جسنڈا کے تازہ قائدانہ کمالات

چلئے احتیاط سے کام لیتے ہوئے یوں کہہ لیتے ہیں کہ غیرملکی قائدین میں سے دو میری پسندیدہ شخصیات ہیں۔ ایک تو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسنڈا آرڈرن اور دوسری شخصیت کا تذکرہ پھر کبھی کروں گا۔ جسنڈا کو صرف ایک ہی سال کے عرصے میں دو شدید ترین امتحانوں سے گزرنا پڑا اور وہ دونوں میں بہترین طریقے سے کامیاب ہوئی ہیں۔ پہلی مرتبہ ایک سال پہلے میں نے انہیں تصویر غم بنے ہوئے دیکھا۔ آج سے تقریباً ایک سال پہلے 15 مارچ 2019ء کو کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں بروز جمعۃالمبارک عین نمازِ جمعہ کے وقت دہشتگردی ہوئی جس میں 51 مردوخواتین شہید ہو گئے اور 49 شدید زخمی ہوئے۔ حملہ آور ایک متعصب سفیدفام 28 سالہ آسٹریلوی تھا۔ جسنڈا نے دہشتگردی کے اس افسوسناک سانحے کی پرزور مذمت کی اور شہدا کے لواحقین کو جس انداز سے پرسہ اور دلاسا دیا اس سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیرمسلم بھی غمناک ہو گئے۔ جسنڈا نے حجاب پہن کر خالصتاً مشرقی انداز میں شہدا کے خاندانوں کی خواتین سے اظہارِ تعزیت کیا۔ اُس روز عالمی سطح پر وزیراعظم نیوزی لینڈ ایک سنجیدہ، زیرک اور مدبر لیڈر کی حیثیت سے نمایاں ہو کر سامنے آئیں۔
آج ساری دنیا کورونا کے آگے بے بس و مجبور نظر آتی ہے۔ کورونا کیسز کی تعداد گھٹنے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے اور پاکستان جیسے ملک میں یہ وبا ہر طرف پھیلتی جا رہی ہے۔ ایسے میں وزیراعظم نیوزی لینڈ کو 7 جون کے روز ایک دوسرے روپ میں دیکھا گیا۔ وہ خوشی سے نہال ہو کر کھلکھلا کر ہنس رہی تھیں اور دنیا کو بتا رہی تھیں: میں فخریہ اعلان کر رہی ہوں کہ آج نیوزی لینڈ میں کورونا کا آخری مریض بھی صحت یاب ہو چکا ہے۔ ہم ایک بار پھر نارمل زندگی کی طرف جا رہے ہیں۔ دنیا بھر کے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نیوزی لینڈ میں یہ معجزہ یا کارنامہ دو چیزوں کے زبردست ملاپ سے وجود میں آ سکا۔ یہ ملاپ تھا سائنس اور بصیرت افروز قیادت کا۔ 15 مارچ 2020ء کو نیوزی لینڈ میں کورونا کے ایک سو مصدقہ کیسز تھے۔ جسنڈا نے 25 مارچ کو اپنی روایتی قادرالکلامی سے کام لیتے ہوئے بنفس نفیس خود ٹیلی ویژن پر اعلان کیا کہ اپنے ملک کو اس موذی وباء سے پاک رکھنے کے لیے ہمیں سخت ترین لاک ڈائون کی طرف جانا ہو گا۔ مجھے یقین ہے کہ میری قوم ان ہدایات پر من و عن عمل کرے گی۔ جہاں آپ آج رات ٹھہرے ہوئے ہیں وہیں تاحکم ثانی ٹھہرے رہیں۔ بین الاقوامی ٹیلی ویژن چینلوں نے اعتراف کیا ہے کہ کیوی قوم نے ان ہدایات کو دل و جان سے قبول کیا اور اُن پر من و عن عمل کیا۔ اس لاک ڈائون کے مطابق بزنس بند، سکول، کالجز بند، تقریبات بند، میل جول بند، یہ لاک ڈائون 25 اپریل تک اپنی شدید ترین صورت میں برقرار رہا۔ سوائے گراسری سٹورز، پٹرول پمپ، فارمیسی اور ہسپتالوں کے کوئی چیز کھلی ہوئی نہ تھی۔ اس دوران نیوزی لینڈ میں تین نکاتی حکمت عملی اپنائی گئی مگر پوری دیانتداری اور دل کی گہرائیوں کے ساتھ۔ پہلا نکتہ یہ تھا کہ ہر شخص مریض یا غیرمریض اپنے آپ کو قرنطینہ میں سمجھے۔ جو کورونا کے مثبت مریض ہیں انہیں ہسپتالوں میں قرنطینہ کیا جائے گا۔ دوسرے نکتے کے مطابق شدید نوعیت کی سفری پابندیاں عائد کر دی گئیں‘ جن کے مطابق کوئی غیرملکی نیوزی لینڈ نہیں آ سکتا تھا۔ جہاں تک اپنے ملک واپس آنے والے نیوزی لینڈ باشندوں کا تعلق تھا انہیں واپسی پر 14 روز تک قرنطینہ میں رکھا تھا۔ 
جان ہاپکنز یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق نیوزی لینڈ میں کورونا کے کل 1,504 کیسز تھے‘ صرف 22 اموات ہوئیں۔ اگرچہ وہاں 25 اپریل کولاک ڈائون نرم کر دیا گیا تھا مگر وزیراعظم نے 7 جون تک انتظار کیا اور جب آخری مریض بھی صحت یاب ہو گیا تو جسنڈا نے قوم کو خوشخبری سنائی کہ وہ کورونا سے پہلے کی مکمل نارمل زندگی کی طرف واپس آ جائیں۔ 
اب آپ کو اس اسم اعظم کے جاننے کا اشتیاق ہو گا جس سے کورونا کے نیوزی لینڈ سے مکمل خاتمے کا کارنامہ انجام دیا جا سکا۔ اسم اعظم کا نام ہے ''ایک قوم... ایک حکمت عملی‘‘۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ نیوزی لینڈ میں اپوزیشن نہیں۔ وہاں اپوزیشن بھی ہے، وہاں حکومتی پالیسیوں سے کھلم کھلا اختلاف بھی کیا جاتا ہے؛ تاہم جب پارلیمنٹ میں مکمل اتفاق رائے سے ایک پالیسی طے ہو گئی تو پھر اپوزیشن قائدین سمیت، جاندار اور غمخوار محکمہ صحت اور 5 ملین کی آبادی نے مکمل یکجہتی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ جسنڈا کے کئی مداحوں نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ جسنڈا کو قدرت نے کرشماتی لیڈرشپ عطا کی ہے مگر اُس نے صدقِ دل کے ساتھ سیاست دانوں اور سوسائٹی کی دیگر اہم شخصیات سے تعاون کی اپیل کی اور ساری قوم کو کورونا کے خلاف مہم کے لیے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر لیا۔ 
اب ذرا ایک نظر اپنے احوال پر بھی ڈال لیجئے۔ چین میں تو پہلا کورونا کیس نومبر 2019ء میں سامنے آگیا تھا۔ بہرحال دسمبر میں تو وہاں کورونا کے کیسز شروع ہو گئے۔ پڑوسی اور دوست ملک کی حیثیت سے ہماری معلومات دوسرے ملکوں سے زیادہ تھیں مگر بدقسمتی سے ہماری بے احتیاطی اور بے نیازی بھی اپنے عروج پر تھی۔ پاکستان میں 2 مارچ 2020ء کو گلگت میں کورونا کی ایک مریضہ سامنے آ گئی۔ 15 مارچ کو سندھ میں 76 اور لاہور میں ایک کیس تھا۔ 25 مارچ کو جب کورونا کے مصدر چین سے ہزاروں کلومیٹر دور نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے شدید ترین لاک ڈائون نافذ کر دیا اس وقت پاکستان میں دو چار سو کیسز سے زیادہ نہ تھے مگر جس طرح سے ایران کے زمینی بارڈر اور ہوائی اڈوں سے بغیر چیکنگ مریضوں کو ملک کے اندر آنے دیا گیا اس موقعے پر سندھ کی حکومت نے شدید ترین لاک ڈائون کی بات کی مگر مرکزی حکومت نے روزِ اوّل سے لاک ڈائون فلاسفی کو دل و جان سے قبول ہی نہ کیا اور بھوک سے مر جانے کا تذکرہ کرتی رہی۔ سچی بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے اُتنا جان دار لاک ڈائون نہیں لگایا جتنے شدید لاک ڈائون کی ضرورت تھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 1,10,829 ہو چکی ہے جبکہ اس وقت تک اموات 2,216 ہیں۔ ایک روز بھی وزیراعظم پاکستان نے پارلیمنٹ کی سطح پر کسی حقیقی قومی پالیسی کی ضرورت کو محسوس نہ کیا۔ اور آج جب عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں کورونا بڑے شہروں میں ہی نہیں چھوٹے شہروں اور قصبوں تک پھیل گیا ہے تو وزیراعظم فرماتے ہیں ''جاگتے رہنا ساڈے تے نہ رہنا‘‘ پہلے وزیراعظم اس مرض کو تشویشناک نہ سمجھتے تھے اور اب کہتے ہیں کہ جولائی اور اگست میں موذی کورونا کا عروج ہو گا۔ 19 مئی کو اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ سے کورونا کے ماہر ڈاکٹروں کی کمیٹی تشکیل دینے کی استدعا کی تھی جسے عدالت عظمیٰ نے مسترد کر دیا تھا۔ اب تشویشناک صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق صرف لاہور میں 7 لاکھ افراد کورونا کا شکار ہیں اور پنجاب میں کم از کم 2 کروڑ مریض ہیں۔ اُدھر عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ پاکستان دنیا میں کورونا کے تیز ترین پھیلائو والا ملک بن چکا ہے۔ ادارے کے مطابق پاکستان میں لاک ڈائون نرم کرنے کی چھ میں سے ایک شرط بھی پوری نہیں ہوئی۔ شہری ایس او پیز پر عمل سے گریزاں ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو مکمل لاک ڈائون کی طرف جانے کی ہدایت کی ہے۔ 
ہماری بھی سپریم کورٹ سے بصد ادب یہی استدعا ہو گی کہ وہ ڈاکٹروں کی کمیٹی والی درخواست کو ریویو کرے اور پارلیمنٹ کو متحدہ و متفقہ قومی پالیسی وضع کرنے کا حکم دے۔ اگرچہ بہت تاخیر ہو چکی ہے مگر پھر بھی ہماری حکومت کی شان میں کوئی کمی نہ ہوتی تو وہ نیوزی لینڈ کی کورونا کنٹرول پالیسی سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں