نوجوانوں کا عالمی دن

دنیا کی تقریباً 16 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے جبکہ پاکستان ان خوش نصیب ممالک میں سے ایک ہے جہاں 15سے 33 سال کی عمر کے نوجوان کل آبادی کا تقریباً 63 فیصد سے زیادہ ہیں۔ 1999ء سے 12 اگست کو نوجوانوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا بھر کے نوجوانوں کے مسائل کی طرف حکومتوں اور بااختیار اداروں کی توجہ مبذول کرانا ہے تاکہ ان کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔ یہ دن نوجوانوں کو درپیش چیلنجوں اور مسائل کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کا ایک موقع ہے کیونکہ نوجوانوں کو زندگی کے مختلف شعبوں‘ جیسا کہ ملازمت‘ سیاسی شرکت‘ صحت اور دیگر شعبہ جات میں عمر سے متعلقہ رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ عالمی ادارے کی ان تمام کوششوں کے باوجود آج بھی دنیا بھر میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح میں کوئی خاص کمی واقع نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کو غربت سے بچایا جا سکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا کا ہر تیسرا نوجوان غربت کا شکار ہے اور ہر چوتھا روزگار سے محروم ہے۔ عالمی سطح پر کورونا وائرس کی وبائی صورتحال نے نوجوانوں کے مسائل کو مزید پیچیدہ کردیا ہے اور بیروزگاری کی شرح کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ 2030ء کے آخر تک عالمی سطح پر نوجوانوں کی آبادی میں سات فیصد کے تناسب سے اضافے کے ساتھ تقریباً 3.1 ارب تک پہنچنے کا امکان ہے۔ آج کی نوجوان نسل تاریخ کی سب سے بڑی نسل ہے جس میں تین ارب سے زائد نوجوان ہیں جن کی عمر 29سال تک ہے۔ دنیا کے 16فیصد باشندے ہونے کے ناتے ایک صحت مند نوجوان نسل انسانی معاشرے کی بہتری میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے بے مثال صلاحیت رکھتی ہے۔ کیایہ نوجوان اس دنیا کو بہتر بنانے کے لیے تیار ہیں؟ یا ان نوجوانوں کی وسیع تعدادکو صنفی‘ نسلی‘ سماجی اور اقتصادی عدم مساوات جیسے مسائل کا سامنا ہے؟
آج کے نوجوان کل کے لیڈر ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ اگر وہ متحد ہوں گے تو ہی ان کی جانب رویے بدلیں گے۔ ان نوجوانوں میں موجودہ اور مستقبل کی دنیا کو تشکیل دینے کی صلاحیت ہے‘ لیکن اثر کے اس امکان کو اکثر روک دیا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں بہت سے نوجوان غربت‘ وسائل کی کمی اور تعلیم کے مواقع کی کمی سے لڑ رہے ہیں۔ ترقی کا خواب اور دنیا کو بدلنے والی صلاحیتیں بہت سے نوجوانوں کیلئے محدود ہیں۔ غربت جوانی کے خواب چھین لیتی ہے۔ دنیا بھر میں بہت سے نوجوان بنیادی تعلیم سے محروم ہیں جس کی وجہ سے یہ منشیات اور دیگر خطرناک سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ اس مشترکہ انسانی اثاثے کو تباہ ہونے سے بچانے کیلئے نوجوانوں کو ان کی منفرد خداداد صلاحیتوں کے مطابق تربیت اور تعلیمی مواقع فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کسی بھی ملک اور معاشرے کی ترقی اور مستقبل کا دار و مدار اس کے نوجوانوں پر ہوتا ہے؛ تاہم پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد تو موجود ہے مگر عدم توجہ کی وجہ سے یہ ملک و قوم کی خوشحالی کا سبب بننے کے بجائے بذاتِ خود بیروزگاری‘ تعلیم کے مساوی مواقع کی کمی اور مناسب طبی سہولتوں کی عدم فراہمی سمیت متعدد مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اندرون و بیرون ملک ایسے نوجوانوں کو کم ہی مایوس دیکھا گیا ہے جو تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں مگر ہمارے ہاں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت خصوصی تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت سے محروم ہے۔ مالی وسائل میں کمی کے باعث نوجوانوں میں مایوسی اور احساسِ محرومی جنم لینا ایک فطری بات ہے‘ جس میں اضافے سے معاشرے میں بے چینی مزید بڑھ سکتی ہے۔ سماجی مصروفیات کا فقدان‘ سماجی ناانصافی‘ فرسودہ روایات اور نوجوانوں کی جانب معاشرے کا رویہ نوجوانوں میں منفی اور باغیانہ خیالات کو جنم دے سکتا ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد غیر رسمی شعبے کے ذریعے تربیت حاصل کرتی ہے نتیجتاً انہیں مناسب مہارت اور رسمی سند نہیں ملتی۔ نوجوانوں کے اس طبقے کو قومی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں ہنر مند کارکنوں کے طور پر روزگار نہیں ملتا۔ وہ غیر رسمی شعبے کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ان کے حقوق کوکوئی قانونی تحفظ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ مسابقت کی دوڑ میں نوجوانوں کو تیز رفتار اقتصادی‘ سماجی‘ تباہ کن موسمی تبدیلیوں‘ انفرادیت اور شناخت کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ پہلے ہی ملک سٹریٹ کرائمز‘ چوریوں‘ اغوا برائے تاوان‘ دہشت گردی‘ تخریب کاری اور منشیات کے بڑھتے ہوئے مسائل سے دوچار ہے۔ سماجی ناہمواریاں‘ دہشت گردی‘ شدت پسندی‘ امن وامان کی غیر یقینی صورتحال‘ توانائی کا بحران‘ مفت اور معیاری تعلیم کی کمی‘ کیریئرکونسلنگ کا نہ ہونا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ نوجوانوں کی رائے کو اہمیت نہ دیناجیسے عوامل سماجی سطح پر ان کے مسائل کا پیش خیمہ بن رہے ہیں۔
انسانی وسائل کی ترقی بڑے پیمانے پر افراد‘ خاندانوں اور معاشروں کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ نوجوانوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے اور ان کی صلاحیت سے بھرپور استفادہ کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔اگر آج معاشرے میں نوجوانوں کو باہمی طور پر شامل کرنے‘ معیاری تعلیم فراہم کرنے اور مستقبل کے ذرائع معاش کو محفوظ بنانے کیلئے صحیح حکمت عملی اور پالیسیاں وضع نہ کی گئیں تو ہمارے پاس موجود سب سے بڑی افرادی قوت پسماندگی‘ عدم برداشت‘ سماجی برائیوں کا شکار ہونے کے خطرے سے دوچار ہوجائے گی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی معیشت کو بے روزگار نوجوانوں کو ملازمتوں اور کاروباری مہارتوں کے ذریعے جذب کرنے کے قابل بنا کر اپنے اس نوجوان اثاثے کو Demographic Dividend میں بدلا جائے۔ کسی بھی ملک کا مستقبل اس کے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اس لیے معاشی‘ سماجی اور سیاسی میدان میں ترقی کیلئے اپنے نوجوانوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
بین الاقوامی لیبر مارکیٹ میں کامیابی سے داخل ہونے کیلئے نوجوانوں کی تعلیم اور ٹریننگ ضروری ہے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامک (PIDE) کی رپورٹ کے مطابق 66.4 فیصد نوجوان خواتین اور 10.6 فیصد نوجوان مرد نہ تو روزگار سے وابستہ ہیں اور نہ ہی تعلیم یا ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں۔ایسی صورتحال میں معاشی بہتری کس طرح ممکن ہوسکتی ہے؟ ہمیں معیاری تعلیم‘پیشہ ورانہ مہارت کی تربیت کیلئے فوری اقدامات کرکے کام کے معقول مواقع فراہم کر نے اور نوجوانوں کو درپیش دیگرمسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ Demographic Dividend کے معاشی ترقی پر زیادہ مثبت اثرات مرتب ہو سکیں اور ملک سیاسی استحکام اور پائیدار سماجی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ تعلیم اور روزگار کے درمیان حرکیات کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ سرکاری سطح پر ملک کے مختلف حصوں میں مزید فنی تربیتی مراکز قائم کر نے سے ہنر مندافرادی قوت تیا ر کی جا سکے گی جس کے ذریعے بین الاقوامی مارکیٹ سے زیادہ زرمبادلہ کا حصول ممکن ہو سکے گا۔ دورِ حاضر کی تکنیکی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ٹیکنالوجی‘ تعلیم‘ صحت اور آن لائن کاروبار کے میدان میں نوجوانوں کی کاروباری سرگرمیوں پر توجہ دینا ہو گی۔2009ء میں پہلی بارقومی یوتھ پالیسی کا اعلان کیا گیا اور سرکاری سطح پرانٹرن شپ پروگرام‘سٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام شروع ہوئے۔ مختلف ادوار میں حکومتی سطح پر اعلیٰ تعلیم کیلئے سکالر شپ‘لیپ ٹاپ سکیم‘کامیاب جوان پروگرام وغیرہ نوجوانوں کی صلاحیتوں میں اضافے اور ان سے استفادہ کرنے کیلئے کیے گئے چند بہترین اقدامات ہیں لیکن اب بھی نوجوانوں کی فلاح وبہبود کے حوالے سے بہت کام کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں