کورونا اور اٹھارہویں آئینی ترمیم

معاملہ ایک بار پھر انائوں کے ٹکرائو کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ خودی اور انا میں بڑا لطیف مگر واضح فرق ہے۔ خودی کی تہہ میں عجز و بندگی جبکہ انا کی تہہ میں تکبر و خود پسندی پنہاں ہوتی ہے۔ انا کے باعث انسان خود کو برتر اور دوسرے کو کم تر سمجھتا ہے۔ یہی انا گھروں سے لے کر ایوانوں تک معاملات کو سنوارتی نہیں بگاڑتی ہے۔ دیکھئے مرشد اقبال نے خودی کے تصور کی کیا خوبصورت تشریح کی ہے اور فقر و شاہی کا کیا گُر بتایا ہے:؎
حکیمی، نا مسلمانی خودی کی
کلیمی، رمز پنہانی خودی کی
تجھے گُر فقر و شاہی کا بتا دوں
غریبی میں نگہبانی خودی کی
استاد گرامی ڈاکٹر خورشید رضوی نے ایک ہی شعر میں انا اور رعونت کی ساری کہانی بیان کر ڈالی ہے:
خوں رلاتی ہے رعونت دل دکھاتا ہے تضاد
خاک پر جب کِبر سے ڈالے نظر کہسارِ خاک
ایسا نہیں کہ حالات کو درست نہج پر نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ ایسا ممکن تھا۔ سارے معاملات کو افہام و تفہیم سے پارلیمنٹ میں سلجھایا جا سکتا تھا اور کورونا کی چیرہ دستیوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے سب کی مشاورت سے ایک قومی پالیسی بھی وضع کی جا سکتی تھی‘ مگر حکومت نے خود پسندی سے کام لیا اور عملاً اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھنے سے انکار کیا۔ یہیں سے مسائل پیدا ہونے شروع ہوئے۔ اس عدم اتفاق کا نتیجہ یہ ہوا کہ پیر کے روز سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجر بینچ نے وہ کام انجام دیا جو پارلیمنٹ کو کرنا چاہئے تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ حالات ابتر ہو رہے ہیں۔ جسٹس بندیال کا کہنا تھا کہ وفاق میں بیٹھے لوگوں کا رویہ متکبرانہ ہے۔ جسٹس قاضی امین کی آبزرویشن یہ تھی کہ کورونا ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ خیبر پختونخوا واحد صوبہ ہے جہاں ڈاکٹروں اور صحت کے عملے پر تشدد ہوا۔ ہمیں بعض ثقہ ذرائع سے یہ خبریں بھی وصول ہوئی ہیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں پچاس سے اوپر ڈاکٹر، نرسیں اور میڈیکل سٹاف کورونا سے متاثر ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹروں کے پاس اپنی حفاظت کے لئے مناسب انتظام اور سامان نہیں‘ جس کی وجہ سے کورونا سدباب کے لئے کئے گئے اقدامات متاثر ہو رہے ہیں۔ عدالت نے واضح طور پر کہا کہ وفاق اور صوبوں میں بالکل ہم آہنگی نہیں۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ اچھی اور ویژنری لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ یہ اچھی اور ویژنری لیڈر شپ کیا ہوتی ہے؟ کالم کی تنگ دامانی کا خیال کرتے ہوئے ایک ہی شعر میں اس کا جواب حاضر ہے:
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
مگر جہاں لیڈر شپ کا یہ حال ہو بقول شاعر کہ:
دو گام پہ تم خود سے بچھڑ جاتے ہوئے خورشید
اور لوگ سمجھتے ہیں تمہیں رہبروں میں
وہاں خوئے دل نوازی اور سارے زمانے کو ساتھ لے کر چلنے کا کیا کام۔ عدالت نے حتمی حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ وفاق اور صوبے ایک ہفتے میں قومی یکساں پالیسی بنائیں ورنہ ہم عبوری حکم جاری کریں گے۔
میں بہت سوچتا رہا کہ کورونا اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ خاصی سوچ بچار کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ وفاق اور پی ٹی آئی کی صوبائی حکومتوں سے جب بڑھتے اور پھیلتے ہوئے کورونا کو خاطر خواہ طریقے سے کنٹرول نہ کیا جا سکا اور کورونا کے معاملے میں جگہ جگہ بیڈ گورننس کے شاہکار سامنے آنے لگے تو وفاق کے بعض کم نظر مشیروں نے حکومت کو مشورہ دیا ہو گا کہ اس ناقص کارکردگی کا سبب اختیارات کی کمی ہے‘ اس لئے 18ویں ترمیم میں صوبوں کو جو اختیارات حاصل ہیں وہ ان سے واپس لے کر وفاق کو دئیے جائیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ حکومت نے بیرون ملک سے جن نوجوان صاحب علم و صاحب نظر پروفیسر حضرات کو ملک میں صلاح مشورے کے بلایا ہے وہ بے چارے بھی کانِ نمک میں پہنچ کر نمک شد ہو گئے ہیں اور وہ رہنمائی اور مشاورت کے بجائے محض ترجمانی کرنے پر مجبور و محدود ہو گئے ہیں۔ امریکہ سے آئے ہوئے ایک پاکستانی امریکن پی ایچ ڈی دانش ور نے کیا غضب کا دانش ورانہ بیان دیا ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم نے سندھ کے عوام سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے جب یہ دانش ور حضرات اسی لب و لہجے میں بات کرتے ہیں جس لب و لہجے میں مراد سعید اور چوہان صاحب بولتے ہیں۔ 
اٹھارہویں ترمیم کیا ہے؟ اس کی ایک تاریخ ہے۔ 9 نومبر 1985ء کو اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے 8ویں آئینی ترمیم کے تحت اسمبلیاں تحلیل کرنے اور وزیر اعظم کو کابینہ سمیت گھر بھیجنے کے اختیارات آئین کے آرٹیکل 58(2)-(B) کے تحت حاصل کر لئے تھے اور اسی ترمیم کے تحت اس وقت کے مرنجاں مرنج وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو وزارت عظمیٰ سے جنرل صاحب نے فارغ کیا تھا۔ یوں آئین پارلیمانی سے نیم صدارتی ہو گیا تھا۔ پھر اسی آئینی ترمیم کے تحت بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو وزراتِ عظمیٰ سے اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان نے بر طرف کیا تھا۔ 1997ء میں اس وقت کے منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف نے حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کے مکمل تعاون کے ساتھ پارلیمنٹ سے 13ویں آئینی ترمیم منظور کروائی جس کے مطابق گزشتہ فوجی و نیم فوجی ادوار میں صدر پاکستان کو آٹھویں آئینی ترمیم کے تحت وزیر اعظم کو ہٹانے اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کے جو اختیارات حاصل تھے وہ منسوخ کروا دئیے گئے۔ یوں 1973ء کا آئین اپنی پارلیمانی روح کے ساتھ بحال ہو گیا۔ مگر 'یہ نہ تھی ہمارے قسمت‘ جنرل پرویز مشرف نے 17ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سیاسی حکومت اور وزیر اعظم کو فارغ کرنے کے اختیارات 2004ء میں پھر حاصل کر لئے۔ یوں جمہوریت اور آمریت کے درمیان حصول اختیارات کی یہ کشاکش جاری رہی۔ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت اور آصف علی زرداری کے زمانۂ صدارت میں اپریل 2010ء میں پیپلز پارٹی نے دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر مشہور زمانہ 18ویں آئینی ترمیم منظور کروائی جس میں آصف علی زرداری نے 58(2)(8) کے غیر جمہوری اختیارات سے دست برداری کا اعلان کیا‘ اور ایک بار پھر صدر سے اسمبلیاں تحلیل کرنے اور حکومتوں کے اختیارات واپس لے کر پارلیمنٹ کو سونپ دئیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی صوبوں کو وسیع تر قانون سازی اور مالی اختیارات بھی تفویض کئے گئے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ صوبے، پارلیمانی جمہوریت کی حقیقی روح کے مطابق نیچے لوکل حکومتوں کی بھی حوصلہ افزائی کرتے مگر ایسا نہ ہوا اور صوبوں نے ان حکومتوں کو وجود میں ہی نہیں آنے دیا۔ 
یہ مقامِ حیرت ہے کہ عمران خان انگلستان کے پارلیمانی و عدالتی نظام کے اکثر گن گاتے رہتے ہیں‘ مگر اب وہ آمروں والے اختیارات حاصل کرنے میں کیوں دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں؟ اگر کسی ''پس پردہ کاری گری‘‘ سے 18ویں ترمیم کے پر کاٹنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ ملک کی بہت بڑی بد نصیبی ہو گی۔ ون یونٹ اور ارتکازِ اختیارات کے شاخسانے سے ہی ملک دو لخت ہوا تھا‘ مگر ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتے۔ جناب وزیر اعظم سپریم کورٹ کی ہدایات کے عین مطابق تمام سیاسی جماعتوں، طبی ماہرین، علمائے کرام اور خدمت خلق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر خلوص دل سے کورونا کے خلاف ایک متفقہ قومی پالیسی تشکیل دیں اور کورونا کو شکست دینے تک 18ویں ترمیم سمیت تمام سیاسی معاملات کو ایک گٹھڑی میں باندھ کر رکھ دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں