رواں سال کے آغاز میں فرانس کے صدر میکرون نے پنشن اصلاحات اور ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کا بل پیش کرکے قوم کو احتجاج پر مجبور کردیا ہے۔ جنوری میں جب اس قانون کا مسودہ سامنے آیا تو حکومت نے کہا کہ 2030ء تک پنشن کے نظام میں تقریباً 13.5بلین یورو کی ضرورت ہوگی‘ اس لیے یہ اصلاحات اشد ضروری ہیں۔ یہ اصلاحات رواں سال کے آخر تک نافذ کردی جائیں گی جبکہ عوام کی اکثریت پنشن قانون سازی اور پارلیمانی ووٹ کے بغیر اسے آگے بڑھانے کے فیصلے کی مخالف ہے۔ میکرون جو اپنی دوسری اور آخری صدارتی مدت میں ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ پنشن کے نظام میں اگر اصلاحات نہ کی گئیں تو یہ ملک کی معیشت کو کمزور کردے گا جبکہ مظاہرین کا کہنا ہے کہ صدر کے یہ اقدام ہمیں بتاتے ہیں کہ زندگی کی توقع طویل ہے لیکن کیا ہمیں اس وقت تک کام کرنا ہے جب تک کہ ہم گر نہ جائیں اور قبرستان تک نہ جائیں۔
فرانس کا موجودہ پنشن نظام دوسری جنگ عظیم کے بعد سے نافذ ہے۔ فرانس میں طویل عرصے سے پنشن اصلاحات ایک متنازع مسئلہ رہی ہیں۔ سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں نے 1995ء میں پنشن قوانین میں اصلاحات کی کوششوں کو روک دیا اور یکے بعد دیگرے حکومتوں کو ان اصلاحات کے خلاف شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو بالآخر 2004ء‘ 2008ء اور 2010ء میں منظور ہوئیں۔ صدر میکرون پر اس لیے بھی شدید نکتہ چینی ہورہی ہے کہ انہوں نے ریاستی محصولات کو برقرار رکھنے کے متبادل ذرائع کے طورپر دولت مندوں پر ٹیکس میں اضافہ نہیں کیا۔ ناقدین پنشن اصلاحات پر تنقیدکرر ہے ہیں کیونکہ مزدوروں اور ان کے والدین پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے اور خصوصاً ان لوگوں پر جو بچوں کی پرورش کے لیے مقررہ وقت سے کئی برس قبل ہی ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں۔ فرانس کے اس پرزور احتجاج میں آٹھ بڑی یونینوں میں ٹرانسپورٹ‘ تعلیم‘ پولیس‘ ایگزیکٹو اور پبلک سیکٹر کے ملازمین بھی شامل ہیں۔
فرانس میں مظاہروں اور احتجاجوں کی تاریخ قدیم ہے۔ 1787ء سے 1799ء تک جاری رہنے والے احتجاج اور مظاہروں کے نتیجے میں ایسا انقلاب آیا جس نے نہ صرف فرانس بلکہ پورے یورپ کو تبدیلی و جدت کی راہ پر گامزن کردیا۔ انقلابِ فرانس نے زندگی کے ہر شعبہ پر گہرے اثرات ثبت کیے۔ جنوری 2023ء سے ایک بار پھر فرانسیسی شہری اپنے حقوق اور حکومت کی جانب سے پنشن اصلاحات کے بل کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ جنوری سے جاری احتجاج اس وقت پُر تشدد مظاہروں میں تبدیل ہوگیا جب صدر میکرون کی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 49.3 کو استعمال کرتے ہوئے پنشن اصلاحات اور ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کابل پارلیمنٹ میں بحث اور ووٹنگ کے بغیر پاس کروا لیا۔ 10 لاکھ سے زیادہ افراد فرانس بھر میں پنشن اصلاحات کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ ان مظاہروں کی وجہ سے برطانیہ کے بادشاہ چارلس سوم نے فرانس کا دورہ ملتوی کردیا۔ مظاہرین نے ٹرین سٹیشنوں‘ پیرس کے ہوئی اڈے‘ آئل ریفائنریوں اور بندرگاہوں کو بلاک کردیا ہے۔ مخالفین نے دوسرے حل تجویز کیے جن میں امیروں یا بڑی کمپنیوں پر زیادہ ٹیکس شامل ہیں لیکن حکومت نے یہ تجاویز مسترد کردیں اور اصرار کیا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کے حکومتی بل کو سال کے آخر تک نافذ کردیا جائے گا۔ دوسری طرف احتجاج کرنے والے مظاہرین کا کہنا ہے کہ جمہوریہ کا صدر بادشاہ نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فرانسیسی پولیس کی جانب سے ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال اور گرفتاریوں پر تنقید کرتے ہوئے اسے ''آزادیٔ احتجاج‘‘ کے حق کو سلب کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ مظاہروں کی کوریج کرتے ہوئے کئی واضح طور پر پہچانے جانے والے صحافیوں پر بھی سکیورٹی فورسز نے حملہ کیا۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے فریڈم آف ایسوسی ایشن نے فرانسیسی حکام کو خبردار کیا کہ پُرامن مظاہرے ایک بنیادی حق ہیں‘ جن کی حکام کو ضمانت دینی اور حفاظت کرنی چاہیے اور طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔
فرانس میں احتجاج کے دوران پولیس کی جانب سے طاقت کا بے تحاشا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دسمبر 2018ء میں ہیومن رائٹس واچ نے فرانس میں ''پیلی جیکٹ‘‘ تحریک کے دوران مظاہرین پر کیے جانے والے کریک ڈائون میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے حوالے سے دستاویز اقوام متحدہ میں جمع کروائی تھی۔ ''پیلی جیکٹ‘‘ احتجاجی تحریک کا آغاز دسمبر 2018ء میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہوا تھا۔ یہ تحریک فرانس کے دیہی علاقوں سے شروع ہوکر پورے ملک میں پھیل گئی تھی۔ اس میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے عوام شامل تھے جو میکرون حکومت کے ٹیکسوں میں اضافے اور مہنگائی کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ کورونا کی وبا کی وجہ سے یہ احتجاج ختم ہوا‘ جس سے حکومت کا بڑا خطرہ ٹل گیا تھا۔
دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں فرانس کے پاس غربت کے خطرے میں پنشن لینے والوں کی سب سے کم شرح ہے۔ اسی طرح ریٹائرمنٹ کی عمر بھی فرانس میں دیگر یورپی ممالک سے کم ہے۔ حکومت کا استدلال ہے کہ زندگی کی بڑھتی ہوئی توقعات کے سبب نظام کو تیزی سے غیر یقینی کا سامنا ہے۔ اکیسویں صدی کی ابتدا میں ہر ایک ریٹائر ہونے والے کے لیے 2.1 کارکنان سسٹم میں ادائیگی کررہے تھے۔ 2020ء میں یہ تناسب گرکر 1.7 پر آگیا اور 2070ء تک سرکاری تخمینوں کے مطابق یہ مزید کم ہوکر 1.2 تک پہنچنے کی توقع ہے۔ بڑھتی ہوئی متوقع عمر کے ناگزیر ردِعمل کے طور پر طویل عرصے تک کام کرنے کی ضرورت ہے۔ فرانس میں جاری احتجاج اور مظاہرے آنے والے دنوں میں کیا رخ اختیار کریں گے‘ یہ تو وقت بتائے گا لیکن پنشن اصلاحات کی پاکستان میں بھی اشد ضرورت ہے۔ اگر حکومت نے اس طرف توجہ نہ دی تو مستقبل میں یہ مسئلہ گردشی قرضے کی طرح گلے کی ہڈی بننے کا امکان ہے۔ پاکستان کو فوری طور پر ایک بہتر سماجی تحفظ کا نظام بنانے کے لیے پالیسی اصلاحات اپنانے کی ضرورت ہے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر بوڑھے شخص کو پنشن مل سکے اور وہ عمر بڑھنے پر عزت کے ساتھ زندگی گزار سکے۔ بڑھتی ہوئی بیروزگار ی اور مہنگائی خاندانوں کے لیے بوڑھے رشتہ داروں کی دیکھ بھال کو مشکل سے مشکل تر بنارہی ہے۔ پاکستان میں روایتی طور پر ایک مضبوط خاندانی نظام پر انحصار کیا جاتا ہے لیکن اب خاندانی نظام تبدیلی کے عمل سے دوچار ہے۔ ملک میں صرف دو پنشن سکیمیں ہیں جو 1کروڑ پچاس لاکھ معمر افراد میں سے صرف 30لاکھ تک پہنچتی ہیں۔ ایک سکیم سرکاری ملازمین کے لیے ٹیکس سے چلنے والی ہے جو صرف سات سے دس فیصد معمر لوگوں تک پہنچتی ہے جبکہ دوسری سکیم ایمپلائی اولڈ ایج بینفٹ انسٹیٹیوٹ کے نام سے ہے جو نجی شعبہ کے ملازمین کے لیے ہے۔ سرکاری ملازمین کی پنشن میں اضافہ حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ثابت ہورہا ہے۔ پبلک سیکٹر کی پنشن کو قومی بجٹ کے ذریعے خصوصی طورپر فنڈ کیا جاتا ہے اور یہ اب تک حکومت کے سماجی تحفظ کے سب سے بڑے اخراجات ہیں۔ 2019-20ء کے بجٹ میں وفاقی حکومت نے421بلین روپے پنشن کے لیے مختص کیے۔ یہ وفاقی بجٹ میں کل موجودہ اخراجات کا 5.7 فیصد یا جی ڈی پی کا تقریباً 3.2 فیصد بنتا ہے۔ ملک کا یہ پنشن سسٹم تمام معمر پاکستانیوں کیلئے بنیادی آمدنی کے تحفظ کو بھی یقینی بنانے کے قابل نہیں ہے‘ اگر حکومت عدالتی اصلاحات کے بل کی طرح پنشن سسٹم میں اصلاحات کا بل بھی پارلیمنٹ سے منظور کروا لے تو یہ پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کیلئے ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔