بجٹ موجود منصوبہ بندی مفقود

مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے آسان کام کیا‘ انہوں نے پی ٹی آئی حکومت کی دو سالہ ناقص معاشی کارکردگی کی ساری ذمہ داری اپنے کندھوں سے اتار کر سابقہ حکومت اور کورونا کے سر ڈال دی۔ جہاں تک ن لیگ کی حکومت کا تعلق ہے تو اس کا کہنا یہ ہے کہ ہم نے پی ٹی آئی کے حوالے جب حکومت کی تو اس وقت ہماری شرح نمو 5.8 فیصد تھی۔ موجودہ حکومت نے معیشت کو 1.9 فیصد شرح نمو پر پہنچا دیا۔ مشیر خزانہ نے دوسرا الزام کورونا پر عائد کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا دنیا کی معیشتوں کو تیزی سے تہ و بالا کرتا جا رہا ہے اور ہمیں بھی 2020-2021ء کے بارے میں یہی خطرہ لاحق ہے‘ مگر حکومت نے گزشتہ مالی سال کا اکنامک سروے پیش کرتے ہوئے جو اعدادو شمار پیش کیے ہیں وہ جولائی 2019ء سے لے کر مارچ 2020ء تک کے ہیں۔ اس وقت تک کورونا کی حشرسامانیوں سے ہماری معیشت کو کوئی نقصان پہنچا تھا اور نہ ہی کوئی سخت لاک ڈائون ہوا تھا۔
پی ٹی آئی کی حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے مسلسل دوسروں پر تنقید اور عیب جوئی سے کام لے رہی ہے مگر اسے خوداحتسابی کی توفیق کم کم ہی ہوتی ہے۔ حکام خوداحتسابی کو نہیں‘ خودپسندی کو ترجیح دیتے ہیں۔ 
بجٹ کا تفصیلی تجزیہ کرنے سے قبل اس کی ایک جھلک دیکھ لینی چاہئے۔ 2020-2021ء کا یہ بجٹ 3437 ارب روپے کے خسارے کا بجٹ ہے۔ بجٹ میں ایک کھرب یعنی ایک ہزار روپے کے اضافی ٹیکس کی وصولی کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جو گزشتہ مالیاتی سال کے ہدف سے 27 فیصد زیادہ ہے۔ تاہم اس کی وصولی کا کوئی منصوبہ نہیں دیا گیا جبکہ معیشت پہلے ہی بے حال ہو چکی ہو گی اور صنعتیں کام نہیں کر رہی ہوں گی تو یہ ہدف کیسے پورا ہو گا۔ حکومت نے کوئی نیا ٹیکس بھی نہ لگانے کا اعلان کیا ہے۔ البتہ بہت سی درآمدی اشیا پر ڈیوٹیوں میں اضافہ کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ بالفرض یہ اضافہ ہو بھی جائے تب بھی ایک کھرب روپے کا اضافی ٹیکس اکٹھا کرنا کوئی آسان کام نہ ہو گا۔ بجٹ میں حکومت کا یہ اقدام مستحسن ہے کہ عوام کی سہولت اور معاشی سرگرمیاں تیز تر کرنے کے لیے سیمنٹ‘ سریا‘ پاکستان میں تیار ہونے والے موبائل فون‘ آٹو رکشا‘ موٹر سائیکل اور دیگر کئی اشیا کی قیمتیں کم کی گئی ہیں۔ حکومت نے ترقی کا ہدف 2.1 فیصد مقرر کیا ہے جو حقیقت پسندانہ لگتا ہے۔ تاہم خدشہ یہ ہے کہ جس طرح کے غیریقینی حالات نظر آ رہے ہیں اُن کی بنا پر ترقی کا یہ ہدف بھی بمشکل پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ حکومت کے لیے وقتی ریلیف یہ ہے کہ تمام قرض خواہوں نے ہمیں ادائیگیوں کو ایک سال تک مؤخر کرنے کی سہولت دی ہے۔
کورونا کی لائی ہوئی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے بجٹ میں صحت کے شعبے کو بالواسطہ طور پر 70 ارب روپے کی اضافی رقم دی گئی ہے۔ تاہم خود حکومتی ذرائع کی طرف سے کورونا کے خوفناک پھیلائو کی جو پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ 70 ارب روپے کا اضافی پیکیج ناکافی ہو گا۔ اس وقت ہمارا تعلیمی شعبہ معاشی بدحالی کا شکار ہے اور ہزاروں کی تعداد میں تعلیمی ادارے بند ہو رہے ہیں ‘ بجٹ میں اس تباہ حالی کا کوئی نہ کوئی مداوا ہونا چاہئے تھا۔ خدانخواستہ اس نیم متوسط اور غریب کلاس کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے قائم یہ ادارے بند ہو گئے تو تعلیم کا ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ اس وقت پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے زیورِ تعلیم سے محروم ہیں۔ تعلیم کے شعبے کو صرف 83 ارب روپے دیئے گئے ہیں جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہیں۔ تعلیم جیسے اہم ترین شعبے کا بجٹ میں حصہ صرف 2 فیصد ہے۔ دعوے اور عمل کے درمیان واقع ہونے والی خلیج کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ہر بچے کے لیے یکساں نصابِ تعلیم جناب عمران خان کا حسین ترین خواب تھا مگر اب یہ ایک ڈرائونا خواب بن چکا ہے۔ تاجر برادری نے بڑی دردمندی سے کہا ہے کہ یہ بجٹ ٹیکس فری ہو گا‘ مگر بزنس فرینڈلی ہرگز نہیں۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران ہم لاک ڈائون کی وجہ سے بہت بڑا خسارہ برداشت کر چکے ہیں۔ صنعت کاروں نے بھی کسی نہ کسی طرح اپنے ورکروں کو تین ماہ کی تنخواہیں ادا کی ہیں مگر اب اُن کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے بس سے باہر ہے۔ حکومت کو صنعتوں کی بحالی اور چھوٹے تاجروں کے لیے ریلیف کا کچھ نہ کچھ انتظام کرنا پڑے گا۔
سرکاری ملازم جس طرح سے مہنگائی کی چکی میں پس رہے تھے اس سے انہیں امید تھی کہ حکومت اُن کے دکھ درد کو سمجھے گی مگر شاید حکومت بے بس تھی کہ بجٹ تو آئی ایم ایف والوں نے بنایا۔ ہماری وزارتِ خزانہ صرف دس فیصد اضافے کے لیے منت سماجت کرتی رہی مگر وہاں کوئی شنوائی نہ ہوئی بلکہ الٹا آئی ایم ایف والوں نے کہا کہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ آپ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فی صد کمی کریں۔ ایک مقروض مجبور شخص دست بستہ درخواست کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود ہمارے حکمران اپنے آپ کو خودمختار سمجھتے رہیں تو یہ اُن کی مرضی‘ ہمارا اندازہ تو یہی ہے کہ؎
ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے یہ مختاری کی
ہم نے بعض سرکاری سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کرام سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف ہماری تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے بعض دیگر سرکاری شعبوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین کی 2020ء میں ہی ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بہت زیادہ تنخواہیں بڑھا دی گئی ہیں۔ ان مراعات یافتہ سرکاری محکموں میں نیب‘ ایف بی آر‘ ایف آئی اے‘ وزیراعظم سیکرٹریٹ اور قومی اسمبلی و سینٹ شامل ہیں۔ ان واجب الاحترام معلمین کا کہنا یہ ہے کہ ہم قربانی کے لیے تیار ہیں مگر عدم مساوات اور حق تلفی کسی طرح بھی قابل قبول نہیں۔ اسی طرح سے بہت پنشن لینے والے عمررسیدہ قارئین نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ مہنگائی کے اس طوفان میں برائے نام پنشن کی قوت لایموت پر زندہ رہنا تقریباً ناممکن ہے۔ اگر حکومت کی کوئی بہت بڑی مجبوری ہے تو کم از کم پنشنرز کی تنخواہوں میں ضرور اضافہ کرنے کی کوئی سبیل کرے۔ 
حکومت کو اندازہ نہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں کی واپسی کی صورت میں ایک بہت بڑا معاشی بحران اُن کے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ہر سال چودہ پندرہ ارب ڈالر سالانہ زرمبادلہ کی صورت میں پاکستان کو وصول ہوتے ہیں۔ ہم گزشتہ ایک دہائی سے مختلف حکومتوں کو متوجہ کر رہے ہیں کہ وہ اس زرمبادلہ اور اوورسیز پاکستانیوں کے مزید سرمائے سے یہاں صنعتیں لگائے اور جب وہ واپس آئیں تو انہیں مصر کی طرح ماہانہ ''معاش‘‘ ملتی رہے۔ مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے ارسال کردہ زرمبادلہ میں 70 فیصد سعودی عرب اور یو اے ای کے محنت کش بھائیوں کا ہے۔ اب ان ملکوں میں تقریباً 50 فیصد پاکستانی بے روزگار ہو چکے ہیں اور اس وقت بے یارومددگار لاکھوں کی تعداد میں پاکستان واپسی کے منتظر ہیں۔ اس طرح پاکستان آنے والا زرمبادلہ تقریباً نصف رہ جائے گا اور لاکھوں بے روزگاروں کا بوجھ ہماری معیشت کے لیے ناقابل برداشت ہو گا۔ 
بجٹ پر اپوزیشن کی تنقید بجا‘ چینی اور آٹے کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں پر دہائی بھی درست مگر اپوزیشن کو چاہئے تھا کہ وہ بجٹ سے ایک روز پہلے شیڈو بجٹ پیش کرتی اور قوم کو اعتماد میں لیتی کہ اگر ہماری حکومت ہوتی تو ہم بے حال معیشت کو کیسے بحال کرتے اور عوام کو بہت ریلیف دیتے۔ مگر افسوس تو یہ ہے کہ اپوزیشن کے پاس بھی معیشت کی بحالی کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں