طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی

اگرچہ جناب عمران خان کے ساتھ ایک ابتدائی ملاقات برادرِ مکرم احسن رشید کے ہمراہ جدہ میں ہو چکی تھی مگر اُن کے ساتھ ون آن ون پہلی تفصیلی ملاقات غالباً 2005ء میں پارلیمنٹ لاجز اسلام آباد میں ہوئی۔ اس ملاقات میں خان صاحب مجھے سادگی، بے ساختگی اور بے تکلفی کا شاہکار نظر آئے۔
گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو زلفِ یار کی طرح دراز ہوتا چلا گیا اور وہ خوابوں پر خواب بُنتے گئے جنہیں میں ستاروں کی طرح اپنی پلکوں میں سجاتا رہا۔ اس دلچسپ گفتگو کے دوران اچانک چونک کر خان صاحب نے کہا: معاف کریں نمازِ عصر جارہی ہے، میں ادا کر لوں۔ اُن دنوں میرا بسیرا بھی پارلیمنٹ لاجز میں ہی تھا اور میں نمازِ عصر ادا کرکے خان صاحب کے پاس گیا تھا۔ خان صاحب ننگے پائوں بھاگتے ہوئے غسل خانے میں گئے‘ جلدی جلدی وضو کیا اور منہ ہاتھ خشک کرنے کے کسی تکلف میں پڑے بغیر جائے نماز پر کھڑے ہو کر اللہ اکبر کہا اور نماز کی نیت باندھ لی۔ اُن کا بے ساختہ اندازِ مسلمانی دیکھ کر میں مزید متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ نماز ادا کرنے کے بعد واپس آکر خان صاحب نے وہیں سے سلسلۂ گفتگو جوڑ دیا جہاں وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ اس گفتگو میں پاکستانی سیاست، لیڈرشپ، مغرب بالخصوص انگلستان کی جمہوری و پارلیمانی روایات وغیرہ زیر بحث آئے۔ عمران خان نے ایک ایسے خوشحال پاکستان کی منظرکشی کی جس میں ریاست مدینہ کا انصاف، اقبال کی روحِ انقلاب، قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت اور انگلستان کی درخشاں جمہوری روایات ہمارے لیے آئیڈیل کی حیثیت رکھیں گی۔ انہی دنوں اسلام آباد میں خان صاحب سے کئی اور ملاقاتیں ہوئیں جن میں اس پہلی ملاقات کا نقش گہرا ہوتا چلا گیا۔ بے تکلف دوست فاروق گیلانی مرحوم، کہ جو اُن دنوں اسلام آباد میں ایڈیشنل سیکرٹری فنانس تھے، سے خان صاحب کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا تو فاروق نے کہا: حسین! اتنی جلدی نتیجہ نہ نکالو اور مزید غور کرو‘ ہم نے یہاں اسلام آباد میں لیڈروں کو کئی رنگ بدلتے دیکھا ہے۔ ویسے بھی آفاقی حقیقت یہ ہے کہ'بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے‘
پاکستانی سیاست آگے بڑھتی گئی اور خان صاحب کی پارٹی کا سفینہ ڈوب ڈوب کر اُبھرتا رہا۔ 2002ء والی اسمبلی میں اپنی پارٹی کی طرف سے وہ پارلیمنٹ میں اکلوتے رکن اسمبلی تھے۔ 2018ء کے انتخابات تک ہم اخبار، ٹی وی، سیمینارز غرضیکہ ہر فورم پر خان صاحب کی اسلام پسندی، جمہوریت نوازی، میڈیا کیلئے آزادی اور غریب کی دلجوئی کے گن گاتے رہے؛ تاہم برسراقتدار آنے کے بعد خان صاحب نے جس تیزی سے مایوس کیا ایسا گزشتہ نصف صدی میں کسی اور نے نہ کیا تھا۔ 
2014ء ابھی کل کی بات ہے۔ اُس وقت خان صاحب نے دھرنا دیا، وہ 2013ء کے انتخابات میں منتخب ہونے والی حکومت کو جارحانہ انداز میں للکارتے، اسے گرانے کے لیے ہر اقدام کر گزرنے کی باتیں اور ملکی قوانین سے بغاوت کا اعلان کرتے رہے‘ مگر آج وہ جارحانہ انداز تو دور کی بات اپوزیشن کو پُرامن جلسوں کا حق بھی دینے کو تیار نہیں۔ گویا ان کے لینے کے باٹ اور، اور دینے کے باٹ اور ہیں۔ خان صاحب کے نادان دوست انہیں اطلاعات غلط اور مشورے خوشامدانہ دیتے ہیں۔ اپوزیشن کے گوجرانوالہ جلسے کو روکنے کیلئے انہوں نے دوغلی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ سننے میں آیا کہ پولیس گوجرانوالہ کے مسلم لیگی کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مار رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے گوجرانوالہ کے لیگی کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے گھروں پر نہ سوئیں۔ کالم لکھنے کے دوران ہی یہ اطلاع ملی ہے کہ حکومت نے بالآخر گوجرانوالہ سٹیڈیم میں پی ڈی ایم کو جلسہ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ یقیناً ایک دانش مندانہ فیصلہ ہے۔ لوگ مہنگائی اور بجلی و گیس کے بلوں سے اتنے دلبرداشتہ اور پریشان ہیں کہ انہیں اپنی آہ و فغاں بلند کرنے کے لیے جو فورم بھی ملے گا اس میں شامل ہو جائیں گے۔ پی ڈی ایم کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ گوجرانوالہ کا یہ جلسہ اُن کی تحریک کا درخشندہ ستارہ بن جائے گا اور اس کے بعد کراچی اور لاہور کے جلسے گوجرانوالہ سے بھی کہیں بڑھ کر ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ لاہور سے گوجرانوالہ تک لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہو گا۔ مولانا نے اسٹیبلشمنٹ سے کہا ہے کہ وہ درمیان سے ہٹ جائے تاکہ لوگ اس نااہل حکومت سے جلد سے جلد چھٹکارا حاصل کر سکیں۔ ہمیں کسی دانشمند نے بتایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کچھ دنوں کے لیے نیوٹرل ہو جائے گی تاکہ وہ خان صاحب کی گرتی ہوئی مقبولیت اور اپوزیشن کے دعووں کی صداقت کا موازنہ کر سکے۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں لاہور، راولپنڈی اور ملتان وغیرہ کو چھوڑ کر پہلے جلسے کرنے کیلئے اور اپنی دھاک بٹھانے کیلئے اور دوسرے صوبوں کے قائدین کے سامنے اپنی عوامی شان و شوکت کا مظاہرہ کرنے کیلئے گوجرانوالہ کا انتخاب کیوں کیا ہے؟ یہ جماعت گوجرانوالہ کو اپنا گڑھ سمجھتی ہے۔ گوجرانوالہ سے اس کے رکن اسمبلی خرم دستگیر کے والد غلام دستگیر بھی یہاں سے رکن اسمبلی تھے اور وفاقی وزیر رہے۔ نون لیگی حلقوں کے مطابق گوجرانوالہ کے شہری اس پارٹی پر ہمیشہ ووٹ اور نوٹ نچھاور کرتے رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف کے دور میں لاہور کے بعد جس شہر میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام ہوا وہ گوجرانوالہ ہے اسی لیے مسلم لیگ (ن) نے اس شہر کا پہلے جلسے کیلئے انتخاب کیا ہے۔
پی ٹی آئی کی اتنی تیزرفتار ناکامی کا سبب کیا ہے؟ اس کے ایک نہیں بہت سے اسباب ہیں۔ ایک سبب یہ ہے کہ خان صاحب کا خیال تھا‘ کسی بھی طریقے سے اقتدار اُن کے ہاتھ میں آ گیا تو وہ الٰہ دین کا چراغ ثابت ہو گا جس کے ذریعے وہ راتوں رات ایک خوشحال نیا پاکستان بنا دیں گے۔ خان صاحب کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ ایک ملک کی حکمرانی کتنا بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ جوں جوں اُنہیں اقتصادی، سیاسی اور دیگر شعبوں میں ناکامی ہوتی گئی توں توں خان صاحب فسطائی حربوں اور ہتھکنڈوں میں ہولناک اضافہ کرتے چلے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت ملک اقتصادی لحاظ سے صفر پر آ گیا ہے۔ سفارتی لحاظ سے خان صاحب نے روایتی بھائیوں سعودی عرب اور یو اے ای سے تعلقات بگاڑ لیے ہیں، کشمیر کے 80 لاکھ حریت پسند جانباز گزشتہ سوا سال سے اپنے ہی ملک میں محصور و مجبور ہیں جن کیلئے خان صاحب نے کچھ خاص نہیں کیا۔ اس دوران جناب عمران خان نے کسی کام پر توجہ نہیں دی سوائے اپوزیشن جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو اپنے تئیں سبق سکھانے کے۔ خان صاحب ابھی تک کسی کرپٹ سیاست دان سے ایک پائی تک وصول نہیں کر سکے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ملک کو اقتصادی و سفارتی سطح پر زبردست بحران سے دوچار کرنے کے باوجود خان صاحب آج بھی کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ اپوزیشن سے مفاہمت نہیں کروں گا۔ خان صاحب کسی ایک جمہوری ملک کا نام بتا دیں جہاں کوئی حکومت اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کیے بغیر چل سکی ہو۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق وہی پرانے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں جو پچھلی حکومتیں کرتی رہی ہیں۔ جاتی امرا کو سیل کیا جا رہا ہے، وہاں کنٹینر پہنچ چکے ہیں۔ لاہور پولیس کا کیا کام ہے کہ وہ سیاست دانوں کو انتباہ کرے اور ٹرانسپورٹروں کو بسیں نہ دینے کی ہدایات دے۔ یہی کچھ تو پرانے پاکستان میں ہوتا رہا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ خان صاحب کے نئے پاکستان میں کمر توڑ مہنگائی کے علاوہ کچھ نیا نہیں۔ 
طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں