ٹرمپ جیتے گا یا بائیڈن؟

اس مرتبہ امریکہ کے صدارتی انتخابات ایک عجیب شان سے ہو رہے ہیں۔ دوطرفہ الزامات و خدشات کو دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ امریکہ کے نہیں پاکستان کے انتخابات ہیں۔ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو دیکھ کر پہلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 3 نومبر کے انتخابات کو ملتوی کرنے کی تجویز دی۔ جب اُن کی دال نہ گلی تو انہوں نے یہاں تک کہنا شروع کر دیا کہ اگر میں نہ جیتا تو یقینا دھاندلی ہو گی اور میں انتخابی نتائج مسترد کر دوں گا۔ اس طرح کی باتیں امریکہ کی تقریباً اڑھائی سو سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کی گئی ہیں۔ امریکہ میں تو خانہ جنگی کے دوران بھی حسبِ پروگرام انتخابات ہوتے رہے ہیں۔ خیال یہ کیا جا رہا تھا کہ کورونا کی بنا پر اس بار ٹرن آئوٹ کم رہے گی مگر اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ 3 نومبر کے پولنگ ڈے سے پہلے شروع ہونے والی ووٹنگ اور ڈاک سے آنے والے ووٹوں کی بنا پر اب یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ امریکی انتخابات کی ٹرن آئوٹ بہت زیادہ ہو گی۔ 
اس وقت تک کیے جانے والے پری الیکشن پولز کے مطابق ڈیموکریٹک امیدوار جوبائیڈن سبقت لے جا رہے ہیں۔ ضروی نہیں کہ یہ سروے اور میڈیا رپورٹیں درست ثابت ہوں۔ تفصیل میں جانے سے پہلے امریکی انتخابی نظام کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ امریکی صدارتی الیکشن کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ووٹرز صدر کو براہِ راست منتخب کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک الیکٹورل کالج کا انتخاب کرتے ہیں جس کے ووٹوں سے صدر کا چنائو ہوتا ہے۔ یہ الیکٹورل کالج کیا ہے؟ اگر صرف براہِ راست ووٹوں پر انحصار کیا جاتا تو پھر صدارتی انتخابی مہم چند بڑی ریاستوں تک محدود رہتی اور چھوٹی ریاستیں نظرانداز کر دی جاتیں۔ سارے امریکہ میں 538 الیکٹورل ممبران منتخب کیے جاتے ہیں۔ ہر ریاست کی آبادی کے مطابق اسے ممبران الاٹ کیے گئے ہیں۔ بڑی ریاستوں میں پہلے نمبر پر کیلیفورنیا ہے جس کے ممبران کی تعداد 55 ہے۔ دوسرے نمبر پر ٹیکساس ہے جس کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 38 ‘نیویارک 29 ‘فلوریڈا 29‘ پینسلوینیا 20 اور النائے کے بھی 20 ممبران ہیں۔ بعض چھوٹی ریاستوں کے صرف تین تین ووٹ ہیں۔ ان ووٹوں کے حصول کا طریقِ کار ذرا پیچیدہ ہے۔ برسبیل مثال اگر ڈیموکریٹس ریاست کیلیفورنیا کے 55 رکن الیکٹورل ووٹوں میں سے 30 پر کامیابی حاصل کر لیتے ہیں اور ری پبلکن 25 سیٹیں حاصل کر لیتی ہے تو ڈیموکریٹس کو کیلیفورنیا کے تمام 55 الیکٹورل ووٹ مل جائیں گے اور یہاں سے ری پبلکن کو کوئی ووٹ نہیں ملے گا۔ وعلیٰ ہذا القیاس۔ صدر منتخب ہونے کیلئے امیدوار کو 538 میں سے کم از کم 270 ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ 2016ء کے انتخابات میں ہیلری کلنٹن کے ڈونلڈ ٹرمپ سے پاپولر ووٹ 30 لاکھ زیادہ تھے مگر اسے538 کے الیکٹورل کالج میں سے 227 ووٹ ملے جبکہ ٹرمپ 304 لے کر کامیاب ہو گیا۔
اس وقت تمام پری پول سروے رپورٹوں کے مطابق 74 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ ہر گزرتے دن تیزی سے اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں جبکہ 77 سالہ جوبائیڈن کوئی کرشماتی شخصیت نہ ہونے کے باوجود ووٹروں میں بہت مقبول ہو رہے ہیں۔ مسلم امریکی ڈونلڈ ٹرمپ سے‘ اس کی مسلم مخالف پالیسیوں کی بنا پر ناخوش ہیں۔ مسئلہ کشمیر حل کرانے کیلئے ٹرمپ نے بار بار ثالثی کی پیشکش کی تھی مگر عملاً کیا ہوا؟ مودی حکومت کی بدترین ظالمانہ کارروائیوں اور قتل و غارتگری کی بنا پر کشمیری محصور اور مجبور کر دیئے گئے ہیں اور انہیں اُن کے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ ساری دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا چیمپئن ہونے کے دعویدار امریکی صدر نے اس بارے میں کوئی کردار ادا نہ کیا اور بھارت نے من مانی کر کے کشمیر کی مخصوص حیثیت بھی ختم کر دی۔ اسی طرح ٹرمپ نے القدس میں اپنا سفارت خانہ کھول کر اور فلسطینی ریاست قائم کیے بغیر عربوں پر دبائو ڈال کر اُن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی روابط قائم کروا دیئے ہیں۔ امریکہ میں کئی مسلمان ملکوں میں ویزے کا اجرا بھی بند کر دیا ہے۔ امریکی مسلمانوں کی اکثر تنظیموں نے ڈیموکریٹک امیدوار جوبائیڈن کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ میں پاکستانیوں کی اکثریت نے بھی اپنی تنظیموں کے ذریعے بائیڈن کی ہی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح پاکستانی امریکنز نے بھی بائیڈن کی حمایت کا ہی فیصلہ کیا ہے۔ بائیڈن نے مسلمانوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہیں یقین دہانی کرائی کہ اُن کے حقوق کا بھرپور خیال رکھا جائے گا اور مسلمان امریکیوں کو میں اپنی انتظامیہ میں شامل کروں گا۔ بائیڈن نے اپنی تقریر کا اختتام حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اس حدیث پر کیا کہ اگر تم برائی دیکھو تو اسے ہاتھ سے روکو‘ اگر ایسا نہ کر سکو تو اسے زبان سے روکو اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسے دل سے برا جانو اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ بائیڈن کی مراد یہ تھی کہ آپ صدارتی انتخاب میں جسے ''برائی‘‘ سمجھتے ہیں اس کے خلاف ووٹ دے کر اسے روکیں۔ 
میں نے اپنے طور پر ایک سروے کیا ہے۔ سب سے پہلے میں نے ایک بڑی ریاست پینسلوینیا میں اپنے کزن ڈاکٹر عظمت کو فون کیا۔ ڈاکٹر عظمت کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشن شپ پٹس برگ کے صدر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حیران کن بات یہ ہے کہ بہت سے روایتی ری پبلکن ووٹرز علی الاعلان ٹرمپ کے خلاف اور جوبائیڈن کے حق میں ووٹ دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر عظمت پٹس برگ کے جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں امریکی گورے رہائش پذیر ہیں جن کی اکثریت کا تعلق ری پبلکن سے ہے۔ انہوں نے گھر کے باہر لکھ کر لگایا ہوا ہے ووٹ فار بائیڈن۔ بوسٹن میں اپنے دوست قاضی خالد احمد سے رابطہ کیا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے یہ دوست بہت اچھا سیاسی شعور رکھتے ہیں۔ وہ ان پاکستانی امریکنز میں سے ہیں جو بیک وقت پاکستان اور امریکی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً تبصرے بھی کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ اکثر مسلمان اور نوے فیصد سے زیادہ پاکستانی بائیڈن کو ووٹ دے رہے ہیں۔ ہیوسٹن میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے صاحبزادے حسین فاروق مودودی سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ بہت سے پاکستانی امریکن ری پبلکن کی مذہب نواز پالیسیوں کی بنا پر اس کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ مگر ٹرمپ کی مسلم مخالف اور بھارت نواز پالیسیوں کی بنا پر ہم اس کے خلاف ووٹ دیں گے۔ میں نے اپنے گھر کے باہر بینر آویزاں کر دیا ہے جس پر لکھا ہے ''ری پبلکن جوبائیڈن کو ووٹ دے گا‘‘۔افضل مرزا 1970ء کی دہائی میں ایک طالبعلم لیڈر کے طور پر معروف تھے۔ آجکل وہ ہیوسٹن میں ہیں اور امریکی سیاست میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔ اُن کی ڈونلڈ ٹرمپ سے براہِ راست اچھی شناسائی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک تھنک ٹینک Rise کے حوالے سے تفصیلی تجزیہ پیش کیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس بار پہلے سے بھی بھاری اکثریت سے جیتے گا۔
اگرچہ الیکشن پولز اور امریکی میڈیا دونوں بائیڈن کی کامیابی کی نوید سنا رہے ہیں تاہم ایسی پیش گوئی تو پچھلی مرتبہ ہیلری کلنٹن کے حق میں بھی پورے تیقن کے ساتھ کی گئی تھی۔ ہیلری کی شکست کے اور بھی کئی اسباب تھے جن میں سے ایک دلچسپ سبب یہ تھا کہ امریکی خواتین کی اکثریت اور بہت سے روایت پسند امریکیوں نے ہیلری کو ووٹ نہ دیا تھا جبکہ بائیڈن کو کوئی پسند کرے یا نہ کرے مگر اسے ناپسند کوئی نہیں کرتا۔ وہ آٹھ برس تک باراک اوباما کے ساتھ نائب صدر رہے اور اُن کی بودوباش بہت سادہ تھی۔ حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ غالب گمان یہی ہے کہ ڈیموکریٹ امیدوار جوبائیڈن جیت جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں