مولانا فضل الرحمن سے تازہ ترین ملاقات

گوجرانوالہ کے جلسے کے اگلے روز لاہور میں مولانا فضل الرحمن سے میری ون آن ون تفصیلی ملاقات ہوئی۔ علیک سلیک کے بعد میں نے مسکراتے ہوئے مولانا سے پہلا سوال ہی یہ پوچھا کہ'' کیا مولانا آ رہا ہے‘‘؟ مولانا نے روایتی شگفتگی سے کام لیتے ہوئے جواب دیا کہ یہ تو اللہ کو معلوم ہے‘ فی الحال تو مولانا لوگوں کے پاس جا رہا ہے۔ مولانا نے کہا کہ پاکستان کی ساری چھوٹی بڑی پارٹیوں کے مرکزی قائدین عوام کے پاس حاضر ہو رہے ہیں تاکہ انہیں احساس ہو کہ کوئی تو اُن کا پرسانِ حال ہے۔ پھر ہمارے بارے میں یہ عوامی عدالتِ انصاف جو فیصلہ صادر کرے گی وہ ہمیں دل و جان سے منظور ہو گا۔میں نے عرض کیا: مولانا گوجرانوالہ کی پہلی عوامی عدالت نے کیا فیصلہ صادر کیا ہے؟ مولانا نے کہا کہ بلامبالغہ گوجرانوالہ کا عوامی اجتماع ایک تاریخی جلسہ تھا‘ لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا‘ البتہ جلسے کی توقیت اور تنظیم و ترتیب کے بارے میں ہمیں پہلے سے غوروفکر کرلینا چاہئے تھا۔ میں نے عرض کیا کہ مرکزی قائدین کی تقاریر نصف شب کے بعد شروع ہوئیں‘ اُس وقت تک لوگ تھک چکے تھے اور گھروں میں ٹیلیویژن دیکھنے والے سو چکے تھے۔ مولانا نے میری بات سے اتفاق کیا اور پی ڈی ایم کے اگلے جلسوں کو بروقت شروع کرنے کی منصوبہ بندی کا ذکر کیا۔ 
مولانا اپنے اسلاف کی تصویر ہیں۔ نشست و برخاست میں وہ اپنے والد مولانا مفتی محمود کے طریقے پر کاربند ہیں۔ ابھی تک وہ فرشی نشست کا اہتمام کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن جلسوں میں قادرالکلامی کے ساتھ‘ بغیر کسی ابہام کے‘ مدلل انداز میں بات کرتے ہیں۔ وہ اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کسی مداہنت یا معذرت سے کام نہیں لیتے تاہم وہ کٹر سے کٹر سیاسی مخالفین کا ذکر بھی عزت و احترام سے کرتے ہیں اور کبھی کسی شخص پر کوئی ذاتی حملہ نہیں کرتے۔ مولانا سے ہماری پرانی یاداللہ ہے اسی لیے کسی قسم کے تحفظات اور تکلف کے بغیر بات چیت ہوتی ہے۔ میں نے مولانا سے عرض کیا کہ آپ اور پاکستان کی بڑی جماعتیں کیا ایک پیج پر ہیں؟ مولانا نے کہا: اب تمام پارٹیاں یکسو اور یک جان ہیں۔ ہمارے درمیان پاکستان کی سلامتی‘ یک جہتی‘ جمہوریت کی بقا‘ دستور کے تحفظ اور عوامی مصائب و مشکلات کے مستقل حل کیلئے مکمل اتفاق موجود ہے۔ اب کسی کے راستے سے لوٹ جانے کا کوئی امکان نہیں۔
عرض کیا: مولانا! آپ کو گزشتہ برس یہی جماعتیں اسلام آباد میں اکیلا چھوڑ کر غائب ہو گئی تھیں اور خود آپ بھی اپنے اہداف و مقاصد کو حاصل کیے بغیر وعدئہ فردا پر اسلام آباد سے دھرنا ختم کر کے واپس لوٹ گئے تھے۔ میں نے کہا کہ مولانا! یہ ''وعدئہ فردا‘‘ کیا تھا؟ مولانا نے کہا کہ چودھری برادران نے ہمیں اُس وعدے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ ہم نے اسی ''یقین دہانی‘‘ پر دھرنا ختم کیا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ مولانا کیا یہ ''یقین دہانی‘‘ ابھی تک موجود ہے؟ میرے اس سوال کے جواب میں مولانا طرح دے گئے اور انہوں نے محض مسکرانے پراکتفا کیا۔میں نے عرض کیا کہ مولانا! ایم ایم اے کا قیام دین پسند حلقوں کے خواب کی تکمیل تھا۔ 2002ء کے انتخابات میں اس دینی اتحاد کو تاریخی کامیابی ملی اور ایم ایم اے قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی صورت میں نمایاں ہو کر سامنے آیا‘ تاہم پھر ایم ایم اے کی یہ شان و شوکت دیکھنے میں نہ آئی۔ اس کا سبب کیا ہے؟ مولانا نے کہا کہ ہمارا طریقہ ہے کہ ہم کسی دینی جماعت پر ہرگز تنقید نہیں کرتے۔ میں اُس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کا دل و جان سے احترام کرتا تھا جو اُن کی وفات کے بعد بھی قائم ہے۔ قاضی صاحب نے ایم ایم اے کی تشکیل میں نہایت اہم کردار ادا کیا تھا۔ سراج الحق صاحب میرے بھائی ہیں۔ میں ایم ایم اے کے جوش و خروش کے ماند پڑنے کے اسباب میں نہیں جائوں گا۔ البتہ میں آج بھی دینی جماعتوں کے اتحاد کی پہلے کی طرح ضرورت محسوس کرتا ہوں۔ آئے روز فرقہ پرستی کا کوئی نہ کوئی شوشہ اور فتنہ سر اٹھاتا رہتا ہے۔ ایسے فتنوں کی سرکوبی کے لیے دینی جماعتوں کا اتحاد ازبسکہ ضروری ہے۔
مولانا سے ہونے والی ملاقات کی روشنی میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی کامیابی کا جائزہ لیتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کیلئے گوجرانوالہ کا انتخاب کر کے مسلم لیگ (ن) نے آدھا معرکہ تو سر کر لیا تھا۔ یہ شہرہی نہیں سارا علاقہ مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے۔ مریم نواز جاتی امرا سے نکلیں تو رائے ونڈ روڈ کے اڈا پلاٹ تک آتے آتے اُن کے ساتھ سینکڑوں گاڑیاں اور ہزاروں افراد تھے۔ راستے میں جگہ جگہ اُن کی گاڑی پر گل پاشی ہوتی رہی۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمن فیروز پور روڈ لاہور کے جامعہ اشرفیہ سے نکلے تو ان کا بھی جگہ جگہ استقبال ہوا۔ راستے بھر لوگوں کا جوش و خروش دیدنی تھا جو گوجرانوالہ کے سٹیڈیم میں اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ چکا تھا۔ بعض لوگوں کو پی ڈی ایم کی یہ پہلی ریلی آندھی اور طوفان تو لگی مگر بھونچال محسوس نہ ہوئی۔ ہر کسی کی اپنی اپنی رائے ہے مگر یہ تاریخی جلسہ کسی ''بھونچال‘‘ سے کم نہ تھا۔ اس کا اندازہ اگلے روز کنونشن سنٹر اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کے ردعمل سے لگایا جا سکتا ہے۔ خان صاحب نے کہا کہ میں اب ایک نیا عمران خان بنوں گا اور اپنے ماتحت اداروں کے ذریعے چوروں کو پکڑوں گا اور سزا دلوائوں گا۔ انہیں عام جیلوں میں ڈالوں گا۔ عمران خان ''میں‘‘ کو بار بار دہراتے ہوئے یہ حقیقت نظرانداز کر گئے کہ وہ مغل اعظم نہیں منتخب وزیراعظم ہیں۔ وہ تاریخ کا یہ سبق بھی بھول گئے کہ اس سے پہلے ''میں‘‘ کا کیا حشر ہوتا رہا ہے۔ اس جوشِ خطابت میں وہ یہ بھی کہہ گئے کہ خواجہ آصف الیکشن ہار رہا تھا اس نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کیا کہ کچھ کیجئے۔ خواجہ آصف اپنی سیٹ جیت گئے۔ ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ 
گزشتہ روز 18 اکتوبر کو مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کراچی کے بہت بڑے جلسے سے نہایت ٹھہرے ہوئے لب و لہجے میں نپے تلے الفاظ استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم کے دو روز پہلے لگائے گئے ایک ایک الزام اور ایک ایک دھمکی کانہایت مدلل جواب دیا۔ مریم نواز نے ایک بڑی پتے کی بات کی کہ یہ وزیراعظم جب بھی مخاطب ہوتا ہے حزب اختلاف سے مخاطب ہوتا ہے‘ مسلم لیگ (ن) سے مخاطب ہوتا ہے یا میاں نواز شریف سے مخاطب ہوتا ہے۔ وہ اس عوام سے مخاطب نہیں ہوتا کہ جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اُن کے ووٹوں سے منتخب ہوا ہے۔ مریم نواز نے کمرتوڑ مہنگائی‘ صنعتوں کی تباہی‘ گندم اور چینی کی چوری‘ معیشت کی بربادی اور کشمیریوں کی زبوں حالی کا ذمہ دار اس حکومت کو قرار دیا۔ مریم نواز نے عوام اور اداروں پر واضح کیا کہ یہ فوج ہماری ہے‘ 22 کروڑ عوام کی ہے‘ ہم فوج کے شہیدوں اور جوانوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ہمارا فوج کے کسی ادارے سے کوئی اختلاف نہیں۔ افراد سے اختلاف ہو سکتا ہے۔
کراچی کے بہت بڑے جلسے سے بلاول بھٹو نے بھی سلجھا ہوا خطاب کیا۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کراچی میں ایک نہایت اہم بات کی کہ موجودہ دور میں کسی ریاست کے استحکام کیلئے مضبوط معیشت بے حد ضروری ہے۔ اگر معیشت کی کشتی ڈوبتی ہے تو ملکی استحکام بھی ڈگمگانے لگتا ہے۔ مولانا نے عوام کو بتایا کہ جس معیشت کی آج شرح نمو 6.5 فیصد ہونی چاہئے تھی اسے اس حکومت نے 0.3 فیصد پر پہنچا دیا ہے۔ ہفتے کے روز لاہور میں ملاقات کے دوران مولانا کے عزم صمیم اور حق الیقین کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا تھا کہ وہ قافلۂ جمہوریت کی سپہ سالاری کا حق ادا کریں گے اور جمہوری تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں