ریاستوں کو ہڑپ کرنے سے کھول رکھا تھا۔ اس نے جونا گڑھ، مناودر، سکم، منی پور اور حیدر آباد (دکن) جیسی آزاد ریاستوں پر بزور قبضہ کیا۔ بھارت نے یہ علاقے تو طاقت سے جیت لیے لیکن ان علاقوں کے لوگوں کے دلوں سے اترتا چلا گیا۔ حالانکہ اس کے برعکس ہونا یہ چاہیے تھا کہ بھارت اس علاقے کے بڑے ملک کے طور پر ایسی پالیسی اپناتا کہ خطے کے لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتا مگر اس نے بالکل متضاد پالیسی اپنائی اور جبر سے اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کی۔
ہلاکت خیز آلہ کار
جنوبی ایشیا پر دو سو سال تک حکومت کرنے کے بعد بھی برطانیہ اس خطے کو کسی طور اپنے قدموں پر کھڑا ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ اسی مقصد کے پیشِ نظر اس خطے کی تقسیم انتہائی متنازع بنیادوں پر کی گئی۔ اسی تناظر میں اس علاقے کے سب سے زرخیز علاقے پنجاب کے لوگوں کو ہجرت کے لیے انتہائی کم وقت دیا گیا اور ایسے اسباب پیدا کیے گئے کہ جن سے ہجرت کے موقع پر لوگوں کا قتلِ عام ہوا۔ اس قسم کی حکمت عملی کو Pogrom کہا جاتا ہے۔ بھارت پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ مستحکم اور طاقتور ملک تھا، اگر نہرو حکومت چاہتی تو تقسیم کے نتیجے میں ہونے والی ہجرت کو پُرامن بنا سکتی تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ وہ تاجِ برطانیہ جس نے انتہائی محدود فوج کے ساتھ پورے برصغیر کو صدیوں تک غلام بنائے رکھا‘ کیا وہ ان فسادات کو روکنے کے قابل نہیں تھا؟ یقینا تھا مگر یہ سب اس کے ایک بڑے پلان کا حصہ تھا۔ چونکہ اس تقسیم اور ہجرت کا سب سے زیادہ نقصان سکھوں اور مسلمانوں کو ہو رہا تھا، اس لیے بھارت کی ہندو اشرافیہ نے یہ سب کچھ ہونے دیا۔ بھارت کی حکومت کے کیا عزائم تھے، اس کا اندازہ سکھوں کے ساتھ ایک خودمختار علاقے کے وعدے سے انحراف سے ہو جاتا ہے۔ نہرو نے سکھوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''You have missed the boat‘‘۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ سکھوں نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا موقع گنوا کر اپنے آزاد ملک کوکھو دیا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ جب بھارت نے اپنا آئین بنایا تو اس کی ایک شق کے مطابق سکھوں کو ہندوئوں کی ایک شاخ قرار دیا گیا۔ علیحدگی پسند سکھ جنگجو سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اس بات کی بنیاد پر ہی بھارت سرکار سے الجھتے رہے۔ بھنڈرانوالہ نے بھی ایک نئی طرز کا دو قومی نظریہ بلند کیا اور کہا کہ سکھ ہندوئوں سے ایک علیحدہ قوم ہیں۔ اسی سلسلے میں 1984ء میں امرتسر کے گولڈن ٹیمپل میں ریاستی بربریت کا جو کھیل کھیلا گیا‘ وہ آج بھی پوری دنیا کے سکھوں کو یاد ہے۔ کینیڈا میں ہونے والے ایک سکھ رہنما کے قتل اور کینیڈین وزیراعظم کے بھارت کی خفیہ ایجنسی پر الزامات کے بعد سے سب کچھ پھر سے زندہ ہو گیا ہے۔ یہاں پر ایک اہم خبر کا اضافہ ضروری ہے، وہ یہ کہ بھارتی ریاست منی پور کے ایک لیڈر نے بھی کینیڈا میں سکھوں کے ایک گردوارے جا کر منی پور میں ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ یاد رہے کہ منی پور ریاست میں تین مئی سے عیسائی مذہب کے لوگ ہندو قبائل کے ہاتھوں جبر اور بربریت کا شکار ہیں۔
بھارت اپنے قیام کے بعد سے اب تک اپنی دفاعی پالیسی میں صرف سانحہ مشرقی پاکستان کا کریڈٹ لیتا آیا ہے اور اس کو اپنی قومی فتح قرار دیتا ہے حالانکہ اس سارے معاملے میں بھارت دراصل ایک آلہ کار تھا جبکہ ساری سرمایہ کاری، دخل اندازی اور تربیت مکمل طور پر اس وقت کی دونوں عالمی طاقتوں‘ سوویت یونین اور امریکہ کی ایجنسیوں کی تھی۔ پاکستان چونکہ ایک نظریاتی ریاست ہے اور اس کے قیام سے پہلے ہی دنیا میں دو نظاموں یعنی اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے مابین ایک کشمکش کا آغاز ہو چکا تھا، لہٰذا امریکہ کے ساتھ سوویت یونین نے بھی اس بات پر اتفاق کیا کہ دنیا میں ایک تیسرے نظام کی بات نہ شروع ہو جائے‘ لہٰذا اس نظریے پر کاری ضرب لگانا ضروری ہے۔ روس کی ایجنسی کے جی بی اس معاملے میں اس حد تک ملوث تھی کہ اس کے پے رول پر صرف اندرا گاندھی نہیں تھی بلکہ شیخ مجیب الرحمن بھی روسی ایجنسیوں کے ہاتھ میں کھیل رہا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش کی آرمی کے ایک گروپ نے ہی شیخ مجیب کو خاندان سمیت قتل کر دیا تھا۔ نہرو خاندان کس حد تک روس کے قریب تھا اس کا اندازہ 1965ء میں بھارتی وزیراعظم شاستری کی روس میں پُراسرار موت سے لگایا جا سکتا ہے۔ آج بھارت سرکار دبے دبے الفاظ میں اعتراف کرتی ہے کہ شاستری کی موت طبعی نہیں تھی۔ اس قتل کے قریب دو ہفتوں بعد اندرا گاندھی وزیراعظم بنی تھیں۔ اندرا گاندھی بھارت کی ایک طاقتور وزیراعظم تھیں جنہوں نے اپنی جارحانہ اور جابرانہ پالیسی اور خاندانی آمرانہ جمہوریت کے لیے دو سال تک بھارت میں ایمرجنسی بھی لگائے رکھی۔ اب گزشتہ دس‘ پندرہ سال سے بھارت چین کے خلاف ایک خودکش قسم کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے اور چین کے معاشی منصوبوں کو خراب کرنے کے لیے عالمی ایجنسیوں کے ہاتھ میں ایک ہلاکت خیز آلہ کار بنا ہوا ہے۔ اس سارے کھیل میں بھارت کا مستقبل کیا ہو گا، اس کا فیصلہ امریکہ اور چین میں سے کسی ایک طاقت کے عالمی حکمران بننے کے بعد ہو گا۔
ذہانت سے عقل مندی تک
آج کل عالمی سطح پر شدت سے بھارت کی خفیہ ایجنسی کا ذکر ہو رہا ہے لیکن اگر بھارت معاملے کی نزاکت کو سمجھے تو اس کو تھوڑا عقل مند ہونے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ ذہانت ایک خداداد صلاحیت ہے مگر عقل مند وہ ہے جو اپنی ذہانت کو بروقت بروئے کار لائے۔ بھارت ایک ایسا ملک ہے جس کے متعلق بیرونی ماہرین کے علاوہ اس کے اپنے ماہرین بھی یہ وارننگ دے چکے ہیں کہ وہ تباہی کی راہ پر گامزن ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ صرف انہی ملکوں کی ایجنسیاں دیگر ممالک میں دخل اندازی کرنے کے قابل ہو پاتی ہیں جن کے اپنے ہاں سیاسی، معاشرتی اور سب سے بڑھ کر معاشی سطح پر استحکام ہوتا ہے۔ بھارت کے اندر ان تینوں میں سے ایک بھی استحکام موجود نہیں ہے۔ ان حالات میں بھارت کو جتنی جلدی ہو سکے چین کے خلاف قائم اتحادوں سے نکل جانا چاہیے۔ چاند پر جانے کے مشن جیسی باتوں پر مصنوعی خوشی منائے کے بجائے زمینی حقائق کے قریب جانے کی ضرورت ہے۔ یاد آیا کہ چین کی جانب سے بھارت کے چاند پر جانے کے مشن کے دعوے کو چیلنج کر دیا گیا ہے۔ خیر چھوڑیں اس قصے کو‘ فی الوقت ہم چاند کے بجائے بھارت کی زمین کی بات کرتے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ اور نہ ہی کوئی فلسفہ بگھارنے کی بات ہے۔ صرف اکتوبر کے مہینے کی آمد کا اشارہ سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ وہی مہینہ ہے کہ جب پورے جنوبی ایشیا میں زہریلی دھند یعنی سموگ کی آمد شروع ہو جاتی ہے۔ اس زہریلی دھند کا سب سے بڑا گڑھ بھارت ہے۔ مسلسل کئی سالوں کی کاوشوں کے باوجود بھارت تاحال سموگ کے مسئلے پر قابو نہیں پا سکا ہے۔ اسی حوالے سے چین کی مثال بھی سب کے سامنے ہے۔ بیجنگ جو کبھی دنیا کا آلودہ ترین شہر تھا، اس کی چین نے ایسی کایا کلپ کی کہ بیجنگ اولمپکس کے موقع پر سب اس شہر کی فضائی صفائی کو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ بھارت کی خفیہ ایجنسیاں اپنی حکومت کو یہ رپورٹ بھی دیں بلکہ اس پر عمل بھی کرائیں کہ بھارت اپنے اندر اور باہر کی جنگوں کو صرف اس وقت لڑ سکتا ہے جب یہ خطہ زندہ رہ پائے گا کیونکہ عالمی ادارے متنبہ کر چکے ہیں کہ جنوبی ایشیا کی فضائی آلودگی اس قدر زیادہ ہوچکی ہے کہ اس علاقے کے لوگوں کی اوسط عمر میں پانچ سے سات سال کی کمی واقع ہونا شروع ہو چکی ہے۔ بھارت کو اب سب سے پہلے اپنے ہاں اس زہریلی دھند کا سد باب کرنے کی ضرورت ہے، پھر اپنے ہمسایہ ممالک کو بھی اس بات پر مجبور کرے کہ اس خطے کی بقا کو لاحق خطرات کے خلاف متحد ہو کر لڑا جائے۔ پورے خطے میں پینے کا پانی عدم دستیاب ہوتا جا رہا ہے اور جو پانی دستیاب ہے بھی وہ مضرِ صحت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب بھارت اپنے ہمسایہ ممالک سے جنگی طرز کی پالیسی بدلے گا۔ اب اگر بھارت کے ہمسایہ ملک چین ہی کی مثال لیں تو وہاں مصنوعی بارشیں برسانے کے لیے دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ لگایا جا چکا ہے۔ اور کچھ نہ سہی‘ بھارت ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے منصوبوں میں ہی چین کا مقابلہ کرنے کو اپنی بقا کی جنگ سمجھ لے اور اپنے ہاں تواتر سے مصنوعی بارشیں برسانا شروع کر دے۔ یہاں بھارت کے ایٹمی طاقت کے حصول کے منصوبے کی یاد آتی ہے، جو اس وقت مشکل ترین کام تھا۔ مصنوعی بارش برسانے کا نظام تو بھارت میں دہائیوں قبل نصب ہو چکا، نجانے بھارتی اداروں نے موسمیاتی خطرات کے حوالے سے کوئی ڈیسک بنایا بھی ہے یا نہیں،اگر نہیں تو اس سے بھارت کی ایجنسیوں کے اندھے پن کے توثیق ہو جاتی ہے۔