جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا

حکمران تو جلتی پر پانی چھڑکتے ہیں مگر یہ کیسا حکمران ہے جو جلتی پر مسلسل تیل چھڑک رہا ہے۔ وہ پوری ڈھٹائی سے ایک غلط مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ میں کسی ایسے سیکولرازم کو نہیں جانتا جس کا مطلب مذہب دشمنی ہو۔ سیکولرازم تو احترام آدمیت کی بات کرتا ہے، احترام انسانیت کا درس دیتا ہے اور باہمی احترام کی تلقین کرتا ہے۔ سیکولرازم مختلف مذاہب کے درمیان غیرجانبداری اور لاتعلقی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ فرانس والٹیئر کا ہو یا ژاں پال سارترے کا اس میں کسی مذہب کے خلاف یوں محاذآرائی اور صف بندی کا کوئی تصور نہیں۔ فرانسیسی صدر میکرون کا کسی عظیم ترین ہستی کے خلاف معاندانہ رویہ قابل مذمت ہے۔ 
ساری مسلم دنیا میں کسی نہ کسی سطح پر احتجاج ہو رہا ہے اور فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں فرانس کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا اور احتجاجی مراسلہ دیا گیا۔ ہماری قومی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت نے فرانس سے اپنے سفیر کو واپس بلانے اور صدرِ فرانس کے رویے پر شدید اظہارِ ناپسندیدگی پر زور دیا ہے۔ اس سے پہلے اس طرح کی گستاخیاں انفرادی سطح پر تو ہوتی رہی ہیں مگر کسی یورپی ریاست کے سب سے زیادہ اہم منصب پر فائز شخص کی طرف سے یوں مسلمانوں کی دل آزاری نہ کی گئی تھی۔ فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکوں کو عمارتوں پر چسپاں کرکے انتہائی غیرذمہ دارانہ قدم اٹھایا ہے۔ تبھی تو ترک صدر طیب اردوان نے فرانسیسی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ''ہوش کے ناخن لو‘ اسلام فاشزم ہے نہ نازی ازم، اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے‘‘۔ اسلام کا کسی دہشتگردی یا انتہا پسندی سے ناتہ جوڑنا کم علمی کے سوا کچھ نہیں۔ 
بعض پاکستانی دانشوروں کا خیال ہے کہ اتنی بڑی برآمدات والے فرانس کو مسلمانوں یا عربوں کے بائیکاٹ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ اُن کی خام خیالی ہے۔ عرب دنیا میں ہر سال اربوں ڈالر کا مال فرانس سے درآمد کیا جاتا ہے۔ اسی طرح پاکستان سے بھی فرانس کے مضبوط تجارتی روابط ہیں۔ فرانس کا مالی نقصان کم ہو یا زیادہ مگر اس کا سیاسی اور اخلاقی امیج ساری دنیا میں بری طرح مجروح ہورہا ہے۔ اصل بات وہی ہے جو وزیراعظم پاکستان نے کہی ہے کہ توہین رسالت پر اسلامی دنیا کے تمام قائدین کو متفق اور متحد ہونا چاہئے۔ اگر یہ متحد ہو کر ایک بات کہیں گے تو غرور سے اکڑی ہوئی گردنوں کو جھکنا پڑے گا۔ 1970ء کی دہائی میں شاہ فیصل مرحوم نے تیل کا ہتھیار استعمال کیا تھا جس کے بہت مثبت نتائج سامنے آئے تھے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج خود مسلمانوں کے دل آپس میں کٹے پھٹے ہوئے ہیں۔ آج کی دنیا میں مسلمانوں کے کئی ممالک میدانِ جنگ بنے ہوئے ہیں اور وہ بھی غیروں کے خلاف نہیں اپنوں کے خلاف۔ کہیں عرب و عجم ٹکراتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور کہیں ترکی و شام ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار دکھائی دیتے ہیں۔ یہودیوں کے ساتھ رشتے جوڑے جا رہے ہیں اور آپس میں ایمانی و قلبی رشتے توڑے جا رہے ہیں۔
آج مغرب کے بہت سے سلیم الطبع لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہو رہے ہیں۔ اسلام مغربی دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ گورے قرآن و رسالت کی نورانی تعلیمات سے بے حد متاثر ہو رہے ہیں۔ اگر اس کے ساتھ مسلمانوں کی عظمتِ کردار اور علمی مہارت بھی شامل ہو جائے تو سونے پہ سہاگہ ثابت ہو سکتی ہے۔ مغرب کو وہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے جو مئی 1840ء میں تھامس کارلائل نے Hero as a Prophet پر لیکچر دے کر سمجھائی تھی یا پھر 1978ء میں امریکی مصنف مائیکل ایچ ہارٹ نے زندگی کے مختلف شعبوں میں تاریخ ساز کردار ادا کرنے والے 100 افراد کی فہرست میں پہلے نمبر پر محسنِ انسانیت کا تذکرہ بطور مثالی حکمران کرکے اعترافِ حقیقت کیا تھا۔ مسلمانوں کو خود بھی ایک بار پھر مقامِ مصطفی سے کماحقہٗ آگاہ ہونے کی ضرروت ہے۔ آپؐ کا خلق عظیم صرف مسلمانوں کے لیے نہیں سارے جہان کے انسانوں کے لیے سرمایۂ افتخار ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کسی صحابی نے پوچھا تھا کہ جناب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق کیسا تھا؟ آپؓ نے فرمایا: تم نے قرآن نہیں پڑھا‘ اُن کا خلق قرآن پاک تھا۔ 
شورش کاشمیری نہ صرف ایک بے مثل خطیب تھے بلکہ وہ ایک قادرالکلام شاعر اور ادیب بھی تھے۔ اپنے ایک خطاب میں انہوں نے فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے ہوئے کہا ''ایک قرآن وہ ہے جو تیس پاروں میں بند ہے، جو اذانوں میں گونجتا، نمازوں میں دمکتا اور یاداللہ کی تنہائیوں میں مہکتا ہے، جو زاہدوں کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اور ایک قرآن وہ ہے جو تیرہ برس تک مکے کی گلیوں میں پھرتا اور پتھر کھاتا رہا۔ جس کی ریش مبارک پر خون کے قطرے جم جایا کرتے تھے، جس کے قدموں کی ایک ایک چاپ پر صدیقؓ، فاروقؓ، عثمانؓ اور علیؓ بچھے چلے جاتے تھے، جو سیّدہ فاطمۃ الزہراؓ کا باپ اور حسنینؓ کا نانا تھا‘‘۔مشہور شاعر ماہرالقادری مرحوم نے ایک بڑی پتے کی بات کہی ہے۔ یہی بات جب مغرب کے کسی جویائے حق کی سمجھ میں آتی ہے تو اعترافِ حقیقت کے طور پر احتراماً اس کی آنکھیں جھک جاتی ہیں۔ مغرب میں ایسا بارہا ہوتا آیا ہے اور آج بھی ہورہا ہے۔ اس نکتے کو جناب ماہرالقادری یوں بیان کرتے ہیں۔
تہذیب کی شمعیں روشن کیں اونٹوں کے چرانے والوں میں
کانٹوں کو گلوں کی قسمت دی ذروں کے مقدر چمکائے
محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ مخلوقِ عالم کے لیے رحمت و عافیت بن کر آئے تھے۔ 
مغرب بالخصوص یورپ میں حیاتِ طیبہ اور اسوۂ حسنہ کا پیغام عام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ طائف والوں نے آپؐ کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ تاریخ کا معروف اور دردناک باب ہے‘ لیکن اُن کے خلاف آپ نے بددعا نہ کی بلکہ اُن کی ہدایت کیلئے دعا مانگی۔ مکہ میں آپﷺ اور آپﷺ کے صحابہؓ کے خلاف کیا کیا ظلم و ستم نہ ڈھائے گئے۔ آپﷺ کو تین سال شعب ابی طالب میں اس طرح گزارنے پڑے کہ لوگ درختوں کے پتے اور گھاس کھانے پر مجبور ہو گئے۔ آپ کو ظلم و ستم کے ساتھ مکۃالمکرمہ سے نکال دیا گیا۔ مدینہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو جائے قرار ملی تو مشرکین مکہ تلملا اٹھے۔ مدینۃ النبیؐ پر بار بار حملے کیے گئے اور احد کے میدان میں جناب مصطفیﷺ کو شدید بدنی و ذہنی زخم لگائے گئے۔ آپ کے محبوب چچا سیدالشھدا حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب کی لاش کا مثلہ کیا گیا۔ آپ کے خلاف نیزے اور تلواریں ہی نہیں زبان درازیوں اور ہجو و تنقیص کا ہر حربہ آزمایا گیا۔ جس مکے میں سب کچھ ہوا، وہاں ایک مدت تک آپ کو حج اور عمرے کے لیے داخل نہ ہونے دیا گیا، اس مکۃالمکرمہ میں آپؐ رمضان 8 ہجری میں فاتح کی حیثیت داخل ہو رہے تھے۔ مکۃالمکرمہ سے باہر اسلامی لشکر کے ایک علمبردار سعد بن عبادہ جوشِ ایمانی سے پکار اٹھے آج خونریزی اور قتل کا دن ہے۔ آنحضورؐ تک یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ نہیں! آج کا دن خونریزی کا دن نہیں کعبہ کی تعظیم اور اہلِ مکہ کی عظمت کا دن ہے۔
آج 12 ربیع الاوّل 1442ھ جنابِ محمد مصطفیؐ کی ولادتِ باسعادت کا دن ہے۔ آج اس عظیم دن امت مسلمہ کو عہد کرنا چاہئے کہ وہ سیرت کے پیغام کو تمام دنیا بالخصوص مغرب میں عام کرے گی اور جناب احمد ندیم قاسمی کے الفاظ میں دنیا کو باور کرائے گی:
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں، جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں