دنیا کے امن کو آج جس طرح کے خطرات کا سامنا ہے ایسے خطرات شاید ہی تاریخ میں پہلے کبھی لاحق ہوئے ہوں۔ ایک طرف یوکرین‘ افغانستان‘ لبنان‘ شام‘ یمن‘ میانمار میں روہنگیا بحران‘ ایتھوپیا‘ جنوبی سوڈان‘ کانگو‘ صومالیا‘ نائیجیریا میں جاری خانہ جنگی‘ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں ریاستی جبر اور انسانیت سوز مظالم ہورہے ہیں۔ دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی‘ غذائی اجناس کی قلت‘ مہنگائی اور توانائی کا بحران عالمی امن کے لیے چیلنج ہیں۔ تصادم عروج پر ہے لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔ ایسے حالات کا فائدہ دہشت گرد نیٹ ورک اٹھاتے ہیں۔ تنازعات کے پھیلنے کی وجوہات میں علاقائی کشیدگی سے لے کر بدعنوانی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کم ہوتے وسائل شامل ہیں۔ ان تنازعات کی وجہ سے غربت بڑھ رہی ہے۔ یوکرین کا موجودہ بحران اس وقت توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے‘ لیکن عالمی سطح پر ایسے بہت سے تنازعات ہیں جو یکساں حمایت‘ ہمدردی اور توجہ کے متقاضی ہیں۔ 2.3 ارب لوگ اس وقت تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں رہتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ پوری دنیا کی ایک چوتھائی آبادی تنازعات سے متاثر ہورہی ہے۔ خطرناک ترین جوہری ہتھیاروں کے ساتھ بحران تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ افریقہ‘ یورپ‘ مشرقِ وسطیٰ‘ جزیرہ نما کوریا‘ وسطی ایشیا کے خطے فلیش پوائنٹ ہیں۔ انسانیت ہتھیاروں سے کھیل رہی ہے‘ جو خطرے کی علامت ہے۔ ان مسلح تنازعات میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے مقامات میں ایتھوپیا‘ جنوبی سوڈان‘ شام‘ یمن‘ افغانستان شامل ہیں۔ گزشتہ سال تنازعات اور تشدد کی وجہ سے 84 ملین افراد جبری طور پر بے گھر ہوئے اس سال ایک اندازے کے مطابق کم از کم 274 ملین افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہوگی۔
میانمار میں روہنگیا اقلیت کی نسل کشی کی مہم 2017ء میں شروع ہوئی جس میں ہزاروں افراد کو قتل کردیا گیا۔ دیہات جلادیے گئے۔ آج یہ روہنگیا مہاجرین دنیا کے سب سے بڑے اور سب سے گنجان آباد مہاجر کیمپ Kutupalong بنگلہ دیش میں رہتے ہیں۔ ان میں تقریباً نصف بچے ہیں جو انتہائی نامساعد ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یوکرین میں فروری 2022ء میں شروع ہونے والی جنگ کی وجہ سے دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑکر ہمسایہ ممالک میں پناہ لینا پڑی جس سے یورپ میں ایک نئی انسانی ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ روس یوکرین تنازع کی وجہ سے پوری دنیا میں غلے کی قلت اور یورپ میں توانائی کا بحران سر اٹھا رہا ہے۔ ایتھوپیا اور اریٹیریا کے مابین کئی دہائیوں کی لڑائی اندرونی طاقت کی کشمکش اور Tigray کے علاقے میں جاری تباہ کن خانہ جنگی کے سبب ایتھوپیا کے باشندے جنگ کے بعد جنگ کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ جنوبی سوڈان کی خانہ جنگی بھی ایتھوپیا سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ مسلح تنازعات نے ان ممالک کے لوگوں کو غربت اور غذائی قلت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ جنگ بندی اور امن معاہدوں کی متعدد بین الاقوامی حمایت یافتہ کوششوں کے باوجود شہریوں کے خلاف تشدد جاری ہے۔ نائیجیریا کی شدت پسند مسلح تنظیم بوکو حرام کی دہشت گردی کی مہم دنیا کے سب سے شدید انسانی بحرانوں میں سے ایک ہے۔ جہاں خوراک کا عدم تحفظ انتہائی حد تک پہنچ چکا ہے اور کم از کم 50ہزار افراد قحط جیسے حالات کا سامنا کررہے ہیں۔
شام میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے باعث ملک کی تقریباً 60 فیصد آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ شام کی خانہ جنگی میں حکومت‘ باغی افواج‘ مختلف ملکی گروہ‘ بیرونی ممالک اور داعش شامل تھے۔ شام کے تنازع کا آغاز 2011ء میں عرب بہار کے وسیع مظاہروں کے ایک حصے کے طور پر ہوا تھا۔ جو انسانیت سوز مظالم‘ ملک بھر میں تباہی اور لاکھوں شہریوں کی ہلاکتوں کے ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ یمن میں طویل جنگ نے ہزاروں لوگوں کو ہلاک اور 40 لاکھ سے زیادہ کو بے گھر کر دیا ہے۔ ملک میں حکومتی اتحادی افواج اور حوثی باغیوں کے درمیان لڑائی نے یمن‘ جو پہلے ہی عرب دنیا کا غریب ترین ملک تھا‘ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ 16.2 ملین یمنی باشندے غذائی عدم تحفظ کا شکار اور فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ اس جنگ میں بچے سب سے بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی اگست 2021ء کی رپورٹ کے مطابق یمن میں ہر دس منٹ میں ایک بچہ ہلاک ہوتا ہے۔ اسرائیل فلسطین تنازع دنیا کے سب سے زیادہ طویل و خونیں تنازعات میں سے ایک ہے۔ غزہ‘ یروشلم‘ مغربی کنارے میں رہنے والے فلسطینیوں پر اسرائیل نے زندگی تنگ کر دی ہے‘ جبر کا یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے‘ غزہ کی مسلسل ناکہ بندی نے اس علاقے کو ایک ایسی جیل میں بدل دیا ہے جہاں معصوم بچے اور عورتیں بھی قید ہیں‘ مغربی کنارے کو غیر حقیقت پسندانہ طور پر ضم اور مقبوضہ فلسطین کے علاقوں میں یہودی آباد کاری کے ذریعے فلسطینیوں کو بے گھر کیا جارہا ہے۔ بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں خون کی ہولی کھیل رہی ہے۔ تمام تر عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر مودی سرکار کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔ وادی کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع اور مقامی لوگوں کے بنیادی حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔ امن عمل طویل عرصے سے مردہ ہے‘ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک دنیا خاموش تماشائی بنی رہے گی؟
مسلح تنازعات کے ساتھ ہی ماحولیاتی آلودگی کے سبب موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات کا بھی سامنا ہے‘ شدید گرمی کی لہریں‘ تیزی سے پگھلتے گلیشیرز‘ بارشیں‘ سیلاب تباہی پھیلا رہے ہیں وہیں میکسیکو اور تائیوان میں آنے والے 7.5 اور 6.8 شدت کے زلزلے ممکنہ خطرے کا پتا دے رہے ہیں۔ قحط کے اسباب میں قدرتی آفات‘ انتہائی شدید موسم‘ مسلح تنازعات‘ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ‘ متاثرہ لوگوں تک مدد کی رسائی کا فقدان وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ یہ سب عوامل آج واضح طور پر عالمی سطح پر موجود ہیں۔ گھریلو اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں افراطِ زر دنیا بھر میں بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر قیمتیں 2024ء کے آخر تک مزید بڑھنے کا امکان ہے جس سے غذائی عدم تحفظ اور افراطِ زر میں اضافہ ہو گا اور 205.1ملین لوگوں کو غذائی بحران کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔
عالمی منظر نامے سے ملکی منظر نامے کو دیکھیں تو گزشتہ چند مہینوں سے سوات اور خیبر پختونخوا میں ضم کیے جانے والے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی موجودگی کی خبریں اور بم دھماکے مقامی لوگوں کے ساتھ پورے ملک کے عوام کیلئے تشویش کا باعث ہیں۔ ان خبروں کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو ایک بار پھر ملک کا امن خراب ہو سکتا ہے۔ اس امن کے حصول کے لیے ہماری فوج‘ سویلین سکیورٹی اداروں اور عوام نے اَن گنت جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے 3 کروڑ سے زیادہ انسان متاثر ہوئے ہیں۔ سیلابی پانی کی نکاسی نہ ہونے کی وجہ سے وبائی امراض جنم لے رہے ہیں۔ تیس لاکھ سے زائد بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ انسانی المیے کو جنم لینے سے روکنے کیلئے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بے بس انسانوں کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی میں بے پناہ ترقی کے باوجود انسان ابھی تک خود غرضی اور جنگ جیسی برائیوں کو شکست دینے میں ناکام رہا ہے۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں‘ یہ جانتے ہوئے بھی ہر مسئلے کا حل جنگ کے ذریعے تلاش کیا جاتا ہے۔ ہر سال 21 ستمبر کو امن کا عالمی دن منانے کا مقصد ایک ایسی دنیا کی تشکیل کی خواہش ہے جہاں کوئی بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم نہ ہو۔ معاشی و سماجی استحکام‘ تنوع کی قدر‘ انسانی حقوق کا احترام‘ مساوات‘ دوغلی پالیسیوں کا خاتمہ اور جمہوری رویوں کے نمو ہی سے عالمی امن ممکن ہو سکتا ہے۔