بات چل رہی ہے جدید دور کی جدید مشکلات کی‘ گزشتہ کالم میں نتیجہ نکالا تھا کہ پہلے مشکل یہ تھی کہ لوگ اپنی فیملی کے لیے وقت نہیں نکال پاتے تھے، لیکن اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ خاندان تو دور‘ اب انسان اپنے لیے بھی وقت نہیں نکال پاتا۔ اس امر کی مزید وضاحت اس طرح کی گئی تھی کہ اب لوگ اپنی نیند کے آٹھ گھنٹے بھی پورے نہیں کر پا رہے، جس کی ایک بڑی وجہ سکرین ٹائم یعنی موبائل سے جڑے رہنا ہے۔ بنیادی مدعا یہی ہے کہ لوگ وقت پر بستر پر تو لیٹ جاتے ہیں لیکن اپنے موبائل پر غیر ضروری حتیٰ کہ بے کار اور نقصان دہ مواد کو دیکھتے رہتے ہیں، اس طرح اپنے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی صحت کو بھی خراب کر لیتے ہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اندھیرے میں سکرین‘ وہ ٹی وی کی ہو یا موبائل کی‘ کی طرف دیکھنا طبی اعتبار سے نہایت نقصان دہ ہے۔ خاص طور پر موبائل کی سکرین جو ہمارے بہت نزدیک ہوتی ہے‘ اس کی شعاعیں آنکھوں کے لیے انتہائی خطرناک ہوتی ہیں اور ان کا منفی اثر آنکھوں کے ساتھ ساتھ اعصاب پر بھی پڑتا ہے۔
جدید جنگیں ہتھیاروں سے نہیں
آلات سے لڑی جاتی ہیں
اچانک جنگ کا ذکر اس لیے آ گیا کہ جنگیں اب صرف حکومتیں یا افواج ہی نہیں لڑتیں، انفرادی سطح پر بھی جنگی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ اس میں کسی بھی شخص کو کسی جھگڑے، دشمنی یا پھر آزمائش کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس طرح کی کسی بھی صورتِ حال میں کوئی بھی شخص ایک جنگی کیفیت کی طرح دن اور رات کے فرق کو مٹا کر، کھانے پینے کے اوقات سے دور ہو کر، ہر وقت اپنے مشن پر گامزن رہتا ہے۔ اس دوران اس کی صحت خاص طور پر نقصان اٹھاتی ہے، جس میں ذہنی صحت زیادہ نشانے پر ہوتی ہے۔ اب یہ سوچیں کہ یہ جنگی کیفیت اگر طرزِ زندگی کی صورت اختیار کر لے یعنی مستقل ہو جائے تو کیا ہو گا؟ یعنی انسان اپنی زندگی ایسی طرز پر گزارے کہ یوں لگے کہ وہ مسلسل حالتِ جنگ میں ہے‘ تو کیا ہو گا؟ ظاہری بات ہے کہ اس سے جسمانی اور دماغی‘ ہر دو طرح کی صحت متاثر ہو گی۔ اس کو اگر سادہ لفظوں میں بیان کریں تو پتا چلتا ہے کہ ایک صبح جب آدمی اٹھتا ہے تو اس کے پاس جو کام اس نے اس دن کرنے ہیں‘ اس کی ایک فہرست ہے۔ کسی ہنگامی کیفیت میں صبح کا ناشتہ یا مناسب طریقے سے ناشتہ کرنا نظر انداز ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مشاہدات یہ بھی بتاتے ہیں کہ جسے دن بھر میں کافی کام کرنا ہوں یعنی کاموں کی طویل فہرست ہو‘ وہ رات کو مناسب طریقے سے نیند بھی پوری نہیں کر پاتا۔ نیند پوری نہ کرنے کے مضمرات ڈاکٹر یہ بتاتے ہیں کہ سوتے ہوئے بھی انسان کے دماغ پر کام کا پریشر اثر کرتا رہتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ شخص خواب بھی اسی قسم کے دیکھتا ہو۔ مختصراً یہ کہ جب مذکورہ شخص جاگتا ہے تو اس کے جسم میں تھکاوٹ کے اثرات باقی ہوتے ہیں اور وہ پوری طرح تازہ دم نہیں ہوتا۔ ایک بات اور ہے‘ جس کا تذکرہ بہت زیادہ ہوتا ہے‘ وہ زیادہ سوچنا ہے جس کو اوور تھنکنگ (Over Thinking) کہا جاتا ہے۔ جب ایک بندے کے کرنے کے کام بہت زیادہ ہوں‘ اور ایک ہی وقت میں دو یا اس سے بھی زیادہ کام کرنے کی کوشش کی جائے تو اس نتیجے میں دماغ بہت زیادہ جگہوں پر الجھ جاتا ہے۔ جس طرح پیسوں کی فضول خرچی ہوتی ہے‘ عین اسی طرح دماغ کی بھی فضول خرچی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں دماغی صحت کا خراب ہونا ایک لازمی بات ہے۔
بات ہو رہی ہے جنگوں میں استعمال ہونے والے آلات کی‘ تو تھوڑا سا غورکرنے سے ہمیں پتا چل جائے گا کہ ہم بھی اپنے آلات کے ہاتھوں خود کو تباہ کر رہے ہیں۔ بیشتر افراد موبائل میں موجود وَٹس ایپ، فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا اپیس اور ویب سائٹس کے محض عادی ہی نہیں ہو چکے بلکہ ایک نشے کی طرح ان کی لت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اس طرزِ زندگی کو سماجی اور نفسیاتی ماہرین Addictive رویے کا نام دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ جانتے ہوئے کوئی کام کریں یا اس چیز کو استعمال کریں جس سے آپ کو نقصان پہنچتا ہو۔ اس کی سادہ ترین مثال سگریٹ نوشی ہے، اس سے آگے بڑھیں تو منشیات اور دیگر نشہ آور اشیا کی مثال موجود ہے۔ نشہ کرنے والوں کو پتا ہوتا ہے کہ اس سے ان کی صحت کو نقصان پہنچے گا لیکن پھر بھی وہ ان اشیا کو استعمال کرتے ہیں۔ بات موبائل کی کرتے ہیں‘ جو ایک نشے کی لت کی طرح لوگوں کو لاحق ہو چکا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لوگ موٹر سائیکل اور گاڑی چلاتے ہوئے بھی موبائل سکرین سے نظریں ہٹانے کو تیار نہیں ہوتے۔ ڈرائیونگ کے دوران بھی موبائل کا استعمال کیا جا رہا ہوتا ہے۔ موٹر سائیکل کی مثال اس لیے دی گئی کہ اس کو چلاتے ہوئے غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ یہ ایسی سواری ہے جس میں سوار کو پہلے نقصان پہنچتا ہے اور سواری یعنی موٹر سائیکل کو بعد میں، لیکن لوگ اس کے باوجود دورانِ سفر موبائل استعمال کرتے عام دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کسی دفتر، بازار یا مارکیٹ میں چلے جائیں‘ دکان پر بیٹھے لوگ بھی موبائل کے استعمال میں مصروف ملیں گے۔
قومی سطح کا مسئلہ
حقیقت یہ ہے کہ اب موبائل فون کا منفی استعمال اس قدر گمبھیر مسئلہ بن چکا ہے کہ دنیا میں اس کے استعمال میں کمی لانے کے لیے مختلف منصوبوں پر غور ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے سخت حکومتی کنٹرول والے ممالک جیسے چین اور خلیجی ممالک‘ کو قدرے آسانی اس لیے پیش آ رہی ہے کہ ان کے ہاں میڈیا کے تمام ذرائع پر حکومتی کنٹرول ہے‘ اسی وجہ سے بیشتر سوشل میڈیا ذرائع تک لوگوں کی رسائی نہیں ہے۔ لیکن مغربی ممالک آزادی اور موبائل کے استعمال پر پابندی لگانے میں مشکلات کا سامنا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ یہاں حکومتیں کریں بھی تو کیا‘ اگر انٹرنیٹ بند کریں تو صرف صارفین ہی نہیں‘ بڑے بڑے کاروباری گروپ اور کمپنیاں بھی احتجاج کرتی ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ایک تجویز یہ ہے کہ دفاتر اور تعلیمی اداروں میں موبائل کے استعمال پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔ لیکن ''پابندی‘‘ ایک ایسا لفظ ہے کہ مغرب کے جمہوری ممالک اس کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ وجہ بہت سادہ ہے کہ یہ چیز شخصی آزادی کے منافی ہے مگر اس شخصی آزادی کے سبب لوگوں کی صحت اور وقت‘ دونوں برباد ہو رہے ہیں۔ ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک اور وہ ممالک جہاں معاشی حالات زیادہ اچھے نہیں ہیں اور اسی سبب لوگ اپنی حکومتوں سے ناخوش ہیں‘ ایسے ممالک میں موبائل کا نشہ حکومتوں کے لیے ایک نعمت ثابت ہو رہا ہے۔ البتہ اگر سوشل میڈیا پر کوئی مہم حکومت کے خلاف چل پڑے تو پھر یہ حکومتیں سوشل میڈیا کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتی ہیں۔ اور کچھ نہ بھی ہو تو مخصوس قسم کے پیجز اور سوشل گروپس پر کریک ڈائون ضرور شروع ہو جاتا ہے۔ ایک کریک ڈائون ان لوگوں کے خلاف بھی کیا جاتا ہے جو حکومت مخالف ٹرینڈز چلا رہے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو گرفتار کرکے حوالات میں رکھا جاتا ہے، ان پر مقدمات قائم کیے جاتے ہیں، تھانوں، کچہریوں میں گھسیٹا جاتا ہے اور بعد ازاں ''راہِ راست‘‘ پر آنے کی یقین دہانی کے بعد ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ مشق تیسری دنیا کے لگ بھگ سبھی ممالک میں جاری ہے۔ پاکستان میں اس عمل کو عرفِ عام میں ''سافٹ ویئر اَپ ڈیٹ ہونا‘‘ کہا جاتا ہے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ لوگ جو سوشل میڈیا پر نفرت انگیز اور فحش مواد اَپ لوڈ کرتے ہیں‘ ان کے گرد شکنجہ کسا جائے اور سب سے پہلے ان کا سافٹ ویئر اَپ ڈیٹ کیا جائے۔
اس ساری بحث کا جو بنیادی مدعا ہے‘ وہ یہ ہے کہ ہم سب کو اپنے طور پر جدید دور کی جدید سہولتوں کو سہولت کی حد تک ہی رکھنا چاہیے، یعنی موبائل یا دیگر چیزوں کو نشے اور لت کی سطح پر پہنچنے سے پہلے ہی کنٹرول کیا جائے۔ یاد رہے کہ اگر آپ اس پر خود عمل نہیں کریں گے تو اپنے بچوں یا دیگر اہلِ خانہ کو بھی نہیں روک سکیں گے۔ اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ یہ کوئی اتنی اہم بات نہیں تو آپ یقینا غلطی کر رہے ہیں۔ اس سے جسمانی صحت سے کہیں زیادہ آپ اپنی ذہنی صحت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ دنیا میں ذہنی امراض کی بڑھتی شرح میں موبائل کا منفی استعمال ایک وبا کا درجہ رکھتا ہے اور اس وبا سے نمٹنے میں اپنی مدد آپ خود ہی کر سکتے ہیں۔