حج 2020: تمنائیں‘ حسرتیں

حج اطاعت گزاری کا دوسرا نام ہے۔ اس عبادت کے دوران مسافرِ شوق اپنے مولا کے تقرب کے لیے کبھی اُٹھتا ہے‘ کبھی بیٹھتا ہے‘ کبھی دیوانہ وار اس کے گھر کے گرد چکر لگانے لگتا ہے‘ کبھی دو پہاڑیوں کے درمیان دوڑتا ہے‘ کبھی ٹھہرتا ہے۔ پھر وہ کبھی ایک میدان میں لبیک‘ اللھم لبیک کی صدائیں بلند کرتا ہے اور کبھی دوسرے میدان میں پہنچتا ہے اور وہاں اپنے حاضر ہونے کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ حج وارفتگی اور ازخودرفتگی کا نام ہے۔ حج سیاحتی دورہ ہے اور نہ ہی کوئی مطالعاتی سفر۔ یہ بندے کی اپنے مولا کے ہاں حاضری کا نام ہے‘ عاجزی کا نام ہے‘ انکساری اور خاکساری کا نام ہے۔ اپنے اندر سے غیراللہ کے ہر تصور کو کھرچ کر نکالنے اور اپنے دل و دماغ میں اپنے مولا کو بسانے کا نام ہے۔ اگر تحدیثِ نعمت کا حکم نہ ہوتا تو میں کبھی یہ تذکرہ نہ کرتا کہ میرے مولا نے کئی بار اس گناہ گار کو اپنے گھر طلب کیا اور بارہا تاجدارِ مدینہ نے اس عاصی کو اپنے در پہ بلایا۔
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ حج کی ہر حاضری کے بعد شوقِ حضوری فزوں تر ہو جاتا ہے۔ ہر بار جب میں بادیدہ تر مدینہ سے واپسی کا سفر اختیار کرتا ہوں تو میرے نہاں خانۂ دل سے یہی دعائیں اور یہی صدائیں بلند ہو رہی ہوتی ہیں
مجھے در پہ پھر بلانا مدنی مدینے والے
کم و بیش یہی کیفیت ہر مسافرِ حرمین شریفین کی ہوتی ہے۔ ہر سال تقریباً بیس سے پچیس لاکھ تک عازمین حج مکۃ المکرمہ حاضر ہوتے رہے ہیں۔ اکثر حجاج زندگی میں پہلی بار حج کیلئے جاتے ہیں۔ وہ ساری عمر اپنی زندگی کے اہم ترین سفر کی آرزو کرتے ہیں۔ اسی آرزو کی تکمیل کیلے وہ زادِ سفر اکٹھا کرتے ہیں۔ جب حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں وہ زادِ سفر کم پڑ جاتا ہے تو نہ جانے وہ کن کن ذرائع سے اُس اضافی رقم کا بندوبست کرتے ہیں اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ اس گھڑی کا انتظار کرتے ہیں جب وہ اپنی آرزوئوں کی سرزمین کو اپنی نگاہوں سے بوسہ دیں گے۔ 
میرے بہنوئی محمد یوسف پراچہ گزشتہ 42 برس سے اپنی جوانی سے لے کر اب بڑھاپے تک خدمتِ حجاج کے مختلف کاموں پر مامور ہیں۔ وہ پاکستان میں ایک انتہائی نیک نام حج گروپ کے لیڈر ہیں۔ گزشتہ 42 برس میں اس سال پہلی مرتبہ وہ سعادتِ حج سے محروم رہے ہیں۔ انہیں بھی ارضِ حرمین سے دوری کا بہت ملال ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اُن کے ساتھ جو سینکڑوں لوگ کورونا کی وجہ سے حج پر روانہ نہ ہو سکے اُن کی تمنّائے بیتاب بے حساب اور اُن کی حسرتیں بے شمار ہیں۔ یہی کیفیات ہر اسلامی ملک کے محرومِ سفر عازمین حج کی ہیں۔
یوں تو تاریخ میں کئی مرتبہ جنگوں اور وبائوں کی بنا پر فریضۂ حج ادا نہیں کیا جا سکا مگر سعودی حکومت کے 1932ء میں آغاز سے لے کر اب تک ایسا نہیں ہوا تھا۔ اس مرتبہ سعودی حکومت کیلئے کورونا بہت بڑا چیلنج تھا۔ اگر حج کی اسی طرح اجازت دی جاتی اور ساری دنیا سے بیس پچیس لاکھ حجاج آتے اور واپس کورونا لے کر جاتے تو پھر یہ تو ساری دنیا کو کورونا کی تباہی سے دوچار کرنے والی بات ہوتی۔ اگر بالکل فریضۂ حج ادا نہ کیا جاتا تو پھر یہ بات تقریباً پونے دو ارب مسلمانوں کے دل پر بہت گراں گزرتی‘ لہٰذا سعودی حکومت نے حج کو بالکل ہی نیا انداز دے دیا ہے تاکہ مناسکِ حج بھی ادا ہو جائیں اور کورونا کو بھی حتی الامکان پھیلنے سے روک دیا جائے۔ اس پروگرام کے تحت غالباً جولائی کے وسط میں سعودی وزارتِ حج کی ایک سائٹ پر حسبِ شرائط حج کے خواہشمندوں سے آن لائن درخواستیں طلب کی گئیں۔ ان شرائط کے مطابق سعودی اور وہاں مقیم غیرملکی درخواست دے سکتے تھے۔ ہر عازمِ حج کی عمر 20 سے لے کر 65 برس کے درمیان ہونی چاہئے تھی۔ اسے ہارٹ‘ شوگر یا کوئی اور شدید نوعیت کی بیماری نہ ہو۔ چار روز تک خواتین و حضرات درخواستیں دیتے رہے۔ طے شدہ معیار کے مطابق ایک ہزار عازمین کا انتخاب کیا گیا۔ ایک اطلاع کے مطابق ان حجاج میں 70 فیصد غیرملکی اور 30 فیصد سعودی ہیں۔ عازمین حج سے کئی روز پہلے مکۃ المکرمہ پہنچے تو انہیں چند روز کیلئے سرکاری انتظامات کے مطابق اعلیٰ ہوٹلوں میں قرنطینہ کیا گیا۔ اس کے بعد انہیں خدمت گاروں اور سکیورٹی گارڈزکی حفاظت میں حرم شریف پہنچایا گیا جہاں انہوں نے طوافِ قدوم بدھ کے روز کیا اور پھر انہیں منیٰ لایا گیا۔ ایک ہزار حجاج کے ساتھ کم و بیش ہزار ڈیڑھ ہزار ڈاکٹر‘ نرسیں اور دیگر خدمت گار و سکیورٹی گارڈ موجود تھے۔ منیٰ میں حجاج کو جمرات کے قریب واقع چھ بلندوبالا سرکاری عمارتوں میں ٹھہرایا گیا ہے۔ ان ایک ہزار عازمین حجاج پر پابندی تھی کہ وہ حرم کعبہ کے درودیوار کو چھوئیں گے نہ بوسہ دیں گے۔ بروز جمعرات حجاج کرام کو میدانِ عرفات پہنچایا گیا۔ جناب رسالت مآبﷺ کی حدیث مبارکہ کے مطابق وقوفِ عرفات کا نام ہی حج ہے۔ عازمین میں سے جو لوگ عرفات کی مسجد نمرہ میں وقوف کرنا چاہتے تھے انہیں سعودی عرب کے وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے بسوں میں عرفات پہنچایا گیا اور جو لوگ قدرے آرام سے جانے کے خواہش مند تھے انہیں دس بجے بسیں لے کر روانہ ہوئیں۔ 1000 حجاج کیلئے 40 بسیں مختص کی گئی ہیں۔ ہر بس میں صرف 25 حجاج کیلئے سیٹیں مختص کی گئی ہیں۔ ہر جگہ حجاج کے ساتھ ڈاکٹر اور سکیورٹی گارڈ سفر کر رہے ہیں۔ منیٰ پہنچنے پر حجاج کرام کا طبی معائنہ ہوا تھا۔ بروز جمعرات عرفات میں اُن کا میڈیکل چیک اپ ہوا۔ ہر جگہ حجاج کو طبی ہدایات کے مطابق تیار کیے گئے کھانے کے پیکٹ دیئے جا رہے ہیں۔ اسی طرح سربمہر پانی کی بوتلیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ ان کے علاوہ کوئی شے مہیا ہے اور نہ ہی اس کی اجازت۔ حجاج کرام جب آج بروز جمعۃ المبارک واپس منیٰ پہنچیں گے تو انہیں شیطانوں کو مارنے کیلئے جراثیم سے پاک کنکریاں فراہم کی جائیں گی اور وہ گائیڈوں کی نگرانی میں وقفوں سے چھوٹے چھوٹے گروپوں میں جا کر کنکریاں ماریں گے۔ کنکریوں کے بعد حج کا اہم مرحلہ قربانی کا آ جائے گا۔ غالباً اُن کیلئے قربانی کا اہتمام مذبح خانوں میں ہو گا۔ وہاں سے الاٹ کی گئی پرچیوں کے مطابق ہر حاجی کو ایک پرچی ملے گی جس پر درج وقت کے بعد مذکورہ حاجی یا حاجن احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو سکیں گے۔ 
صرف منیٰ میں حجاج کرام ہی قربانی نہیں کرتے بلکہ ساری دنیا کے مسلمان بھی دس ذی الحج کو یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔ قرآنی آیات میں دیا گیا قربانی کا روح پرور منظر ملاحظہ کیجئے۔ ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ جب حضرت اسمٰعیلؑ‘ حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گئے تو ایک روز حضرت ابراہیمؑ نے بیٹے سے کہا ''بیٹا‘ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے؟‘‘ انہوں نے کہا ''ابا جان‘ جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالئے‘ آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں پائیں گے‘‘۔ ذرا اطاعت کی شان ملاحظہ کیجئے۔ اسی لیے تو ربِّ دو جہاں نے اس اطاعت کی تعریف کی ہے۔ مناسکِ حج کے آغاز سے لے کر قربانی کرنے تک اور طوافِ قدوم سے لے کر طوافِ وداع تک قدم قدم پر مسلمانوں کو ''اطاعت‘‘ کی یک لفظی تربیت دی جا رہی ہے۔ قربانی کی روح بھی برضا و رغبت تسلیم و اطاعت ہے۔ اسی جذبۂ اطاعت کے ساتھ ہی دنیا میں کروڑوں مسلمان اللہ کے حضور قربانی پیش کرتے ہیں۔ 
تقدیر کے اٹل فیصلے سے اس سال تقریباً دو لاکھ پاکستانی عازمین حج اس فریضے سے محروم رہے۔ حکومت اُن کے جذبوں اور حسرتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ابھی سے اعلان کرے کہ اگلے سال ان شاء اللہ انہیں اسی پیکیج پر فریضۂ حج کیلئے بصد احترام روانہ کیا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں