پنجاب بچاؤ

یہ نہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار کے ستارے کبھی گردش میں نہیں آتے‘ وہ گردش میں ضرور آتے ہیں اور بار بار آتے ہیں مگر عین آخری وقت میں اپنی چال بدل لیتے ہیں۔ اسے بزدار صاحب کی خوش قسمتی ہی کہا جائے گا۔ گزشتہ دو تین ہفتوں سے بعض بڑے ثقہ ذرائع دعویٰ کر رہے تھے کہ عثمان بزدار صاحب کی رخصتی کا وقت آ گیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ اب جناب عمران خان بھی پنجاب میں بڑھتی ہوئی کرپشن‘ رشوت ستانی اور بیڈ گورننس کی شکایتیں سن سن کر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بزدار صاحب کو رخصت کر دیا جائے۔ اس سے پہلے چینی سکینڈل میں بھی عثمان بزدار کی اڑھائی ارب روپے کی سبسڈی کا بہت چرچا ہوا۔ اس عرصے میں ''بزدار ہٹائو‘‘ اور ''بزدار بچائو‘‘ دونوں تحریکیں زوروں پر تھیں۔ یہ صدائیں میڈیا سے بھی بآوازِ بلند سنائی دے رہی تھیں۔ جہاں بزدار صاحب کی ناقص کارکردگی پر شدید تنقید کی جا رہی تھی وہاں ایسے سینئر اہلِ نظر کالم نگار بھی ہیں جو پنجاب میں عثمان بزدار کے کِلّے کی مضبوطی اور اُن کی کارکردگی کی بہتری کی یقین دہانی کروا رہے تھے۔
ان دعوؤں کے ہنگام جناب وزیراعظم عمران خان اتوار کے روز لاہور آئے اور انہوں نے عثمان بزدار پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ انہیں بے خوف کام جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ اس ''مکمل اعتماد‘‘ کی شان بڑی نرالی تھی کہ جناب عمران خان نے اسی شام واپس اسلام آباد پہنچ کر پہلا کام یہ کیا وزیراعلیٰ پنجاب کے دو قریبی افسروں کو تبدیل کر دیا۔ ان میں سے ایک کمشنر لاہور آصف بلال اور دوسرے سیکرٹری سروسز ڈاکٹر شعیب تھے۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور میں وزیراعظم کو پیش کی گئی انٹیلی جنس رپورٹوں میں بتایا گیا کہ آصف بلال پٹواریوں سے ماہانہ لین دین اور ٹھیکیداروں کو نوازنے میں ملوث تھے ‘جبکہ ڈاکٹر شعیب پر بھی کئی الزامات عائد کیے گئے تھے۔ شاعر نے تو کہا تھا کہ 
ہر لرزشِ صبا کے کہے پر نہ جائیے
مگر جناب عمران خان ''صبا‘‘ کی سرگوشیوں پر بطورِ خاص کان دھرنے کا خاص ذوق رکھتے ہیں اور پھر سیکنڈ تھاٹ دیئے بغیر ردّعمل کا اظہار بھی کر دیتے ہیں۔ بیچارے عثمان بزدار کے ساتھ بھی کتنی ناانصافی ہے کہ انہیں اعتماد میں لیے بغیر اُن کے بااعتماد افسروں کو یوں ہٹا دیا جائے۔ اس ''اعتماد‘‘ پر عثمان بزدار کے جذبات کو سمجھنا زیادہ دشوار نہیں۔ بقول شاعر
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
بزدار ہٹائو‘ بزدار بچائو کی اس کشاکش میں جناب احسن اقبال سیکرٹری جنرل مسلم لیگ (ن) نے ایک زوردار پریس کانفرنس کی اور دہائی دی کہ پاکستان تحریکِ انصاف ہماری پنجاب میں کی گئی ترقی کو تباہ کر کے پچاس سال پیچھے لے گئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کہا کہ آئے روز افسروں کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے جس سے ڈیزاسٹر گورننس نئی پستیوں کو چھو رہی ہے۔ احسن اقبال نے صحت اور ڈاکٹروں کی ریگولیٹری باڈی پی ایم ڈی سی کو فٹ بال بنانے اور پنجاب میں ہیلتھ کیئر کو پرائیویٹائز کرنے اور غریبوں کو سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج سے محروم کرنے پر بھی شدید احتجاج کیا۔ انہوں نے ''پنجاب بچائو تحریک‘‘ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب میں کوئی ترقیاتی کام بالکل نہیں ہوا۔ مسلم لیگ (ن) کے زمانے کے لاہور میں تکمیل کے مرحلے کو پہنچے ہوئے منصوبوں کو مکمل کرنے اور خدمتِ عوام کے لیے انہیں ورکنگ بنانے کے بجائے انہیں پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے دس سالہ دورِ حکومت میں پنجاب کے مختلف علاقوں میں سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا تھا‘ بعض علاقوں تک موٹروے بھی پہنچا دی گئی تھی۔ سرگودھا میں تو ہم نے بچشم خود دیکھا ہے کہ اب وہاں سڑکوں کی خستہ حالی ایسی ہے کہ گاڑی چلانا ممکن نہیں۔ اسی طرح پنجاب کے دوسرے شہروں سے بھی دوست بتا رہے ہیں کہ سابقہ حکومت کی بنائی ہوئی سڑکوں کی مرمت تک نہیں کی جا رہی۔ یہ تو وزیراعظم کی اپنی گواہی ہے کہ پنجاب میں کرپشن اور رشوت ستانی بڑھ گئی ہے اور سرخ فیتہ ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔ خیبر پختونخوا کے دوستوں کا کہنا ہے کہ عثمان بزدار جیسے ایک اور وزیراعلیٰ محمود خان کی سربراہی میں خیبر پختونخوا کرپشن‘ رشوت خوری‘ کام چوری اور بدانتظامی کی آماجگاہ بن چکا ہے‘ جبکہ پرویز خٹک اور جماعت اسلامی کی سابقہ کولیشن حکومت بہت بہتر تھی۔
مائنس ون‘ مائنس آل اور نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے کرتے مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے صوبائیت کا نعرہ کیوں لگایا ہے اور ''پنجاب بچائو‘‘ تحریک شروع کرنے کا اعلان کیوں کیا ہے؟ پنجاب تو ہمیشہ پاکستان کی بات کرتا آیا ہے اور وفاق اور وحدت کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دیتا چلا آیا ہے مگر یہ اچانک ایسا صوبائی نعرہ کیوں بلند کیا گیا ہے؟ بہرحال احسن اقبال پنجاب کی آواز بلند کرنے والے تیسرے دانشور سیاست دان ہیں۔ اُن سے پہلے پنجاب کے ایک سابق وزیراعلیٰ اور گورنر پنجاب حنیف رامے ''پنجاب کا مقدمہ‘‘ نامی کتاب لکھ چکے ہیں۔ جناب حنیف رامے کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔ وہ ممتاز دانشور‘ خطاط‘ مصور اور ادیب تھے۔ پاکستان کے اس عظیم خطے کے بارے میں حنیف رامے نے لکھا تھا کہ ''پنجاب خوبصورت‘ طرح دار‘ انسان دوست‘ ملنسار‘ ہنرمند‘ خوددار‘ سخی اور دلدار ہے‘‘۔ یہ کتاب 1985 میں لکھی گئی‘ اُس وقت موجودہ پاکستان کی آبادی 10 کروڑ اور اکیلے پنجاب کی تقریباً پانچ کروڑ تھی اور اب پاکستان کی آبادی 22 کروڑ اور صرف پنجاب کی 12 کروڑ کے قریب ہے۔ اور وسائل وہی ہیں۔ حنیف رامے نے تفصیلی تجزیہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اللہ کا شکر ہے کہ پنجاب کسی قسم کی صوبائیت کی وبا میں مبتلا نہیں ‘البتہ پنجاب کو اس کے جائز حقوق ملنے چاہئیں۔ کالا باغ ڈیم بننا چاہئے کیونکہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں پنجاب کی نہیں سارے پاکستان کی ترقی کا سندیسہ ہے۔ کتاب میں اپنے تجزیے کو سمیٹتے ہوئے حنیف رامے لکھتے ہیں ''مجھے دوسروں کے لیے پنجاب کی تلاش ہے ‘مگر یہ دوسرے کون ہیں؟ میرے سندھی‘ پٹھان اور بلوچ بھائی؟ ہاں لیکن اُن سے بھی زیادہ خود پنجابیوں کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی حقیقت کو پہچانیں۔ 
سید اسعد گیلانی مرحوم کسی زمانے میں امیر جماعت اسلامی پنجاب تھے۔ 1985 کی غیرجماعتی اسمبلی میں وہ لاہور سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ سید اسعد گیلانی صاحب طرز ادیب اور معروف دانشور تھے۔ انہوں نے اسی زمانے میں ''پنجاب کی آواز‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی ۔ سید اسعد گیلانی نے بھی اہل پنجاب کی جرأت مندی‘ مہمان نوازی‘ جفاکشی‘ ہمدردی اور فراخدلی کی جہاں بہت تعریف کی وہاں انہوں نے پنجاب کے چودھریوں‘ جاگیرداروں‘ افسروں‘ بددیانت تاجروں‘ خون چوسنے والے سرمایہ داروں اور موقع پرست سیاست دانوں کو بھی نشانۂ تنقید بنایا تھا۔ انہوں نے اہلِ پنجاب کو اس خودفریبی سے نکلنے اور اپنے مسائل کو بیان کرنے اور اُن کے حل کیلئے تحریک چلانے کی ترغیب دی۔ انہوں نے خلاصۂ کتاب پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسلام کے علاوہ کسی اور عصبیت کا بوجھ اپنے دل و دماغ پر محسوس نہیں کرتے اور وہ رہتے پنجاب میں ہیں مگر پہلے مسلمان اور پاکستانی ہیں۔ میں جناب احسن اقبال کو قریب سے جانتا ہوں اس لیے مجھے یقین ِکامل ہے کہ صوبائیت یا پنجابیت انہیں چھو کر بھی نہیں گزری۔ تاہم الفاظ کے انتخاب میں انہوں نے احتیاط سے کام نہیں لیا۔پنجاب کے مسائل کو یقینا حل ہونا چاہئے تاہم ایک قومی سیاسی جماعت کے سیکرٹری جنرل کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ''پنجاب بچائو‘‘ کا نعرہ لگائے ‘کیونکہ اس نعرے سے صوبائیت کی بُو آتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں