فیمنزم ان مختلف سماجی نظریات، سیاسی تحاریک اور اخلاقی فلسفوں سے حاصل ہونے والے تجربات و مشاہدات کا مجموعہ ہے جو انسانی معاشرے کے ارتقا سے خواتین نے اخذ کیے۔ انسانی تہذیب و ثقافتی اقدار کی ترقی میں مرد و زن برابر کے شریک کار ہیں لیکن تاریخ انسانی کے اوراق پر نظر ڈالیں تو ہمیں خواتین کا Contribution کہیں نظر نہیں آتا، کیونکہ ان کے کام اور Contribution کو غیر اہم قرار دے کر تاریخ کے پنوں میں جگہ ہی نہیں دی گئی۔ مجموعی طور پر خواتین نے بنیادی انسانی حقوق کے حصول اور معاشرے میں اپنے کردار و شراکت کو نظر انداز کیے جانے کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ سولہویں صدی سے انیسویں صدی کے نصف اول تک برِصغیر پاک و ہند کی خواتین ناخواندگی، پردے کے نظام اور فرسودہ معاشرتی رسوم کی وجہ سے اجتماعی طور پر زندگی کے تمام شعبوں میں کوئی خاص کردار ادا نہ کر سکیں۔ کسی بھی معاشرے کی بہتری اور ترقی کیلئے خواتین کی تعلیم ہمیشہ ایک اہم اور حساس معاملہ رہا ہے۔ معاشرتی ترقی کیلئے یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ خواتین کو معاشرے کا فعال اور متحرک حصہ بنایا جائے تاکہ معاشی اور معاشرتی ترقی کے تمام عوامل اپنی پوری قوت کے ساتھ تعمیرِ معاشرت میں شامل کیے جا سکیں۔ آج جو ممالک ترقی یافتہ اور مہذب سمجھے جاتے ہیں ان کے عروج کی اہم وجہ تعلیم نسواں ہے۔ اس اہم ضرورت کو انیسویں صدی تک برِ صغیر پاک و ہند میں نظرانداز کیا گیا۔ فرسودہ رسومات کی وجہ سے معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا رہا۔ اپریل 1850ء سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت نے عورتوں کی تعلیم کی طرف توجہ دی اور تعلیمی اداروں کی سرپرستی شروع کی۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کی ناکامی نے نفسیاتی طور پر برِصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں پر بہت برے اثرات مرتب کیے اور وہ برطانوی حکومت کی طرف سے کی جانے والی معاشرتی اصلاحات سے بالکل الگ تھلگ ہوگئے‘ جس کا انہیں من حیث القوم سخت نقصان اٹھانا پڑا۔ برِصغیر کے قدیم تعلیمی نظام میں لڑکیوں کو ایک مخصوص عمر تک مکتب میں تعلیم دی جاتی جبکہ امرا اپنی بچیوں کیلئے گھر پر تعلیم کا انتظام کرتے تھے۔ نوابین اور شاہی خاندانوں میں بچیوں کو ہر قسم کی تعلیم دینے کے ساتھ انہیں گھڑسواری، نشانہ بازی اور تلوار بازی بھی سکھائی جاتی تھی۔
1896ء میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں لڑکیوں کی تعلیم کیلئے قرارداد پیش کی گئی جو قدامت پسند حلقوں کی جانب سے سخت مخالفت کی وجہ سے پاس نہ ہو سکی لیکن ریفارمز گروپ کی مسلسل کوششوں کی بدولت 1903 میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں خواتین نے پہلی بار حصہ لیا‘ اور مدراس سے تعلق رکھنے والی خاتون چاند بیگم نے اس ا جلاس میں مضمون پڑھا۔ اس مضمون میں انھوں نے ریفارمز گروپ کی حمایت کی جو قدامت پسند حلقوں کی مخالفت کے باوجود تعلیم نسواں کیلئے کوشاں تھا۔ یہ ریفارمز گروپ شیخ عبداللہ اور ان کی اہلیہ کی سربراہی میں اپنی منزل (تعلیم نسواں) کے حصول کی خاطر باقاعدہ پیش قدمی میں مصروف عمل رہا۔ 1905ء میں مولانا الطاف حسین حالی کی نظم 'چپ کی داد‘ منظر عام پر آئی۔ اس نظم کے ذریعے مولانا حالی نے یہ واضح پیغام دیا تھا کہ صحیح اور سچا مسلمان عالم و دانشور تعلیم نسواں کے خلاف کبھی نہیں ہو سکتا۔ 1914ء کا سال برِ صغیر کی مسلم خواتین کیلئے اس لئے اہم سال ثابت ہوا کہ اس سال آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی کوششوں سے آل انڈیا مسلم خواتین کانفرنس کا قیام عمل میں آیا‘ جسے برِصغیر پاک و ہند میں عورتوں کی پہلی تنظیم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آہستہ آہستہ اس تحریک کا اثر پورے ملک میں نظر آنے لگا۔ خواتین کی تعلیم کیلئے رضاکارانہ طور پر کیے جانے والے اقدامات نے مسلمان خواتین میں بیداری کی لہر پیدا کی۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 1914ء میں پڑھی لکھی خواتین کی تعداد فی ہزار صرف دو تھی۔ 1921ء میں یہ تعداد دوگنی ہوگئی۔ 1945ء میں 137800 مسلم خواتین خواندہ تھیں‘ جن میں سے 3940 نے جدید اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ خواتین کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی جن کوششوں کا آغاز آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس نے کیا تھا‘ اور ان کی بدولت عورتوں میں جو بیداری پیدا ہوئی‘ اس نے اصلاحات کا حامی ایک گروہ پیدا کر دیا‘ جس نے برِصغیر پاک وہند کی مسلم خواتین میں ایک طبقے کے طور پر ایسا شعور پیدا کیا‘ جیسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ قومی بیداری کی اس لہر نے اصلاح معاشرہ کے ساتھ ساتھ خواتین کی سماجی حیثیت میں تبدیلی پیدا کی‘ جس کی وجہ سے مسلم خواتین نے تعلیمی و ادبی ترقی اور سماجی و سیاسی حقوق کے حصول کیلئے تحریکیں چلائیں‘ جنہوں نے پورے معاشرے کو متاثر کیا اور اصلاحات کا راستہ کھول دیا۔
عالمی سطح پر خواتین کی مساوی حقوق کیلئے جدوجہد کا آغاز 1908ء میں اس وقت ہوا تھا جب نیویارک میں 5000 خواتین نے کام کے اوقات میں کمی، بہتر تنخواہ اور ووٹ کے حق کے لیے مارچ کیا تھا۔ اسی دوران خواتین کے حقوق کی وکیل کلارا زٹیکن (Clara Zetkin) نے خواتین کا بین الاقوامی دن منانے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس تجویز پر پہلی بار 1911ء میں آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اورسوئٹزرلینڈ میں یوم نسواں منایا گیا۔ جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے کہ برِصغیر میں مسلم خواتین کانفرنس کا قیام 1914ء میں عمل میں آیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ برِصغیر کی مسلم خواتین عالمی سطح پر خواتین کی جدوجہد سے نابلد نہیں تھیں۔ 1917ء میں انڈین وومن ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔
1938ء مسلم لیگ کے پٹنہ اجلاس میں قائداعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کا خواتین ونگ قائم کیا۔ قائداعظم نے یہ دلیل بار بار دی کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک آزاد و ترقی یافتہ نہیں ہو سکتی جب تک اس کی خواتین جدوجہد میں برابر کی شریک نہ ہوں۔ اس طرح تحریک آزادی میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ہر محاذ پر موجود تھیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین کی آبادکاری اور نئے ملک کی تعمیر کیلئے محترمہ فاطمہ جناح نے مسلم لیگ کی وومن ونگ کے علاوہ وومن ریلیف کمیٹی تشکیل دی۔ اس ریلیف کمیٹی کی ممبران خواتین نے بڑھ چڑھ کے سماجی کاموں میں حصہ لیا۔ 1949ء میں بیگم رعنا لیاقت علی نے آل پاکستان وومن ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔ اس ایسوسی ایشن کو 1952 میں اکانومی اینڈ سوشل کونسل (ECOSOC) نے کنسلٹیٹو سٹیٹس دیا۔ اپوا تعلیم، صحت، پیشہ ورانہ تربیت اور خواتین کو سماجی و اقتصادی طور پر بااختیار بنانے کے لیے سرگرم رہی۔ تحریک نسواں اب ان مسائل کو منظر عام پر لانے کی سعی کر رہی ہے جن کا پاکستانی خواتین اور معاشرے کے دوسرے کمزور طبقات کو سامنا ہے‘ جیسے صنفی مساوات، خواتین اور خواجہ سرائوں، مذہبی اقلیتوں اور دیگر پسماندہ گروہوں کیلئے تحفظ‘ سیاسی نمائندگی وغیرہ۔ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کے منشور میں خواتین کے حقوق اور معاشرے میں ان کے فعال و متحرک کردار کے لیے شقیں موجود ہیں۔ اسی طرح آئین پاکستان بھی خواتین کو تمام برابری کے حقوق دیتا ہے اور پارلیمنٹ نے خواتین کے تحفظ کیلئے بہت سے قوانین پاس کیے ہیں۔ 2021 کے اعدادوشمار کے مطابق ورک فورس میں خواتین کے شراکت 26 فیصد ہے۔ آج بھی ہمارے ملک میں خواتین کی شرح خواندگی 44.3 فیصد ہے۔ تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے اس لیے حکومت کو اس طرح کے اقدامات کرنے اور incentives دینے ہوں گے کہ لوگ اپنی بچیوں کو حصول علم کے لیے سکولوں میں داخل کروائیں۔ اس طرح مجموعی شر ح خواندگی میں اضافہ ہو گا‘ جو معاشرے میں enlightenment اور ملکی ترقی کا سبب بنے گا۔