بھارتی مظالم کا خاتمہ کیسے ہوگا؟

سچی بات یہ ہے کہ مجھے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے مسلمانوں کے خلاف انسانیت سوز مظالم پر نوحہ خوانی بالکل پسند نہیں۔ اس پر میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے۔ کیا ایٹمی قوت پاکستان سمیت دنیا کی ایک چوتھائی آبادی پر مشتمل مسلمانوں کے پاس نوحہ خوانی اور مرثیہ گوئی کے علاوہ کچھ اور نہیں؟ بی جے پی کی حکومت نے گزشتہ ایک برس سے مسلمانوں کو ملیا میٹ کرنے کے لیے ہر وہ حربہ اختیار کر رکھا ہے جسے دیکھ کر انسانیت کی آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ مجھے حیرت ہے ‘اپنی حکومت اور وزیراعظم عمران خان پر کہ وہ ان مظالم کے خلاف عالمی کمیونٹی کو متحرک کر سکے اور نہ ہی او آئی سی کا کوئی اجلاس بلوا سکے۔ اس معاملے میں پاکستان نے تقریباً خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ شاید ان کا گمان یہ ہو کہ پاکستان کی کون سنے گا۔ اس لیے انہوں نے چپ سادھ رکھی ہے۔ بقول شاعر؎
رہے خموش تو ٹوٹا نہ رشتۂ امید
پکارتے تو خرابوں میں کوئی تھا بھی نہیں
اگر پاکستانی حکمرانوں کا پاکستان کے بارے میں یہ اندازہ ہے تو یہ سراسر غلط ہے۔ پاکستان کے بغیر او آئی سی کیا ہے۔ میں نے بڑے اہم عربوں کو اپنے کانوں سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ہمیں خدا کے بعد پاکستان کا سہارا ہے۔ یہ کہتے بھی سنا کہ ایٹم بم صرف پاکستان کی نہیں عالم اسلام کی قوت ہے۔ سعودی عرب تو روزِ اول سے پاکستان کا حلیف نہیں‘ پاکستان کا بھائی ہے۔ یہ ایٹمی بھائی سعودی عرب میں جنرل راحیل شریف کی صورت میں اور متحدہ عرب امارات میں جنرل پاشا کی صورت میں اخوت و محبت کی مثال بنا ہواہے‘ پھر کیا بات ہے کہ وہ بھارت کہ جس کی معیشت کا بہت بڑا انحصار خلیجی ممالک میں اربوں ڈالر کی ملازمتوں اور بھارت میں ان مسلمان ملکوں کی ایک کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود نڈر ہو کر عربوں کے مسلمان بھائیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھا رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان او آئی سی کا سربراہی اجلاس بلوا کر بھارت کو یہ وارننگ نہیں دلوا سکا کہ بھارتی و کشمیری مسلمانوں پر مظالم فی الفور روکو اور بھارت میں امتیازی شہریت بل اور کشمیر کی مسلمہ حیثیت منسوخ کرنے کے لیے کی جانے والی شرمناک قانون سازی بند کرو اور 9 ماہ سے جاری 80 لاکھ کشمیریوں کو لاک ڈائون سے آزاد کرو۔
عالمی و اسلامی کمیونٹی کی خاموشی دیکھ کر بھارت کو شہ ملتی رہتی اور یوں وہ ظلم کی شبِ تار کو طویل تر کرتا رہا۔ قدرت کا اپنا نظام ہے۔ بالآخر امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھارت پر سخت سفارتی پابندیوں کے اطلاق کی سفارش کر دی ہے۔پاسبان مل گئے‘ کعبے کو ''صنم خانے‘‘ سے ‘امریکی کمیشن کی اس زور دار رپورٹ کے بعد یہ امید کی جا رہی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی‘ وزیر داخلہ امیت شاہ اور بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ پر سفری پابندیاں اور ویزے کے اجرا پر قدغنیں لگا دی جائیں گی۔ رپورٹ میں بڑے واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ بھارت نے جان بوجھ کر مذہبی آزادی کے خلاف پر تشدد کارروائیوں کی اجازت دی۔ بھارت نے بین الاقوامی مذہبی آزادی قانون کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔ اس لحاظ سے بھارت مذہبی آزادی کے حوالے سے انتہائی تشویشناک ملک ہے۔ کمیشن کی سالانہ رپورٹ میں متنازعہ بھارتی شہریت بل کو مسلمانوں کے خلاف ایک غیر قانونی اقدام قرار دیا گیا۔ کمیشن نے بابری مسجد کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کرنے پر بھی شدید تنقید کی ہے۔ بین الاقوامی کمیشن‘ جسے امریکہ کے سرکاری کمیشن کی حیثیت حاصل ہے‘ نے پہلی مرتبہ بھارت کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیا ہے۔ کمیشن نے پاکستان میں اقلیتوں کے لیے کی جانے والی مثبت پیش رفت کو سراہا ہے۔
قوموں کی زندگی میں تاریخ کا کیا کردار ہے؟ تاریخ قوموں اور ان کے قائدین کو مستقبل کی راہیں متعیّن کرنے میں رہنمائی عطا کرتی ہے۔بھارت سے معاملات طے کرنے کے بارے میں ہر حکمران کی پالیسی جدا رہی۔ 1987ء میں ابھی روسی فوجیں افغانستان میں تھیں‘ سوویت یونین کی شہ پر اس وقت کے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے پاکستان پر دبائو بڑھا رکھا تھا اور خطرہ تھا کہ کہیں بھارت پاکستان پر حملہ ہی نہ کر دے۔ اس خطرناک صورتحال کے دوران اُس وقت کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم پاک بھارت میچ دیکھنے کے بہانے جے پور انڈیا گئے۔ وہاں جنرل ضیاء الحق کے راجیو گاندھی سے دو ٹوک مذاکرات ہوئے۔ جنرل صاحب نے راجیو گاندھی کو بتایا کہ جس قوت پر بھارت اترارہا ہے اسے پاکستان بھی حاصل کر چکا ہے‘ لہٰذا امن سے رہنا ہے‘ جنگ کرنی ہے؟ انتہائی ٹینشن میں شروع ہونے والی ملاقات ایک فرینڈلی پریس کانفرنس میں بدل گئی‘ جس میں جنرل صاحب نے بھارتی صحافیوں کو بتایا کہ آپ کا وزیراعظم پاکستان کے ساتھ عدم جنگ کا معاہدہ چاہتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کی پالیسی ''دھمکی اور ڈپلومیسی‘‘ کا کامیاب فارمولا ثابت ہوا۔
جہاں تک میاں نواز شریف کی بھارت کے حوالے سے پالیسی کا تعلق ہے‘ تو وہ اوّل و آخر ڈپلومیسی اور لو پروفائل رویے پر مبنی تھے۔ میاں نواز شریف کے بحیثیت وزیراعظم دو ادوار میں انڈیا میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تھی۔ فروری 1999ء میں کہ اس وقت تک پاکستان اعلانیہ ایٹمی قوت بن چکا تھا‘ واجپائی ''بس یاترا‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ بس پر لاہور آئے اور دونوں ملکوں کے درمیان لاہور ڈیکلریشن کے نام سے تاریخی معاہدہ ہوا جس میں کشمیر سمیت تمام معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے اور ایٹمی دوڑ اور ایٹم بم کے استعمال سے اجتناب کرنے کا تاریخی معاہدہ ہوا۔شاید آج کی نوجوان نسل کو معلوم نہ ہو کہ انجہانی اٹل بہاری واجپائی بہت اچھے شاعر تھے۔ ان دنوں انہوں نے ایک نظم بھی کہی تھی۔امن کے بارے میں ان کی ایک طویل نظم کا آخری بند کچھ یوں ہے۔؎
بھارت پاکستان پڑوسی ساتھ ساتھ رہنا ہے
پیار کریں یا وار کریں دونوں کو ہی سہنا ہے
تین بار لڑ چکے لڑائی کتنا مہنگا سودا
روسی بم ہو یا امریکی‘ خون ایک بہنا ہے
جو ہم پر گزری بچوں کے سنگ نہ ہونے دیں گے
میاں نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں نریندر مودی بھی دسمبر 2015ء میں لاہور آئے اور انہوں نے بھی امن اور دونوں ملکوں سے غربت اور جہالت کے خاتمے پر اتفاق کیا‘ مگر پھر خدا جانے مودی کو کیا ہوا کہ اب‘ وہ ایسے انسانیت کُش راستے پر چل پڑے ہیں کہ دنیا اب بھارت کو انتہائی خطرناک اور تشویشناک ملک سمجھنے لگی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے 27 ستمبر 2019ء کو جنرل اسمبلی میں ایک نہایت ہی جرأت مندانہ خطاب کیا۔ اس خطاب کا متعصب بھارتی وزیراعظم پر الٹا اثر ہوا اور اس نے اسرائیل کی ہدایات کے مطابق کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کے ساتھ وہ سلوک شروع کر دیا جو یہودیوں نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا۔ خان صاحب کی حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ صرف اس خطاب پر تکیہ کر کے نہ بیٹھ جاتی اور بھارتی مظالم کے خلاف عالمگیر مہم چلاتی ‘مگر یہ حکومت کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کو بھلا کر چپ بیٹھی ہے۔ 
امریکی کمیشن کی بھارت کے خلاف انتہائی سخت رپورٹ نے پاکستان کو ایک سنہری موقعہ فراہم کر دیاہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اس رپورٹ کی بنیاد پر عالمی اور اسلامی محاذ پر بھارتی مظالم کے خلاف بھرپور مہم چلاتا ہے یا خاموش بیٹھا رہتا ہے اور اس سنہری موقعے کو ضائع کر دیتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں