پنجاب حکومت کا چھکا

لاہور سمیت پنجاب کے متعدد علاقے ایک بار پھر بدترین ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہیں، ایسے میں ایک بڑی خبر یہ سامنے آئی ہے کہ پنجاب کی نگران حکومت نے سموگ کے خاتمے کے لیے مصنوعی بارش برسانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نگران وزیراعلیٰ نے جو پریس کانفرنس کی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ حکومت آلودگی کو کم کرنے کے لیے شہر میں ایسے ٹاور بھی لگانا چاہتی ہے جو ہوا کی آلودگی کو کم یعنی ہوا کو صاف کرتے ہیں۔ بات اگر بارش کی کی جائے تو یہ سب سے تیز اور واضح فرق ڈالنے والا عمل ہے۔ اس کا نتیجہ ہم گزشتہ جمعہ کو ہونے والی بارش کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ جمعہ کو صبح سویرے چند گھنٹوں کے لیے بارش ہوئی اور دوپہر کے وقت تک فضا اور ہوا‘ دونوں صاف ہو چکی تھیں۔ اسی طرح ذکر ہوا تھا بھارت کے شہر دہلی کا‘ وہاں سے بھی اسی قسم کی ایک تجویز سامنے آئی تھی لیکن عمل درآمد کی فی الحال کوئی خبر نہیں آئی۔ دہلی کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارے ہاں سموگ میں زیادہ حصہ بھارت کا ہے۔ جب ہوا کا رخ دہلی سے پاکستان‘ یعنی مشرق سے مغرب کی طرف ہوتا ہے تو پنجاب کے علاقوں میں آلودگی میں واضح اضافہ ہوجاتا ہے۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی اس کا حوالہ دیا اور کہا کہ فضائی آلودگی میں 80 فیصد حصہ بھارت کا ہے جبکہ 20 فیصد مقامی آلودگی ہے۔
مصنوعی بارش‘ اصل بارش ہی ہے
مصنوعی بارش کے حوالے سے پہلی بات جس کی وضاحت ضروری ہے‘ وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جب مصنوعی بارش کی بات ہوتی ہے تو اُس بارش کی بات ہوتی ہے جو صرف نام کی مصنوعی ہے۔ یہ وہ مصنوعی بارش نہیں جس میں بادل بھی خود تخلیق کیے جاتے ہیں‘ اس میں صرف ایسے بادل جو برسنے والے نہ ہوں‘ ان کو انسان اپنی کوششوں سے برساتا ہے۔ دوم‘ یہ دہائیوں پرانی ٹیکنالوجی ہے اور بہت سادہ ہے۔ امریکہ جب 1960ء کی دہائی میں ویتنام میں جنگ لڑ رہاتھا تو وہ اپنی دشمن فوج کے علاقوں پر اس قسم کی ٹیکنالوجی کی مدد سے بارش برسایا کرتا تھا تاکہ مخالفین کو نقل و حرکت میں مشکل پیش آئے۔ اس کو ''آپریشن پوپائے‘‘ (Operation Popeye) کا نام دیا گیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ مصنوعی بارش برسانے کے طریقوں میں جدت آچکی ہے جس میں ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ اب ایک ڈرون کی مدد سے بادلوں میں نیگٹو چارج پیدا کر کے بھی انہیں برسنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اونچے کھمبوں اور ٹاورز کے ذریعے نیگٹو چارج ہوا میں چھوڑ کر بھی یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ تاہم سب سے آسان طریقہ اب بھی نمک والا ہے۔ اس میں چھوٹے جہاز سے بادلوں کے اوپر جایا جاتا ہے اور ان پر نمک کا چھڑکائو کیا جاتا ہے۔ نمک کے ذرات بادلوں میں موجود نمی کو یکجا کر دیتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے پانی کے قطرے آپس میں مل کر بڑے ہوجاتے ہیں اور یوں بادل برسنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کام میں سہولت اور آسانی اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب بادلوں کی گہرائی زیادہ ہو۔ پہلے سے موجود بادلوں کو برسانے میں جہاں کافی آسانی پیدا ہوتی ہے‘ وہیں اس پر خرچہ بھی کم آتا ہے۔
ویسے تو یہ ٹیکنالوجی اب اس قدر جدید ہو چکی ہے کہ بادل مصنوعی طور پر فیکٹریوں میں بھی پیدا کرسکتے ہیں اور انہیں اپنی مرضی کی جگہ پر برسا سکتے ہیں لیکن اس میں خرچہ زیادہ آتا ہے۔ اس کام کے لیے خشک برف کو پائوڈر کی شکل میں تبدیل کرکے اس کا سپرے بھی کر سکتے ہیں۔ اس برف کا درجہ حرارت چونکہ منفی 80 ڈگری ہوتا ہے‘ لہٰذا یہ ہوا کو ٹھنڈا کرنے کا عمل تیز کر دیتی ہے۔ یوں کہہ لیں کہ ایک گرم علاقے یا پھر جہاں سرے سے بادل ہی موجود نہ ہوں‘ وہاں بھی خشک برف بادل بنا سکتی اور پھر ان کو برسنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
پاکستان میں چونکہ بادل بنتے رہتے ہیں اس لیے بارش برسانے کے لیے صرف نمک کا چھڑکائو ہی کافی ہو گا۔ اس مہینے کے آخری دنوں میں بادل آئیں گے جبکہ بارش کے برسنے کا امکان بھی بیس سے پچیس فیصد تک ہو گا۔ یہ بادل دو سے تین دن تک رہنے کا امکان ہے۔ واضح رہے کہ یہ صرف لاہور شہر کی بات ہورہی ہے۔ لہٰذا ان بادلوں سے آسانی سے دو دن تک بارش برسائی جا سکتی ہے۔ اگر اس عمل میں خشک برف کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس بارش کا دورانیہ اور علاقہ‘ دونوں بڑھائے جا سکتے ہیں۔ اس بارش سے نہ صرف آلودگی نیچے بیٹھ جائے گی بلکہ جو پانی زمین پر برسے گا وہ زمین میں جذب ہو کر زیر زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھنے کے کام آئے گا۔
اس بات کو ایک اور طریقے سے سمجھتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں حکومت نے ایک پہاڑی علاقے میں ایک ڈیم بنا رکھا ہے، اس ڈیم کو وہ مصنوعی بارش کی مدد سے بھر لیتے ہیں اور پھر اسی پانی کو پینے کے لیے استعمال میں لاتے ہیں۔ اس سے پہلے وہاں سمندری پانی کو صاف کر کے استعمال کیا جاتا تھا مگر یہ طریقہ مصنوعی بارش کی نسبت مہنگا پڑتا ہے۔ اس لیے اب وہاں مصنوعی بارش برسا کر اپنا کام چلایا جاتا ہے۔ سال میں تقریباً ایک سو بیس دن میں لگ بھگ سو ملی میٹر بارش برسائی جاتی ہے اور پانی کی ضروریات کو پورا کر لیا جاتا ہے۔ اب متحدہ عرب امارات نے اسی بارش سے حاصل کردہ پانی کی مدد سے جدید طریقہ آبپاشی کی مدد سے گندم بھی اگانا شروع کر دی ہے، جس کی خبریں آپ یقینا سن اور پڑھ چکے ہوں گے۔ اس ضمن میں دوسرا بڑا ملک چین ہے جس نے اپنے ہاں ایک ایسا سسٹم نصب کر لیا ہے جس سے وہ موسمی صورتحال کو کنٹرول کر سکے گا۔ چین کے حوالے سے بتاتے چلیں کہ اس کا ایک بڑا دریا ''ینگ سی کیانگ‘‘ پانی کی کمی کی وجہ سے خشک ہونا شروع ہو چکا تھا‘ اس کے بہائو کو برقرار رکھنے کے لیے چین مسلسل مصنوعی بارش سے مدد لیتا ہے۔ چین کی اندر مصنوعی بارش کے تقریباً سبھی طریقوں سے مدد لی جاتی ہے جس سے بجا طور پر ان کاموں میں اس کی مہارت سب سے زیادہ ہو چکی ہے۔
چین پاکستان سے تعاون کر سکتا ہے
نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنی پریس کانفرنس میں چین کا نام بھی لیا کہ اس ضمن میں چین سے مدد لی جا سکتی ہے۔یہ درست ہے کہ پاکستان کی فکر پاکستان کے بعد چین والوں کو رہتی ہے۔ چین پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں یہ بارش برسانے میں مدد کر سکتا ہے۔ چین سے جہاز آئیں یا کوئی دوسرا میٹریل‘ ایک پڑوسی ہونے کی وجہ سے لاگت اور وقت‘ دونوں ہی کم لگیں گے۔ اصل بات ترجیح کی ہے اور اب چونکہ حکومت نے اعلان کر دیا ہے‘ دیکھیں کہ آگے کیا ہوتا ہے‘ کب ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہے۔ پاکستان اگر یہ بارش اپنے طور پر بھی کرنا چاہے تو زیادہ مشکل اس لیے نہیں ہے کہ ایک تو یہ کام آسان ہے‘ دوسرا پاکستان میں اس سے قبل یہ تجربہ ہو چکا ہے جو کامیاب رہا تھا َ۔ حکومت اپنے ایک جہاز کو گردش میں لائے‘ جو والٹن ایئرپورٹ پر کھڑا ہے‘ تو بھی یہ کام ہو سکتا ہے۔ اس جہاز کے ساتھ ایک بڑی ٹینکی ہو گی جس میں نمک اوپر لے جایا جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ جہاز ٹڈی دَل کے خاتمے کے لیے ادویات چھڑکنے کا کام کر چکا ہے۔ اگر ماہرین کی بات کی جائے تو تاحال تین یونیورسٹیوں کے پروفیسرصاحبان کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ مزید تعاون کے لیے سپارکو، محکمۂ موسمیات اور ایئر فورس سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اس کام کے لیے محض ایک ایسے چھوٹے جہاز کی ضرورت ہے جو دو سو سے تین سو کلو کا بوجھ اٹھا سکتا ہو۔ اس کام میں متحدہ عرب امارات بھی کافی مدد کر سکتا ہے۔ سب سے اہم بات اس کام کو جلد از جلد کرنے اور جاری رکھنے کی ہے۔ اس طریقے سے برسائی گئی بارشوں سے کی وجہ سے نہ صرف آلودگی بلکہ ڈینگی جیسے موذی مرض سے بھی جان چھوٹ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ سانس، گلے اور چھاتی کے امراض سے بھی نجات مل سکتی ہے۔ یہ کام اعلیٰ سطحی دلچسپی ہی سے پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔ پنجاب کی نگران حکومت کو اس کی مسلسل نگرانی اور تواتر سے رپورٹ حاصل کرنا ہو گی۔ امید ہے نگران وزیراعلیٰ اب اس کام کو پورا کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں