ارطغرل اور پاکستانی ڈرامے

میرے بہت سے قارئین نے وٹس ایپ پیغامات اور ٹیلی فون کالز کے ذریعے مجھے بار بار توجہ دلائی ہے کہ میں نے ابھی تک ترک ڈرامے ''ارطغرل‘‘ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا۔ ہم اور کسی کو جوابدہ ہوں یا نہ ہوں مگر اپنے قارئین کو ضرور جوابدہ ہیں۔ ارطغرل 2014ء میں ترکی میں منظرعام پر آیا تھا۔ اسے فوری طور پر ترکی سے عربی اور انگریزی میں ڈب کیا گیا اور اب ارطغرل کے پروڈیوسر ٹی آر ٹی اور پی ٹی وی کے اشتراک سے ڈرامے کو اردو میں بھی منتقل کر لیا گیا ہے۔ اس رمضان المبارک کو جب یہ ڈرامہ پی ٹی وی سے نشر ہونا شروع ہوا تو سینئر لوگوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی وی کی پرانی یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔ 
یہ ترک ڈرامہ تقریباً سارے اسلامی ممالک میں نہایت ذوق و شوق کے ساتھ دیکھا گیا اور وہاں کے سوشل میڈیا پر بھی ''ٹاپ ٹرینڈ‘‘ بن گیا۔ اسلامی ممالک کے علاوہ یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ میں بسنے والے مسلمانوں میں بھی یہ بہت مقبول ہوا۔ ترکی میں ارطغرل نے کامیابی کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ مات کر دیئے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ترکی کے بعد یہ ڈرامہ پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول ہوا۔ مسلمان معاشروں میں اس ڈرامے کی بے پناہ مقبولیت کا راز کیا ہے؟ چشم بینا کو اس راز تک پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہئے۔ ارطغرل میں اسلامی تہذیب و ثقافت، اور سلطنتِ عثمانیہ کے آغاز کی ولولہ انگیز داستان کو ماہرانہ فنکاری کے ساتھ درجنوں اقساط پر مشتمل اس طویل ڈرامے میں پیش کیا گیا ہے۔
اگر تاریخ کے جھروکے سے دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ارطغرل سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اوّل کے والد تھے۔ ارطغرل کا نام دو الفاظ کا مجموعہ ہے ایک ''ار‘‘ دوسرا ''طغرل‘‘۔ ''ار‘‘ ترک زبان میں بہادر اور ''طغرل‘‘ عقابی شخصیت کو کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے ارطغرل اسم بامسمّٰی تھے۔ ارطغرل کی طوفانی جدوجہد کے نتیجے میں عثمان اوّل نے جس اسلامی سلطنت عثمانیہ کی 14ویں صدی عیسوی میں بنیاد رکھی تھی وہ 20ویں صدی تک قائم رہی۔ تین براعظموں پر محیط سلطنت عثمانیہ کے 37 سلطان 600 برس تک برسراقتدار رہے۔ کسی خاندان کی سلطنت کا اتنے طویل عرصے تک حکمرانی کرنا ایک معجزے سے کم نہیں۔
مسلمان دنیا کے کسی خطے میں ہی آباد کیوں نہ ہوں وہ جغرافیائی حد بندیوں، رنگ و نسل کی جکڑ بندیوں اور لسانی و علاقائی تعصبات سے ماورا ہوتے ہیں۔ اُن کی تہذیب و ثقافت کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔ علامہ اقبال برسوں پہلے اس تاریخی و تہذیبی حقیقت کو آشکار کر گئے ہیں۔ فرماتے ہیں:
نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شاخساریم
تمیزِ رنگ و بو بر ما حرام است
کہ ما پروردئہ یک نوبہاریم
ہم نہ افغان ہیں نہ ترک و تاتار
ہم چمن زاد ہیں اور ایک ہی شاخسار سے پھوٹے ہوئے ہیں؎
ہم پر تمیزِ رنگ و بو حرام ہے کہ ہم
ایک ہی بہارِ تازہ کے پروردہ ہیں
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے مٹھی بھر فلم رائٹروں، کالم نگاروں، ایکٹروں اور سیاست دانوں کو ارطغرل کی غیرمعمولی مقبولیت اتنی ناگوار کیوں گزری ہے۔ دراصل ان دین بیزار لوگوں کا خیال تھا کہ انہوں نے پاکستانی قوم کو جو نیا لبرل کلچر دیا ہے اس نے پاکستانی ٹیلی ویژن ناظرین کا ذوق بدل دیا ہو گا‘ مگر جب اسلامی تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرنے والا ڈرامہ ٹی وی سکرینوں پر چلا تو ریٹنگ کے سارے ریکارڈ دھڑام سے نیچے آن گرے۔ اس صدمے کی تاب نہ لا کر ہمارے یہ ''لبرل‘‘ فنکار بہت تڑپے۔ اسی لیے انہوں نے ناظرین کو تلقین کی کہ اپنے ڈرامے دیکھو، اپنا کلچر دیکھو۔ 
مجھے بعض قارئین نے ایک کلپ بھیجا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ڈرامہ ''جلن‘‘ میں ایک بیوی کی بہن اپنے بہنوئی پر فدا ہے۔ ڈرامہ ''عشقیہ‘‘ میں بہنوئی سالی پر فدا ہے۔ ''پیار کے صدقے‘‘ میں سسر بہو پر ڈورے ڈالتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ''دلربا‘‘ میں لڑکی ایک ساتھ پانچ پانچ افراد سے عشق فرما رہی ہے۔ ''دیوانگی‘‘ میں باس اپنے ملازم کی بیوی پر فدا ہے۔ کلپ میں ڈرامہ ارطغرل کے معترضین سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ ان پاکستانی ڈراموں میں جو مناظر پیش کیے گئے ہیں، کیا وہ ہمارا کلچر ہے؟ 
اب ذرا 1970ء کی دہائی کے اواخر اور 1980ء کی دہائی کے مقبولِ عام ڈراموں کو یاد کیجئے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہمارا کلچر کیا ہے۔ امجد اسلام امجد کے ڈرامہ ''وارث‘‘ میں ہمارے معاشرے کے جاگیردارانہ کلچر کی ہوبہو عکاسی کی گئی تھی۔ یہ ڈرامہ ہفتے کے جس روز ٹی وی پر نشر ہوتا اُس روز سڑکیں اور گلیاں ویران ہو جاتی تھیں۔ اسی طرح عبدالقادر جونیجو کا ڈرامہ ''چھوٹی سی دنیا‘‘، شوکت صدیقی کے ناول ''خدا کی بستی‘‘ پر مبنی ڈرامہ، حسینہ معین کا لکھا ہوا ڈرامہ تنہائیاں، انور مقصود کا ڈرامہ ''آنگن ٹیڑھا‘‘ اور یونس جاوید کا اندھیرا اجالا۔ سبھی ایسے ڈرامے تھے جن میں حقیقت بھی تھی، کہانی بھی تھی، مزاح بھی تھا، طنز بھی تھا اور غیرشعوری انداز میں اخلاقیات کا درس بھی ہوتا تھا۔
1964ء میں ہمارے ہاں ٹیلی ویژن کے آنے سے پہلے ہمارے کہانی نویسوں او رافسانہ نگاروں کی نگارشات ریڈیو، تھیٹر اور فلم کی زینت بنتی تھیں۔ ٹیلی ویژن آنے کے بعد ہمارے صف اوّل کے اکثر تخلیق کاروں نے پی ٹی وی کا رُخ کیا۔ ان رائٹرز میں اشفاق احمد، بانو قدسیہ، کمال احمد رضوی، اطہر شاہ خان، صفدر میر، شوکت صدیقی، انتظار حسین اور حسینہ معین وغیرہ شامل تھے۔ نووارد پی ٹی وی کو اعلیٰ پائے کی ادبی و تخلیقی نگارشات میسر آئیں تو اس نے ان سے بھرپور استفادہ کیا اور پرکشش ڈراموں کی صورت میں ناظرین تک پہنچایا۔ 1974ء سے 1990ء تک کی دہائیوں میں امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی اور منو بھائی وغیرہ کی صورت میں ڈرامہ نویسوں کی ایک تازہ دم کھیپ نے پی ٹی وی کا رُخ کیا... پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
ذرا اس بات پر غور فرمائیے کہ پی ٹی وی نے اعلیٰ معیار کے ڈرامے، ادبی پروگرام، ''نیلام گھر‘‘ جیسے مقبولِ عام شوز پیش کیے۔ اس کے بعد بتدریج ڈراموں اور اعلیٰ ادبی پروگراموں پر خزاں چھاتی چلی گئی۔
2003 ء میں بہت سے پرائیویٹ چینلوں کی آمد کئی لحاظ سے بہار کا جھونکا ثابت ہوئی۔ پی ٹی وی کی اجارہ داری کا خاتمہ ہو گیا اور ایک صحت مند مقابلہ شروع ہو گیا۔ ان نئے چینلوں کو اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لئے ناظرین کی پسند‘ ناپسند کو مدِ نظر رکھنا پڑتا۔ اس مرحلے پر بعض چینلوں نے حالاتِ حاضرہ کے بہت سے اچھے پروگرام پیش کئے‘ مگر کچھ نے چونکا دینے والے موضوعات کو اپنے ڈراموں میں شامل کیا۔ کچھ چینلوں نے ایسے مزاحیہ پروگرام پیش کئے جو ہماری سوسائٹی کے ''حسبِ حال‘‘ تھے۔ ان کا ہر پروگرام معاشرے کی خامیوں کی دلچسپ انداز میں نشان دہی کرتا ہے۔ بعض ڈرامہ نگاروں کا کہنا یہ ہے کہ ہم لوگوں کو وہ کچھ دکھاتے ہیں جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ایک ڈرامہ نگار محض ایک کیمرہ مین نہیں ہوتا وہ بیک وقت معاشرے کی عکاسی بھی کرتا ہے اور اس کی اخلاقی جراحی بھی۔ 
رمضان المبارک سے لے کر اب تک ڈرامہ ارطغرل کی ''کھڑکی توڑ‘‘ مقبولیت ناظرین کی طرف سے ابنارمل کلچر والے پاکستانی ڈراموں سے مکمل بیزاری کا اعلان ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں