جس مثال کے تناظر میں سب لوگ بات آسانی سے سمجھ لیتے ہیں‘ کرکٹ ان میں سے ایک ہے۔ کون سے کھلاڑی کی بیٹنگ ایوریج کیا ہے، کس نے کس کھلاڑی کا سنچریوں کا ریکارڈ توڑا ہے‘ ہمارے ہاں عام لوگ بھی یہ باتیں جانتے ہیں۔ ایک بار کرکٹ پر بات شروع ہو تو پھر اس کے بعد میڈیا میں بھی اسی سے متعلق خبروں کا ایک سلسلہ چل نکلتا ہے۔ مثال کے طور پر جس کا ریکارڈ ٹوٹا‘ اس نے اس موقع پر کیا کہا‘ یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے کے تاثرات کیا تھے اور اس موقع کی تصاویر‘ وغیرہ وغیرہ۔ بھارت میں منعقد ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کی بات کریں تو نہ صرف پورے ٹورنامنٹ میں ناقابلِ شکست رہنے والا بھارت فائنل میچ ہار گیا بلکہ اب مودی صاحب کا الیکشن بھی خطرے میں نظر آرہا ہے۔ بھارت کرکٹ کی عالمی کونسل کا سب سے اہم رکن ہے اور اپنی طاقت اور پیسوں کے بل بوتے پر اس کے فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف کرکٹ پر لگنے والی شرطوں یعنی جوئے کا سب سے بڑا مرکز بھی بھارت ہی ہے۔ اگر جوئے کی بات کی جائے تو بھارتی ٹیم ورلڈ کپ شروع ہونے سے پہلے اور اس کے دوران بھی ہاٹ فیورٹ قرار دی جا رہی تھی بلکہ کہا جا رہا تھا کہ یہ کپ تو بھارت ہی جیتے گا۔ اس بات کے یقینی انداز میں کرنے کا اس بات سے بھی پتا لگایا جا سکتا ہے کہ یہ تک سوچ لیا گیا تھا کہ بھارت کی ٹیم نے فائنل جیتنے کے بعد کس طرح جشن منانا ہے‘ میڈل اور کپ کس طرح سے وصول کرنا ہے، اور اس سب کی باقاعدہ ریہرسل بھی کی گئی تھی۔ آپ اس کی وِڈیو سوشل میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں۔
بھارتی عوام دو طرح سے ہار گئے
کرکٹ پر جوئے کا بھارت میں کتنا عمل دخل ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس ریہرسل کی وِڈیو بھارتی ٹیم نے جاری کی‘ اس وڈیو میں کھلاڑیوں نے جو شرٹ پہن رکھی ہیں‘ اس پر ایک ایسی ویب سائٹ ؍ موبائل ایپ کا اشتہار بھی موجود ہے جو کرکٹ پہ جوا لگاتی ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ آپ اپنی پسند کے گیارہ کھلاڑی منتخب کرتے ہیں اور اسی حساب سے ان پر رقم لگا دیتے ہیں۔ اگر آپ کے منتخب کردہ کھلاڑی اچھا پرفارم کر گئے تو اسی حساب سے آپ کو رقم ملے گی، لیکن اگر آپ کے رقم لگائے گئے کھلاڑی زیادہ رنز نہ کرسکیں اور آپ کے پسند کردہ کھلاڑی وکٹیں بھی حاصل نہ کر سکیں تو آپ کی رقم ڈوب جائے گی۔ چونکہ بھارت کی ٹیم ہار گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے بھارت کے کھلاڑیوں کو چنا اور ان پر رقم لگائی وہ بھی ہار گئے۔ فائنل میچ میں بھارت کے بائولرز صرف چار ہی وکٹیں حاصل کر سکے، لہٰذا جن لوگوں نے بھارت کے بائولروں پر رقم لگائی تھی‘ ان کی ساری رقم ڈوب گئی۔ اسی طرح بھارت کی ٹیم صر ف 240 سکورز بنا سکی۔ اس لیے جن لوگوں نے رقم بھارتی بیٹنگ پر لگائی تھی، وہ بھی ڈوب گئی۔ البتہ ایک بات ہے کہ جن کمپنیوں نے یہ کھیل کھیلا‘ وہ ضرور جیت گئیں۔ یہ سب بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف بھارت کی کرکٹ ٹیم ہی فائنل نہیں ہاری بلکہ بھارت کے وہ تمام لوگ بھی‘ جنہوں نے بھارت کی ٹیم پر رقم لگائی تھی‘ ہار گئے ہیں۔ یہ بات تو اب واضح ہو چکی ہے کہ بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور یہ جوئے کا گڑھ بھی سمجھا جاتا ہے، لہٰذا رقم لگانے والوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ بھارت ہی سے ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس شکست کے بعد سب سے زیادہ مشکل اور سب سے زیادہ عوام کے غصے کا سامنا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ وہ اس فائنل میچ کے مہمانِ خصوصی تھے۔ چونکہ بھارت میں علم نجوم اور شبھ دن اور گھڑی کا بہت خیال رکھا جاتا ہے لہٰذا بڑی تعداد میں نجومی اس ہار کو بھارتی وزیر اعظم کی نحوست کا سبب قرار دے رہے ہیں۔ مودی صاحب اس لیے مزید مشکل میں آ گئے ہیں کہ انہوں نے ورلڈکپ آسٹریلوی کپتان کے حوالے کرتے وقت ایسے رویے کا مظاہرہ کیا جس سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ بھی رنجیدہ اور شرمندہ ہیں۔ ٹورنامنٹ کی اختتامی تقریب میں آسٹریلوی کپتان ٹرافی تھامنے کے بعد وزیر اعظم مودی کی جانب بڑھے لیکن وہ یہ سب کچھ نظر انداز کرتے ہوئے سٹیج سے نیچے اتر گئے۔ شاید وہ اپنے عوام کے مزید غصے سے بچنا چاہتے تھے کہ اگر وہ رسماً ہنس کر آسٹریلوی کپتان سے کچھ بات چیت کر لیتے تو اس سے ان کے لیے مزید مشکلات پیدا ہو جاتیں۔
مودی صاحب کا الیکشن اور جیت
بھارت کی نریندر مودی حکومت اپنے موجودہ دورِ اقتدار میں عوامی فلاح کا کوئی ایسا بڑا کام نہیں کرسکی کہ جس کو اگلے الیکشن کا ماٹو بنا سکے۔ بہت حد تک امید اس کرکٹ ورلڈ کپ سے تھی کیونکہ بھارت کے اندر یہ کھیل ایک جنون بلکہ مذہب کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت کے فلمی ستارے بھی شہرت کے حوالے سے کرکٹ کے کھلاڑیوں سے کہیں پیچھے ہیں۔ بے شمار فلمی ستارے ایسے بڑے میچز میں ایسی خاص اور مہنگی نشستوں پر بیٹھتے ہیں کہ ان کی تصویر نمایاں نظر آئے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک ارب سے زیادہ لوگ جو یہ میچ دیکھ رہے ہوتے ہیں‘ وہ ان فلمی ستاروں کو بھی دیکھیں جس سے ان کی شہرت میں مزید اضافہ ہو گا۔ دوسری جانب آسٹریلیا کی بیشتر ٹیم‘ جو ورلڈ کپ کے بعد بھی ایک ٹی ٹونٹی سیریز کھیلنے کے لیے بھارت ہی میں موجود ہے‘ کو سخت مشکل پیش آ رہی ہے کیونکہ اس کو متعصب رویے اور دھمکی آمیز پیغامات کا سامنا ہے۔ آسٹریلوی کھلاڑیوں نے اس صورتحال سے اپنے ملک کے کرکٹ بورڈ کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔ اس موقع پر بھارت کے سابق سپنر ہربھجن سنگھ نے بھارتی شائقین کے نامناسب رویے کی مذمت کی ہے۔ بھارت اور آسٹریلیا کی سیریز کا پہلا میچ گزشتہ شب کھیلا گیا۔ اس سیریز میں کرائوڈ کے رویے اور ان کی شرکت سے اندازہ ہو جائے گا کہ بھارتی عوام اس میں کتنی دلچسپی لیں گے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت یہ سیریز جیت کر اپنے زخم بھرنے کی کوشش کرے گا مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس سے بھارتی عوام کا غصہ کم ہو سکے گا یانہیں۔ اس سیریز میں پانچ ٹی ٹونٹی میچز کھیلے جائیں گے۔ اب اس سیریز میں بھارتی ٹیم کو فیورٹ قرار نہیں دیا جا رہا‘ دیکھئے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جوئے کے نقصان کو اس سیریز میں پورا کیا جائے اور بھارٹی ٹیم کی ساکھ کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کی ساکھ بھی کچھ بحال ہو سکے ۔
فلسطین کی آواز بلند ہو گئی
فائنل میچ میں ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب افراد سٹیڈیم میں موجود تھے جبکہ ایک ارب سے زیادہ لوگ پوری دنیا میں اس میچ کو ٹی وی پر براہِ راست دیکھ رہے تھے۔ ان سب نے ایک بہت ہی معنی خیز واقعہ ضرور دیکھا ہو گا۔ ایک نوجوان‘ جس نے فلسطین کے حمایتی نعروں والی شرٹ پہنی ہوئی تھی‘ تمام سکیورٹی کو مات دیتے ہوئے میدان میں داخل ہو گیا۔ اس وقت بھارت کے سب سے بڑے کرکٹ سٹار ویرات کوہلی بیٹنگ کر رہے تھے‘ اس نوجوان نے میدان میں جا کر ویرات کوہلی کے شانے پر ہاتھ رکھا اور وکٹری کا نشان بنایا۔ اسی دوران سکیورٹی والے پہنچ گئے اور انہوں نے اس نوجوان کو قابو کر لیا۔ اس منظر نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا کیونکہ بھارت واضح طور پر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور اسی کے موقف کا حامی ہے۔ اس طرح بھارت کو اپنے ہوم گرائونڈ پر ایک سفارتی دھچکا بھی لگ گیا۔ اس نوجوان کی جرأت اور بہادری سے آبادی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے ملک میں فلسطین کے حق میں آواز بلند ہو گئی۔ اس واقعے نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی۔ فلسطین کا ایشو‘ جو اس وقت قدرے پس منظر میں جا چکا ہے‘ ایک دفعہ پھر پوری شدت کے ساتھ ابھر کرسامنے آیا۔ یہ واضح رہے کہ بھارت کا میڈیا فلسطین کے حریت پسندوں اور مزاحمت کاروں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے مگر بھارت کی یہ ساری محنت اکارت گئی اور ورلڈ کپ آسٹریلیا لے گیا جبکہ اس سارے میدان کو‘ جو ورلڈکپ فائنل کیلئے سجا تھا‘ یہ نوجوان ایک فاتح کی طرح اپنے نام کر گیا۔ اس لڑکے کا نام کیا تھا‘ وہ کیا کرتا ہے‘ اس کا تعلق کہاں سے ہے‘ اس پر کسی کی نظر نہیں لیکن اس کی جرأت اور ہمت پر ہر کوئی فدا ہے۔