اس وقت سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ غزہ‘ اسرائیل جنگ کا مستقبل کیا ہو گا۔ ممکن ہے کہ یہ تائیوان، یوکرین، بھارت‘ چین سرحدی علاقوں میں چین کی بڑھتی پیش قدمی اور پاکستان پر مسلط ایک معاشی جنگ کی طرح ایشیا اور مغرب کی سرد جنگ کا ایک نیا محاذ ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایک طے شدہ معاملہ یعنی False Flag آپریشن ہو، یعنی اسرائیل نے خود ہی یہ سب کچھ ہونے دیا ہو تاکہ وہ اس کو جواز بنا کر فلسطین کا وجود ہی ختم کر دے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یوکرین کے معاملے پر اسرائیل کی جانب سے روس کی مخالفت کی وجہ سے فیصلہ کیا گیا ہو کہ اب اسرائیل کے تسلط اور جبر کے خلاف چپ نہیں رہا جائے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے چین کے خلاف بڑھتے ہوئے محاذوں کی وجہ سے اب چین نے عالمی حکمرانی کی جنگ میں ایک سخت قدم آگے بڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسرائیل کو عرب مسلم ممالک کی جانب سے دھڑا دھڑ تسلیم کرنے کے بعد دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کے قیدیوں یعنی اہلِ فلسطین بالخصوص اہلِ غزہ کو یہ لگا ہو کہ اس کے بعد ان کا وجود بالکل ہی ختم ہو کر رہ جائے گا، اسی لیے انہوں نے حتمی لڑائی لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جنگ مذکورہ تمام اسباب کا مجموعہ ہو۔
نیا ورلڈ آرڈر یا سرد جنگ کا ایک محاذ
اس مفروضے میں زیادہ وزن نظر آتا ہے کہ یہ نئی سرد جنگ ایک نئے ورلڈ آرڈر کے لیے شروع کرائی گئی ہے۔ یہ عالمی ایجنڈے کا ایک نیا محاذ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ روس اور چین کی جانب سے فلسطینیوں کے حق میں بیانات ہیں۔ اس کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک عالمی فورم پر چین کے وزیر خارجہ وانگ یی کی ملاقات ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار سے ہوئی تو امریکی عہدیدار نے چین کے وزیر خارجہ سے اس بات کا کھلے الفاظ میں گلہ کیا اور اس کو عالمی میڈیا نے خوب ہائی لائٹ بھی کیا۔ فلسطین کے حق میں جتنے بھی ممالک کھڑے ہیں ان کے بیانات میں ایک قدر مشترک ہے‘ وہ یہ کہ سبھی نے اس متنازع اور طویل عرصے سے جنگی کیفیت کے شکار علاقے میں مستقل امن کے لیے دو ریاستوں کے قیام ہی کو اس مسئلے کا حل قرار دیا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس سے کم اس مسئلے کا حل اب نظر بھی نہیں آتا، جبکہ فلسطینیوں کے مزاحمتی وار سے پہلے ایسا کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا، بلکہ یوں کہیں کہ ایسا کچھ ہونے کا امکان بھی ختم ہو چکا تھا۔ اسی طرح پورے مشرقِ وسطیٰ کے واحد بڑے لیڈر کے طور پر اسرائیل میدان میں اپنے قدم جما چکا تھا اور اس کے وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں ایک نیا معاشی منصوبہ بھی پیش کر دیا تھا جس میں بھارت سے مشرقِ وسطیٰ اور پھر یورپ کی جانب ایک معاشی کوریڈور بنایا جانا تھا۔ اس کا نقشہ بھی سامنے آ چکا ہے۔ اس منصوبے میں چین کے اپنی معاشی سرگرمیوں کے لیے بنائے گئے منصوبوں اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک متبادل پیش کیا گیا تھا اور یہ منصوبہ کھلم کھلا چین کی معاشی وسعت کے لیے ایک چیلنج تھا۔
مشرقِ وسطیٰ سے جنوبی ایشیا تک
اس جنگ کے اثرات مشرقِ وسطیٰ کے بعد جس خطے میں مرتب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں وہ جنوبی ایشیا ہے۔ جنوبی ایشیا سے مراد بنیادی طور پر بھارت، پھر پاکستان اور نیپال ہیں۔ اس کے ساتھ افغانستان کا نام بھی شامل کر لینا چاہئے جو تکنیکی طور پر جنوبی ایشیا ہی کا حصہ ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ بھارت کو دہائیوں سے جس ملک کی حمایت اور مدد حاصل رہی وہ اسرائیل ہے۔ اگرچہ یہ حمایت زیادہ تر خفیہ رہتی ہے کیونکہ یہ حساس قسم کی عسکری مدد ہوتی ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگرچہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ممالک کی فہرست بہت طویل ہے لیکن اس ملک کا دورہ کرنے والے عالمی سربراہان کی تعداد بہت ہی قلیل ہے۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی 2017ء میں اسرائیل کا سرکاری دورہ کرنے والے بھارت کے پہلے وزیراعظم ہیں۔ اسی طرح بھارت نے موجودہ کشیدگی اور حماس کے گوریلا آپریشن کو ایک مکمل جنگ مانتے ہوئے اسے دہشت گردی تک قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کا میڈیا اس معاملے کو دہشت گردی ہی کا نام دے رہا ہے۔ مسئلہ بھارت کے لیے یہ ہے کہ پہلے اس نے یوکرین جنگ میں روس سے تیل خرید کر جو خودمختاری کا تاثر دینے کی کوشش کی تھی‘ اس کا نتیجہ وہ کینیڈا کے وزیراعظم کی جانب سے بھارتی ایجنسیوں پر دہشت گردی اور ایک سکھ کینیڈین شہری کے قتل کے الزامات کی شکل میں بھگت چکا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ بھارت اس قتل میں ملوث ہے یا نہیں‘ اہم بات یہ ہے کہ ا س مدعے کو کس موقع پر کس طرح استعمال کیا گیا۔
بھارت نے یوکرین معاملے پر یہ پوزیشن اختیار کی تھی کہ اس میں وہ امریکی بلاک کے ساتھ نہیں کھڑا بلکہ نیوٹرل ہے، لیکن اب مشرقِ وسطیٰ کی لڑائی میں وہ واضح پوزیشن لے کر مغربی لابی کی طرف بڑھ گیا ہے۔ اس بات کو مزید جانیں تو پتا چلتا ہے کہ یوکرین کے مسئلے پر اسرائیل نے یوکرین یعنی مغربی بلاک کی حمایت کی تھی اور اب یوکرین بھی حالیہ کشیدگی میں اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس سارے کھیل میں اسرائیل کے بعد اب بھارت بھی روس سے دور ہو چکا ہے۔ بھارت کے معاملے میں ایک اور بھی گھن چکر ہے اور وہ یہ کہ اس کی چین کے ساتھ سرد جنگ جاری ہے اور اب اس میں بھی تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ چین نے بھارت کے ساتھ اروناچل پردیش کے علاقے میں چینی حدود میں ایک میٹنگ کی ہے، جس میں چار علاقائی ممالک نے بھی شرکت کی جن میں منگولیا، نیپال، افغانستان اور پاکستان شامل ہیں۔ اس سے واضح ہو رہا ہے کہ اب بھارت کی جانب سے چین کے خلاف مسلسل محاذ آرائیوں کا سدباب کرنے کی چین کی کوششوں میں تیزی اور مضبوطی آ رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ مغربی لابی کی اپنے مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان پر مسلط ایک معاشی جنگ بھی ہے۔ پاکستان تقریباً دو سال سے اس جنگ کا سامنا کر رہا ہے۔ ''روزنامہ دنیا‘‘ کے انہی صفحا ت میں متعدد بار گزارش کی جا چکی ہے کہ پاکستان پر جو دو بڑے دبائو ہیں، وہ اسرائیل کو تسلیم کرنا اور سی پیک کے منصوبے سے پیچھے ہٹنا ہیں۔ اب تو وہ سٹیج آ ہی چکی تھی اور محسوس ہوتا تھا کہ عرب ریاستوں کے باضابطہ تعلقات کے بعد پاکستان جلد ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر لے گا لیکن اب چین اور روس کے فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونے کے بعد جنوبی ایشیا کے دو بڑوں کے معاملات‘ بالخصوص بھارت سے متعلق‘ از سر نو مرتب ہوتے نظر آتے ہیں اور بھارت کی حالت اور حالات‘ دونوں ہی جلد بگڑتے نظر آتے ہیں۔
کیا ہو چکا اور کیا ہو سکتا ہے؟
ابھی تک جو تصویر واضح ہوئی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کسی نہ کسی طور پچھلے قدموں پر چلا گیا ہے۔ اسرائیل کو ان حالات میں سب سے زیادہ نقصان نفسیاتی طور پر ہوا ہے۔ اس کا ناقابلِ تسخیر ہونے کا ایک بھرم کرچی کرچی ہو کر رہ گیا ہے۔ اسی طرح اس کو فلسطین کے عوام کے سامنے بھی ایک سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسرائیل جوابی حملے کر کے دہشت گردی اور جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے اور کھسیانی بلی کی طرح اب نہتے فلسطینیوں پر شدید حملے کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے طے کردہ اصولوں کے تحت اگر جنگ میں بھی شہری آبادی کو نشانہ بنایا جائے تو یہ کھلی دہشت گردی ہے۔ اب یہ بات بھی واضح ہوتی نظر آ رہی ہے کہ اب سب کچھ اسرائیل کی مرضی سے نہیں بلکہ کسی حد تک ایشیائی طاقتوں کی مرضی سے طے ہو گا۔ عالمی حکمرانی اور ورلڈ آرڈر کے اس سارے کھیل میں ایک بڑا اور فیصلہ کن موڑ آ چکا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس موڑ کے بعد ایک چوک بھی آ جائے۔ واضح رہے کہ چوک ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں سے واپسی سمیت کسی بھی جانب مڑا جا سکتا ہے۔