اکیسو یں صدی میں آزادیٔ صحافت کو مواقع اور چیلنجز‘ دونوں کا سامنا ہے۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2022ء کا سال صحافت سے منسلک لوگوں کے لیے مہلک ترین سال تھا۔ گزشتہ برس دنیا بھر میں 86 صحافی اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتے ہوئے مارے گئے اور یہ ہلاکتیں زیادہ تر جنگ زدہ علاقوں سے باہر ہوئیں۔ صحافیوں کی سلامتی محض صحافیوں یا بین الاقوامی تنظیموں کا مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ بحیثیت مجموعی پورے معاشرے کا مسئلہ ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی آمد اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے عروج کے ساتھ میڈیا اور صحافت کے منظر نامے میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ انٹرنیٹ نے معلومات تک رسائی اور اشتراک کے طریقے کو تبدیل اور خبروں کے پھیلاؤ کو تیز تر کر دیا ہے۔ جس سے ایک طرف لوگوں کو اپنا مواد شائع کرنے کی اجازت ملنے سے آوازوں کے تنوع میں اضافہ ہوا اور صحافت کی رسائی میں وسعت آئی ہے وہیں دوسری طرف اسی پلیٹ فارم سے غلط اطلاعات اور سازشی نظریات پھیلانے والوں کو بھی سازگار حالات میسر آئے ہیں۔ ہم ایک نئے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ایک طرف اظہارِ رائے کی آزادی انسان کا ایسا حق ہے جو اس کے لیے ایک ایسے مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا آیا ہے جو دیگر تمام انسانی حقوق کی پاسداری کے تحفظ کے ساتھ جمہوریت کی ترقی‘ سماجی اور انفرادی سطح پر بااختیار بنانے کے لیے ایک محرک کے طورپر کام کرتا آیا ہے۔ جب افراد آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کے قابل ہوتے ہیں تو وہ معاشرے کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ حکومتوں کو جوابدہ ٹھہرا سکتے ہیں اور ایسے ماحول کو فروغ دے سکتے ہیں جہاں دوسرے حقوق پروان چڑھ سکیں مگر دوسری طرف یہی پلیٹ فارم غلط معلومات اور جعلی خبروں کے پھیلاؤ کا باعث بھی بنا ہوا ہے جہاں ایک غلط قدم و فیصلہ ہمیں آگاہی پر مبنی عوامی مباحث سے دور لے جا سکتا ہے۔ غلط معلومات کے آن لائن یا آف لائن پھیلنے سے جمہوریت‘ قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے اداروں پر ایسے سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں جن کا خمیازہ نسلوں کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
امسال آزادیٔ صحافت کے عالمی دن کا خاص موضوع ''صحافت اور مجموعی انسانی حقوق کے مابین تعلق‘‘ تھا۔ آزادیٔ صحافت جمہوریت اور انصاف کی بنیاد ہے جو ہم سب کو ان حقائق سے روشناس کراتی ہے جن کی ہمیں اپنی آرا تشکیل دینے اور سچائی کا اظہار کرنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ آزادیٔ اظہار وہ چیز ہے جو ہمارے معاشرے کی حالت ظاہر کرتی ہے۔ آزادانہ طور پر اختلافِ رائے کا اظہار کرنے یا معلومات کا اشتراک کرنے کی صلاحیت کے بغیر مسائل کا حل اور پسماندہ گروہوں کا تحفظ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تاہم دنیا کے ہر کونے میں آزادیٔ صحافت حملوں کی زد میں ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے عروج نے شہریوں کو سٹیزن جرنلسٹ بننے کے لیے بااختیار بنایا ہے جس سے وہ حقیقی وقت میں واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے عوام کے ساتھ براہِ راست معلومات کا اشتراک کرتے ہیں۔ اس طرح خبروں کی ترسیل کی رفتار میں اضافے اور کم رپورٹ شدہ مسائل کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے لیکن اس تیزترین ڈیجیٹل دنیا نے نگرانی اور راز داری کے خاتمے کے خدشات کو بھی جنم دیا ہے۔ حکومتوں اور کارپوریشنوں کے پاس ڈیٹا کی وسیع مقدار تک رسائی پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہوگئی ہے جسے ممکنہ طور پر صحافیوں کی نگرانی‘ آزادیٔ صحافت کو دبانے یا ذرائع کی رازداری سے سمجھوتا کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے رازداری اور ذرائع کی حفاظت صحافیوں اور میڈیا تنظیموں کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔
صحافت ریاست کا چوتھا ستون کہلاتی ہے لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں آزادیٔ صحافت ہر دور میں خواب ہی رہی ہے۔ پاکستان صحافت کے لیے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں 170سے زیادہ صحافی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے مختلف واقعات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کی خامیوں کو مزید جمہوریت سے دور کرنے کے بجائے تنقید اور اختلافِ رائے کے جواب میں سنسر شپ کا راستہ اپنانے کی طویل تاریخ ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں جب تک اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو آزادیٔ صحافت کی پر زور حمایت کرتی ہیں لیکن اقتدار میں آنے والی ہر سیاسی جماعت میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے پابندیوں کا سہارا لیتی ہے۔ اس رجحان میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ تشویش کا باعث ہے۔ جب سیاست دان اپنے سیاسی فائدے کے لیے میڈیا کی آزادی کو روکتے ہیں تو اس کا فائدہ بالآخر جمہوریت مخالف قوتوں کو ہوتا ہے۔ اختلافی آوازوں کو نشانہ بنانا‘ سزا دینا پاکستان کے سیاسی کلچر کے لیے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ یہ جمہوری اداروں اور ریاست کی پائیداری کیلئے بھی خطرہ ہے ۔
اکیسویں صدی کا ایک اور اہم مسئلہ میڈیا کی ملکیت و ارتکاز ہے۔ بہت سے ممالک میں مٹھی بھر طاقتور افراد میڈیا آئوٹ لیٹس کے بڑے حصے کو کنٹرول کرتے ہیں جو آزاد رپورٹنگ کو محدود کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اس لیے مالکان کی کثرت کو یقینی بنانا اور آزاد میڈیا تنظیموں کی حمایت آزاد اور متنوع پریس کے لیے ضروری ہے۔ ڈیجیٹل انقلاب نے روایتی میڈیا آئوٹ لیٹس کی آمدنی میں کمی کے ساتھ صحافت کے روایتی کاروباری ماڈلز کو متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے معیاری صحافت‘ تحقیقاتی رپورٹنگ اور معیاری خبروں کی کوریج کو برقرار رکھنے میں مشکلات درپیش ہیں۔ جدید کاروباری ماڈلز کی تلاش‘ آزاد صحافت کی حمایت اور پائیدار فنڈنگ کے ذرائع تلاش کرنا پریس کے مستقبل کے لیے بہت اہم ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے صحافیوں کو لاحق خطرات اورمیڈیا کی ملکیت کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ لہٰذا آزادیٔ صحافت کے تحفظ اور فروغ کے لیے مستقل چوکسی‘ موافقت اور آزاد و خود مختار پریس کے اصولوں کے لیے عزم کی ضرورت ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے آرٹیکل 19میں بیان کردہ آزادیٔ اظہار کا حق دوسرے تمام انسانی حقوق کا محرک ہے۔ جب اظہارِ رائے کی آزادی خطرے میں ہوتی ہے تو تمام حقوق خطرے میں ہوتے ہیں۔ پریس کی آزادی اظہار کی آزادی کے وسیع تر تصور سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ افراد کو سنسر شپ یا ظلم و ستم کے خوف کے بغیر اپنے خیالات‘ آراء اور خدشات کا اظہار کرنے کا حق دیتی ہے۔ یہ آزادی آوازوں اور نقطۂ نظر کے تنوع کی اجازت دیتی ہے جو ایک متحرک جمہوریت کیلئے ضروری ہے۔ صحافیوں کا تحفظ اور آزادیٔ صحافت کی پاسداری مہذب معاشروں کی پہچان ہیں‘ جہاں صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری کسی بھی قسم کی انتقامی کارروائیوں کے خوف کے بغیر انجام دے سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل عہد میں میڈیا کی خواندگی کو فروغ دینا‘ تنقیدی سوچ اور خبروں کے ذمہ دارانہ استعمال کی حوصلہ افزائی کرنا بہت ضروری ہے۔ رپورٹنگ کی درستگی‘ سچائی کو یقینی بنانا اور اخلاقی معیارات کو برقرار رکھنا صحافتی اور میڈیا ہاؤسز کی ترجیح ہونی چاہیے۔ یونیسکو تقریباً 20ممالک کو ڈیجیٹل دور میں میڈیا اور اطلاعاتی خواندگی کے حوالے سے تعلیمی پالیسیاں بنانے میں مدد دے رہا ہے۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو باضابطہ بنانے کیلئے عالمگیر رہنما ہدایات کے مسودے پر کام جاری ہے جو اس سال کے آخر میں شائع کیا جائے گا۔ اختلافی آوازوں کو خاموش کرنے کی کوششوں کو مسترد کرنا چاہیے۔ آزادیٔ صحافت ایک استحقاق نہیں ہے‘ یہ ایک بنیادی انسانی حق اور جمہوریت کا سنگ بنیاد ہے۔ جمہوری معاشروں میں صحافت کا کردار اہمیت رکھتا ہے۔ شفافیت کو فروغ دینے اور اقتدار میں رہنے والوں کو جوابدہ بنانے میں آزادیٔ صحافت کا کردار فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جمہوریت پسند قوتیں آزادیٔ صحافت کو اس لیے عزیز رکھتی ہیں کہ وہ جانتی ہیں جمہوریت کا ایک بنیادی اصول یہ بھی ہے کہ اختلافِ رائے ایک مسلمہ حق ہے۔