متفقہ فیصلہ

تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض ہے کہ اس گنہگار کو سعودی عرب میں اپنے طویل قیامِ کے دوران کئی بار حج اور عمرے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اسی طرح مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں نمازیں ادا کرنے اور روضۂ رسولؐ پر با دیدۂ تر سلام پیش کرنے کا اذن بھی نصیب ہوا۔ ع
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
فقیر نے حرم مکی کو جب بھی دیکھا اک عالم نو دیکھا۔ کبھی انتہائی بھیڑ میں اور کبھی 1970ء کی دہائی کی اُن تپتی ہوئی دوپہروں میں کہ جب مطاف میں ابھی حدّت جذب کرنے والا سنگ مرمر نہ لگا تھا۔ اس دوران طواف کرنے والے چند لوگ ہوتے اور ہر پھیرے میں حجرِ اسود کو چومنے کا موقعہ بھی مل جاتا تھا۔ ہر بار خانہ کعبہ کو دیکھ کر بقول ڈاکٹر خورشید رضوی کیفیت یہ ہوتی تھی کہ ؎
سامنے ہے اس کو آنکھوں میں بسا لے جائیے
عمر بھر اس ایک پل کو مت گزرنے دیجیے
اب جب حرم مکی میں ہو کا عالم دیکھتا ہوں اور مسجد نبوی میں اکا دکُا مشتاقانِ دید نظر آتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کلیجہ پھٹ جائے گا۔ اسی طرح خدا کے گھروں کی پاکستان میں بھی ویرانی نہیں دیکھی جاتی۔
یہ تو اس گنہگار کا حال ہے مگر وہ لوگ کہ جن کا دل مسجد میں اٹکا رہتا ہے۔ اُن پر اس فرقت سے کیا گزرتی ہو گی۔ منگل کے روز کراچی میں جیّد علمائے کرام‘ جن میں مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن، جناب اویس نورانی اور دیگر بہت سے علمائے کرام شامل ہیں‘ نے اعلان کیا کہ اب ہمیں مساجد سے مزید جدائی کا یارا نہیں۔ مفتی منیب الرحمن صاحب نے پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ٹیلی فون پر مولانا فضل الرحمن اور سینیٹر سراج الحق سے بھی اس مؤقف کے بارے میں مکمل تائید حاصل کر لی ہے۔ یہ مقام صبر شکر ہے کہ ہمارے علمائے کرام کو باری تعالیٰ نے حق گوئی اور حکمت و دانائی کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا ہے۔ قرآن پاک میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جسے حکمت و دانائی عطا کی گئی گویا اسے خیر کثیر نواز دیا گیا۔
میرے والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہریؒ کی نسبت سے میرا تمام علمائے کرام کے ساتھ احترام کا رشتہ قائم ہے۔ وہ اس طالب علم کی بات کو نہایت غور سے سنتے ہیں اور پھر نہایت ملائمت کے ساتھ اپنے مؤقف کی وضاحت فرماتے ہیں۔ میں نے شبِ رفتہ مفتی منیب الرحمن صاحب اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایّاز سے رابطہ کیا اور ان کا مؤقف جاننے کی کوشش کی۔ مفتی صاحب کا کہنا تو یہ تھا کہ جس طرح سے کابینہ کی میٹنگز اور دیگر کئی دفاتر میں سماجی فاصلے کے ساتھ کاروبارِ حیات جاری ہے‘ اسی طرح سے جملہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ مساجد میں بھی نمازیں، جمعۃ المبارک اور تراویح ادا کی جا سکتی ہیں۔ ڈاکٹر قبلہ ایّاز صاحب کی رائے مفتی صاحب سے مختلف تھی۔ ان کے خیال میں حکومت وقت کو کسی وبا یا ایمرجنسی کی صورت میں نمازیوں کی تعداد محدود کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
اس طالب علم نے موضوع کی تفہیم کے لئے جو خوشہ چینی کی ہے اس کا نچوڑ یہ ہے کہ ابن حجر العسقلانی نے بذل الماعون 833 ہجری کا واقعہ لکھا ہے کہ قاہرہ میں ایک وبا پھیل گئی جسے اہل مصر سیاہ طاعون کہتے تھے۔ اس وبا سے روزانہ درجنوں شہری لقمۂ اجل بن گئے۔ لوگوں نے سلطان سے فریاد کی۔ سلطان نے علمائے کرام کو مشاورت کے لیے بلایا اور فیصلہ ہوا کہ لوگ تین روزے رکھیں اور پھر چوتھے روز سارا شہر سلطان کی قیادت میں جا کر اللہ کے حضور گڑگڑائے۔ لاکھوں لوگوں نے کھلے میدان میں جا کر آہ و زاری کی۔ علامہ العسقلانی لکھتے ہیں کہ ایک ماہ گزرنے کے بعد قاہرہ میں روزانہ ہزار ہزار لوگ اسی وبا سے ہلاک ہونے لگے۔ علامہ نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حاکم اور علمائے کرام نے سماجی فاصلے کے نبوی طریقِ کار کو نظر انداز کر کے جس طرح سے لوگوں کو اکٹھا کیا‘ اس کا نتیجہ ہولناک ہلاکتوں کی صورت میں سامنے آیا۔ رسول اللہؐ کے پاس بنی ثقیف کا ایک وفد بیعت کے لیے آیا‘ جس میں ایک شخص جذام کے مرض کا شکار تھا۔ آپ نے اسے دیکھتے ہی اہلِ وفد سے فرمایا کہ اسے بتا دیجیے کہ اس کی بیعت قبول ہو گئی۔ اسے قریب آنے کی ضرورت نہیں۔ 
اسی طرح حضرت عمر بن خطابؓ طواف کعبہ کر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک کوڑھی عورت بھی طواف کر رہی ہے۔ آپ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ''خدا کی بندی اگر تم گھر بیٹھتی تو خلق خدا تیرے آزار سے محفوظ رہتی‘‘۔
سورۃ البقرہ کی اس آیت میں تحفظ خود اختیاری کا دائمی اصول بیان کر دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘ اور طاعون کے بارے میں مشہور حدیث نے تو وبا پر قابو پانے کے لیے بڑی واضح نصیحت کی ہے کہ جہاں طاعون ہو وہاں نہ جائو اور اگر تم پہلے سے وہاں ہو تو پھر وہاں سے واپس نہ آئو۔ قرآن پاک میں ہی ایک اور جگہ قانونِ فطرت بیان کر دیا گیا ہے... تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائو گے۔ یہ سنت ربانی صرف مسلمانوں کے لیے نہیں کل خلقت کے لیے ہے۔ 
میں نے مختلف اسلامی ملکوں کا طائرانہ جائزہ لیا ہے۔ سعودی عرب میں تو کہیں مکمل اور کہیں جزوی کرفیو ہے اور مساجد میں نماز کی ادائیگی پر مکمل پابندی ہے۔ ترکی اور مصر میں کرفیو تو نہیں مگر مساجد میں نمازیوں کی آمد و رفت ممنوع ہے۔ ملائیشیا میں ملی جلی کیفیت تھی، مگر وسط مارچ میں ایک بڑا دینی اجتماع منعقد ہوا جس میں سولہ ہزار افراد نے شرکت کی۔ بعد ازاں جب ٹیسٹ ہوئے تو معلوم ہوا کہ اس اجتماع کے شرکا میں 637 افراد میں کورونا کی بیماری موجود تھی۔ اس کے بعد علمائے کرام کے ساتھ وسیع تر مشورے کے بعد مساجد میں نمازوں کی ادائیگی روک دی گئی۔
گزشتہ روز ملک کے نامور طبیب ڈاکٹر سعید اختر صاحب سے اسلام آباد بات ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ بہت دل گرفتہ ہوں۔ عرض کی کہ دل گرفتگی کا سبب کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے ''اللہ کرے میرا خدشہ درست نہ ہو مگر مجھے اپنے مطالعے اور دنیا کے مختلف علاقوں میں کورونا کی حشر سامانیوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جوں جوں ٹیسٹوں کی تعداد بڑھے گی توں توں پاکستان میں مریضوں کی بڑی تعداد سامنے آئے گی‘‘۔
اس وقت حکومت خود تضاد اور ابہام کا شکار ہے۔ اب اگر جزوی طور پر کچھ کاروبار بحال کر دیئے جائیں گے۔ تعمیراتی شعبے میں کام شروع ہو جائے گا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر آ جائیں گے تو سماجی فاصلہ کیسے برقرار رہے گا۔ علمائے کرام سے ہماری مؤدبانہ و عاجزانہ درخواست ہو گی کہ وہ عالمِ اسلام کے ساتھ مل کر چلیں۔ نیز طبّی ماہرین سے مشورہ کریں۔ قوم جتنی تنظیم اور ڈسپلن کی پابند ہے وہ ہم سب پر عیّاں ہے۔ مجھے ڈر یہ ہے کہ اگر ملک کی ہزاروں مساجد میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ نمازیں ادا کریں گے تو کورونا کا پھیلائو بہت بڑھ سکتا ہے۔ اس صورت میں دین بیزار لوگ علمائے کرام کو نشانۂ تنقید بنائیں۔ علمائے کرام الگ سے فیصلہ کرنے کی بجائے حکومت کے ساتھ مل کر متفقہ فیصلہ کریں تا کہ اس کی ذمہ داری اکیلے اُن پر نہیں‘ سب پر عائد ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں