کیا ہمارا ملک اپنے مقصد کی تلاش میں ہے؟

آج پھر ایک صبح آزادی طلوع ہو چکی ہے مگر ابھی تک وہ سحر نمودار نہیں ہوئی جس کی ہمیں آرزو تھی‘ جس کا ہمیں انتظار تھا۔ شبِ غلامی کے اختتام پر خود بانی ٔ پاکستان نے اپنی زندگی کے ٹمٹماتے چراغ کی مدھم روشنی میں اس سحر کی منظرکشی کی تھی۔ اس سحر کے انتظار میں ہم جوانی سے بڑھاپے کی سرحد پر آ کھڑے ہوئے ہیں مگر ابھی تک اس سحر کی روپہلی کرنوں کا دور دور تک کوئی سراغ نہیں۔ ہمیں اس محرومی کا سبب اچھی طرح معلوم ہے مگر ہم اس سبب کو زبان پر لانے کو تیار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مقتدر طبقے کی آرزوئوں اور بانی ٔ پاکستان کی آرزوئوں میں بعدالمشرقین ہے۔ قائداعظم کے لب پر وہی ہوتا تھا جو اُن کے دل میں ہوتا تھا مگر اس طبقے کے لب پر کچھ اور دل میں کچھ اور ہوتا ہے۔
ہر یوم آزادی کے قریب ہمارے مٹھی بھر لبرل دانشور قائداعظم محمد علی جناح کی سینکڑوں تقاریر اور درجنوں بیانات کو سہواً نہیں عمداً نظرانداز کر کے اُن کی 11 اگست 1947ء کی دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کے ایک پیراگراف کو اپنی امیدوں اور تمنائوں کا مرکز و محور قرار دے لیتے ہیں اور اُن چند سطور کو اپنی آرزوئوں کا لباس پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ قائداعظم کی یہ تقریر فی البدیہہ تھی۔ اس تقریر میں بانی ٔ پاکستان نے فرمایا کہ اب اس ملک سے رشوت کی لت کو ختم کیا جائے‘ اسی طرح ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کا بھی خاتمہ کرنا ہو گا۔ اقربا پروری کی لعنت سے بھی چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ آخر میں مذہبی حوالے سے بات کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا کہ آپ آزاد ہیں‘ آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی ہے‘ آپ کو اپنی مسجدوں میں جانے کی آزادی ہے یا آپ کو کسی اور طریقے سے اپنی عبادت کرنے کی آزادی ہے۔ ہمارے یہ لبرل حضرات مذہبی آزادی و رواداری کے بارے میں قائداعظم کے اس ایک جملے سے سیکولرازم برآمد کرتے ہیں‘ خورونوش بلکہ نائونوش کی ہر آزادی بھی ثابت کرتے ہیں اور اپنے لبرل تخیل کی ہر پرواز کے لیے افق بھی یہیں سے فراہم کرتے ہیں۔ قائداعظم کے یہ چند جملے اوّلین اسلامی ریاست کے میثاقِ مدینہ کے عین مطابق ہیں کہ ریاست تو اسلامی ہے مگر اس کے ہر شہری کے بنیادی حقوق مساوی ہوں گے۔ یہ لبرل حضرات قوم کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ قائداعظم نے اسلام اور قرآن و حدیث کا نام لے کر پاکستان تو بنوا لیا مگر جونہی اس کا قیام عمل میں آیا تو قائداعظم خدانخواستہ اپنی بات سے پھر گئے اور اسلامی کے بجائے سیکولر ریاست کی بات کرنے لگے۔ ایسی سوچ قائداعظم کے ساتھ ہی نہیں تاریخی حقائق کے ساتھ بھی صریحاً ناانصافی ہے۔
11 اگست 1947ء کو مذہبی آزادی و رواداری پر بہت زیادہ زور دینے کا پس منظر ہے جس کا ہمارے لبرل دانشور تذکرہ نہیں کرتے۔ تقسیم ہند کی خبروں کے ساتھ ہی بھارتی اخبار نویسوں نے دہلی میں یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست ہو گی جس میں غیرمسلموں کے گلے کاٹ دیئے جائیں گے‘ اس کے ساتھ ہی سندھ کے بڑے بڑے ہندو تاجروں کے اندر وسیع پیمانے پر بے چینی پیدا ہو گئی تھی اور وہ بھارت منتقل ہونے کے بارے میں سوچنے لگے تھے۔ نیز اس وقت تک چھوٹے موٹے فسادات بھی شروع ہو چکے تھے۔ اس پس منظر میں مذہبی رواداری کے بارے میں یہ زورِ بیان ضروری تھا۔ یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہمارے لبرل حضرات 11 اگست 1947ء کے اس پیراگراف کا کیوں اتنا ذکر کرتے ہیں۔ دراصل 11 اگست کی تقریر کے اس ایک پیراگراف کو ہمارلبرل طبقہ وہ تنکا سمجھتا ہے جس سے اُن کے ڈگمگاتے سفینۂ شوق کو کچھ سہارا مل سکتا ہے۔ہمارے ایک سینئر کالم نگار جن کی تجزیہ نگاری کا میں کئی دہائیوں سے مداح ہوں اور اُن کی زندہ دلی کا قدردان ہوں البتہ اُن کے ایپی کیورین فلسفۂ حیات سے اختلاف رکھتا ہوں‘ وہ اپنے ایک تازہ کالم میں لکھتے ہیں کہ ''پورے کرئہ ارض میں شاید ہمارا وہ واحد ملک ہے جو اب تک اپنے مقصد کی تلاش میں ہے کہ پاکستان کیوں بنا‘ اس کے بننے کا مقصد کیا تھا؟‘‘ اس ''لاعلمی‘‘ یا تغافلِ عارفانہ پر میں مسکرا ہی سکتا ہوں اور پاسِ ادب ملحوظ رکھتے ہوئے صرف اتنا عرض کروں گا کہ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔
قائداعظم نے تقسیم ہند سے پہلے کم از کم ایک سو تقاریر اور نئی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد چودہ پندرہ مرتبہ قیام پاکستان کا مقصد واضح کیا تھا۔ میں صرف دو تین مثالیں دوں گا : 25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا ''ہمیں فخر ہے کہ اسلام محض ایک مذہب نہیں بلکہ ایک مکمل نظامِ زندگی ہے۔ اس میں قوانین بھی ہیں‘ فلسفۂ حیات بھی ہے۔ اسلام ہمیں آزادی‘ مساوات اور انصاف کا درس دیتا ہے‘‘۔ یکم جولائی 1948ء کو سٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ''آپ بینکاری کے ایسے طریقے اختیار کریں جو معاشرتی و اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے بے شمار مسائل پیدا کر دیئے ہیں۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی اسلامی معاشی نظام پیش کرنا ہے۔ ایسا کر کے ہم بحیثیت مسلمان اپنا مشن پورا کریں گے‘‘۔ قراردادِ مقاصد میں قائداعظم کے انہی فرامین کو سرکاری پالیسی قرار دے دیا گیا۔ پھر قیامِ پاکستان کے مقصد کو 1956ئ‘ 1962ء اور اب نہایت وضاحت و صراحت کے ساتھ 1973ء کے آئین میں بیان کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ سوچنا درست نہیں کہ ہم اپنے مقصد کی تلاش میں ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں۔ پاکستان وہ ملک ہے کہ جس کے مقاصد کا تعین اُس کی تخلیق سے بھی پہلے ہو چکا تھا۔ قائداعظم نے اپنے زندگی کے آخری ایام میں ان مقاصد کی تجدید کی کہ جن مقاصد کا انہوں نے اور ان کی جماعت مسلم لیگ نے 1937ء سے لے کر 1947ء تک بار بار تذکرہ کیا تھا۔ فروری 1948ء میں قائداعظم محمد علی جناح نے امریکی ریڈیو پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ جمہوری آئین ہو گا جس کی جڑیں اسلامی اصولوں اور قوانین میں ہوں گی۔ ہم قومی اور عالمی امور میں راستبازی کے حامی ہیں‘‘۔ 21 فروری 1948ء کو قائداعظم نے ملیر میں فوجی رجمنٹوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ''تمہیں اسلامی جمہوریت کی ترقی اور حفاظت کے لیے کام کرنا ہے۔ اسی طرح اپنے وطن میں لوگوں کو اسلامی معاشرتی انصاف فراہم کرنے کے مواقع سب کے لیے بہم پہنچانے ہیں‘‘۔ یکم جولائی 1948ء کو انہوں نے سٹیٹ بینک کی تقریب میں کہا کہ یہاں اسلامی معیشت ہو گی۔ اب دیکھئے کہ 11 اگست 1947ء کی قائداعظم کی مذہبی رواداری کے بارے میں کہے گئے دو چار زوردار جملوں سے اُن کی اگلی پچھلی ساری کمٹمنٹس اور تقاریر کو پس پشت ڈال کر جس سیکولرازم کو برآمد کیا گیا تھا اس کا ادنیٰ شائبہ بھی ہمیں اُن کی وفات تک کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ قائداعظم کے آخری ایام کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہاں اسلامی جمہوریت ہو گی‘ یہاں اسلامی معیشت ہو گی‘ یہاں اسلامی بینکاری ہو گی‘ یہاں اسلامی معاشرتی عدل و انصاف ہو گا‘ یہاں اسلامی شریعت ہو گی اور یہاں اسلامی نظامِ زندگی رائج ہو گا اور یہاں اقلیتوں کو بھی مساوی شہری حقوق حاصل ہوں گے۔
ہمارے لبرل دوستوں کو خبر ہو کہ اُن کے پسندیدہ شبستانوں سے منسلک روشنیاں کسی رجعت پسند حکمران نے نہیںبلکہ ایک لبرل حکمران ذوالفقار علی بھٹو نے گُل کی تھیں۔ پاکستان کے اسلامی مقاصد کا تعین قائداعظم محمد علی جناح بنفسِ نفیس کر گئے تھے۔ ان مقاصد کا عکسِ جمیل ہمیں 1973ء کے آئین میں نظر آتا ہے‘ اس لیے ہمارا ملک اپنے مقصد کی تلاش میں نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں