فیصلے

جس طرح شاندار تقریر اسے سمجھا جاتا ہے کہ جسے سن کر سامع بے اختیار بول پڑے کہ 
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اسی طرح وہ عدالتی فیصلے دل لگتے سمجھے جاتے ہیں جنہیں سن کر لوگ پکار اٹھیں کہ یہ تو ہمارے دل کی آواز ہیں۔ گزشتہ تین چار روز میں ہماری عدالتِ عظمیٰ اور عدالتِ عالیہ نے ایسے سنہری فیصلے صادر کیے ہیں جو آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کا خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کیس میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ کسی شخص کے سزایافتہ ہونے سے پہلے اسے حوالۂ زنداں کیسے کیا جا سکتا ہے؟ عدالت نے نہایت وضاحت سے تفصیلی فیصلے میں لکھا ہے کہ مہذّب معاشروں میں مجرم قرار دینے کے بعد سزا شروع ہوتی ہے۔ فاضل ججز نے واضح طور پر لکھا ہے کہ آئین میں انسانی حقوق کا احترام غیرمشروط ہے انہیں کسی بھی حالات میں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ سزا کے بغیر توہین آمیز گرفتاری فرد اور خاندان دونوں کے لیے نہایت باعثِ اذیت ہوتی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے اس اذیت کی شدت کو محسوس کیا ہے کہ جس اذیت سے ہر وہ شخص گزرا ہے یا گزر رہا ہے جسے پہلے گرفتار کر لیا جاتا ہے پھر ریگولر اور سوشل میڈیا پر اس کی کردارکشی شروع ہو جاتی ہے۔ اس دوران عوامی عدالت میں اس شخص کی عزت بے عزتی میں‘ شہرت ذلت میں اور نیک نامی بدنامی میں بدل جاتی ہے۔ پھر جب مہینوں یا برسوں بعد کسی عدالت میں کیس کی سماعت ہوتی ہے اور الزام ثابت نہ ہونے کی صورت میں ملزم کو '' باعزت بری‘‘ کر دیا جاتا ہے۔ ''باعزت‘‘ایک دلچسپ اصطلاح ہے۔ اُس قت تک پسِ دیوارِ زنداں شخص کی عزت کہاں بچی ہوتی ہے۔ 
عدالتِ عظمیٰ نے نیب کی یکطرفہ کارروائی پر فیصلہ سناتے ہوئے لکھا ہے کہ نیب وفاداریاں تبدیل کرانے‘ سیاسی جماعتوں کو توڑنے‘ مخالفین کا بازو مروڑنے اور انہیں سبق سکھانے کے لیے استعمال ہوا‘ احتساب یکطرفہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف لوگوں کو برسوں‘ مہینوں جیلوں میں سڑنے کے لیے ڈال دیا جاتا ہے اور دوسری طرف بڑے بڑے مالی الزامات پر کچھ نہیں کیا جاتا۔ عوام کی نظر میں نیب کی ساکھ اور غیرجانبداری مجروح ہو چکی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ نیب کی بدنامی کا دائرہ بیرونِ ملک تک پھیل چکا ہے۔ یورپی یونین نے بھی نیب کے جانبدارانہ کردار پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ اپنے فیصلے میں عدالتِ عظمیٰ نے دیگر ماتحت عدالتوں کو ہدایات دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بنیادی حقوق کے بارے میں عدالتیں کسی ادارے کی زیادتی نظرانداز کریں اور نہ ہی ریاست کو شخصی آزادیوں سے محروم کرنے کی کسی کارروائی کی اجازت دیں۔
ایک معصوم اور بے گناہ شخص کی جب سرعام رسوائی ہوتی ہے تو اس کے دل پر تو آرے چلتے ہی ہیں اس کے علاوہ اُس کے اہل خاندان پر کیا قیامت گزرتی ہے اس کا احتسابی اداروں کے سربراہوں اور حکمرانوں کو شاید بالکل اندازہ نہیں۔ عدالت نے نیب کو تنبیہ کی ہے کہ وہ ایک ہی طرف گرفتاریاں کرتا ہے۔ سیاسی تقسیم کے دوسری جانب ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ ہم نے گزشتہ ایک ڈیڑھ برس کے دوران چیئرمین نیب کو کئی بار یہ فرماتے سنا ہے کہ اب ہوائوں کا رُخ بدل رہا ہے‘ مگر آج تک ہوائوں کا رُخ تو دور کی بات بادِ صرصر کا کوئی ایک معمولی جھونکا بھی دوسری طرف نہیں گہا۔برطانیہ کے قوانین کے مطابق سوائے پولیس کے کوئی ادارہ کسی شخص کو زیر حراست نہیں رکھ سکتا۔ پولیس بھی پوچھ گچھ کے لیے کسی شخص کو صرف 24 گھنٹوں کے لیے پولیس سٹیشن بلا سکتی ہے۔ اگر مقدمہ کسی شدید نوعیت کا ہو جیسے قتل یا ڈکیتی وغیرہ تو اس صورت میں پولیس کو عدالت سے رجوع کر کے فرد کو 36 یا زیادہ سے زیادہ 96 گھنٹوں تک زیر حراست رکھ سکتی ہے۔ اس دوران پولیس کو فردِ جرم عائد کرنا ہو گی یا مذکورہ شخص کو رہا کرنا ہو گا۔اسی طرح دو تین روز پہلے اسلام آباد میں اغوا ہونے والے سینئر صحافی کے واقعے کا چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے شدید نوٹس لیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے تو یہاں تک کہا کہ پولیس کی وردی پہنے لوگوں نے صحافی کو اٹھا لیا‘ جو کچھ ہوا ریاست اس کی ذمہ دار ہے۔
جب کوئی جج یا قاضی آزادانہ اور قابلِ احترام فیصلہ صادر کرتا ہے تو یقینا اس کے پیش نظر تین چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک خوفِ خدا‘ دوسرے قانون پر عبور اور تیسری چیز جرأت مندی ہے۔ زیادہ پیچھے نہ جائیں ماضی قریب میں ہی جھانک کر دیکھ لیں تو ہمیں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی عدلیہ بحالی تحریک میں جرأت مندی کے ایک سے ایک بڑھ کر واقعات ملیں گے جو نہ صرف قوم بلکہ عدلیہ کے لیے بھی مشعل راہ کا کام دے رہے ہیں۔ 9 مارچ 2007ء کو اس وقت کے صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف نے جسٹس افتخار محمد چودھری کو بیک جنبش لب اپنے عہدئہ جلیلہ سے معطل کر دیا۔ جسٹس افتخار محمد چودھری اس جبری و غیرقانونی معطلی پر فریاد لے کر عوامی عدالت میں گئے‘ جگہ جگہ ہزاروں وکیلوں اور شہریوں نے اُن کا والہانہ استقبال کیا۔ اسی دوران جب ''معطل چیف جسٹس‘‘ دیگر چند وکلاء کے ساتھ 12 مئی 2007ء کراچی پہنچے تو ایم کیو ایم نے اس وقت کی حکومت کے اشارے پر جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر کے شہر کو بند کر دیا اور چیف جسٹس کو ایئر پورٹ سے باہر ہی نہ آنے دیا گیا۔ اس دوران پولیس کو سڑکوں سے ہٹا دیا گیا اور قانون شکن عناصر جگہ جگہ فائرنگ کرتے رہے اور معصوم انسانوں کو چڑیوں کی طرح پھڑکاتے رہے۔ کم از کم 42 شہری ہلاک اور سو سے اوپر شدید زخمی ہوئے۔ اسی شام کو ہلاک شدگان سے تعزیت کرنے اور زخمیوں کی عیادت کرنے کی بجائے عوام کے بنیادی حقوق کے کسٹوڈین صدر پرویز مشرف نے اسلام آباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ایسا ہونا ہی تھا کہ جس کی جہاں قوت ہو گی وہ اس کا مظاہرہ تو کرے گا۔ 14 مئی 2007ء سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار حماد رضا کو گھر میں گھس کر آدھی رات کو قتل کر دیا گیا۔ ان حربوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود جسٹس افتخار محمد چودھری نے عدلیہ بحالی کی تحریک جاری رکھی جس میں بالآخر انہیں اور ساری قوم کو سرخروئی ہوئی اور ایک پانچ رکنی عدالتی بنچ نے تاریخ ساز فیصلہ سناتے ہوئے 20 جولائی 2007ء کو جسٹس افتخار محمد چودھری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا۔ 
آج کی عدلیہ بھی حق گوئی اور جرأت مندی کی انہی درخشندہ روایات کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ مقدمہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ہو یا کسی سیاست دان کا ہو‘ عدالتِ عظمیٰ وہی بات کہتی ہے جسے وہ حق سمجھتی ہے۔ اس سلسلے میں کوئی بڑے سے بڑا مرئی و غیرمرئی دبائو اُن کے فیصلے پر ہرگز اثرانداز نہیں ہو سکتا۔ وقت آ گیا ہے کہ سیات دان ذاتی پسند ناپسند اور ایک دوسرے کو سبق سکھانے سے ماورا ہو کر آمرانہ آرڈیننس کے نتیجے میں بننے والے غیردستوری و غیرجمہوری ادارے نیب کو آئین ودستور کا پابند بنائیں تاکہ کوئی حکمران یہ ادارہ اُن مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکے جن معاندانہ مقاصد کی خواجہ برادران کیس کے فیصلہ میں نشاندہی کی گئی ہے۔ اگر سیاست دان وقت کی پکار پر کان نہیں دھریں گے تو پھر وہ باری باری مکافاتِ عمل کا شکار ہوتے رہیں گے۔
جن ملکوں میں عدالتیں آئین و قانون کی محافظ بن کر کھڑی ہوتی ہیں اور آزادانہ و جرأ ت مندانہ فیصلے کرتی ہیں‘ وہاں شہری خود کو محفوظ سمجھتے ہیں اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ کوئی اُن کے بنیادی حقوق پر شب خون نہیں مار سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں