انتباہ

زیادہ عرصہ نہیں گزرا‘ یہی کوئی تین چار برس پہلے کی بات ہوگی۔ میاں نواز شریف کے ایک بے تکلف دوست‘ انہیں ''حکمت‘‘ کی اہمیت سمجھا رہے تھے۔ میاں صاحب نے اس کے جواب میں کہا کہ کیا آپ مجھے جرأت مندی کے بجائے بزدلی کا درس دے رہے ہیں۔ نہیں‘ ہرگز نہیں میں آپ کو بتانے کی کوشش کر رہا ہوں کم بہادری اور بزدلی کے درمیان بڑی باریک لکیر ہوتی ہے جو صرف حکمت اور دانائی سے سمجھ میں آتی ہے‘ اُن کے دوست نے جواب دیا۔ میاں صاحب کے دوست نے چند آیات کے ذریعے حکمت کا قرآنی تصور بیان کرنے کی کوشش کی تو دینی پس منظر رکھنے والے میاں نواز شریف ہمہ تن گوش ہو گئے۔ انہوں نے نہایت غور سے اپنے دوست کی باتیں سنیں اور اُن سے اتفاق بھی کیا۔ مگر میاں صاحب نے فیصلہ اپنے جذبات کے مطابق کیا۔ میاں صاحب کے دوست نے اپنی گفتگو کا اختتام اس جملے پر کیا: میاں صاحب! اپنے جائز مقصد کے حصول کیلئے بھی ہوش کو جوش پر قربان نہ کریں۔ میں نے لفظ حکمت کا قرآنی مفہوم سمجھنے کی کوشش کی تو انتہائی مفید اور دلچسپ باتیں معلوم ہوئیں۔ اللہ نے یہ خاص نعمت اپنے پیغمبروں کو عطا کی۔ لفظ حکمت کا قرآن پاک میں متعدد بار ارشاد ہوا ہے۔ ایک جگہ رب ذوالجلال نے فرمایا کہ ''جسے حکمت عطا کی گئی گویا اسے خیر کثیرعطا کیا گیا‘‘۔ امام حمید الدین فراہیؒ نے بھی حکمت کے قرآنی تصور کی بہت وضاحت کی ہے۔ آج بھی میاں صاحب کو اس ''حکمت‘‘ کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی چند سال پہلے تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔ 
چار پانچ روز قبل قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی اور سابق سپیکر نے ایک سال پہلے رہاکئے گئے بھارتی پائلٹ ابھینندن کے حوالے سے کچھ باتیں کیں جن سے بھارتی میڈیا نے فی الفور بہت فائدہ اٹھایا۔ ایاز صادق صاحب کو جتنا میں جانتا ہوں اس کے مطابق تو وہ ایسے شخص ہیں جو اشتعال میں آتے ہیں نہ کوئی غیر ذمہ دارانہ بات کہنے کی اُن سے امید ہو سکتی تھی‘ مگر انہوں نے قومی اسمبلی کے فلور یہ بات کہتے ہوئے نہ سوچا کہ اس کے اثرات کہاں تک جا سکتے ہیں۔ وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے پلوامہ کے واقعے کا کچھ اسی انداز میں ذکر کیا گویا یہ ''بہادری‘‘ کا کام پاکستان نے کیا تھا۔اس سے بھی بھارت نے بہت فائدہ اٹھایا اور اگلے روز بھارتی وزیراعظم نریندر سنگھ مودی نے پلوامہ واقعے کا ''پاکستانی اعتراف‘‘ کے طور پر تذکرہ کیا۔ بھارتی میڈیا نے تو ایاز صادق کے الفاظ پر بہت شور مچایا مگرپاکستانی وزیراعظم سابق سپیکر کی زبان کی لرزش کو نظر انداز کرنے یا تنقید میں مدبرانہ طرز عمل اختیار کرنے کے بجائے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو میرصادق اور جعفر قرار دینے کے علاوہ ایاز صادق کو ''میر ایاز‘‘ کا خطاب دیا ہے۔ فواد چودھری نے پلوامہ کے بارے میں اپنے ریمارکس سے رجوع کرتے ہوئے یہ بھی وضاحت کی کہ ابھینندن کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ایاز صادق نے فوج کا نام نہیں لیا تھا۔ یقینا نہیں لیا تھا مگر انہیں شاہ محمود قریشی سے متعلقہ بات بھی واپس لے کر اس موضوع کو ختم کر دینا چاہئے تاکہ حکومت ا سے مزید ایکسپلائیٹ نہ کر سکے۔ پی ٹی آئی کی حکومت بات بے بات اپوزیشن کو غدّاری کے سرٹیفکیٹ بانٹتی رہتی‘ یہ رویہ انتہائی نامناسب ہے۔ پاکستان میں ایسا ہوتا آیا ہے۔ اس سے فائدے کے بجائے نقصان ہی ہوا ہے اور بہت بڑا نقصان۔ حکومت فوری طور پر غداری کی پٹاری بند کر دے۔
2002ء کی اسمبلی کے پانچ چھ برس کے دوران مجھے متعدد بار اسمبلی کے اجلاسوں کو براہ راست ایوان میں جا کر دیکھنے کا موقع ملا۔ اس اسمبلی کا معیار آج کی اسمبلی کے مقابلے میں بہت بلند تھا۔ روز اوّل سے جناب عمران خان نے کنٹینر والی گردان جاری رکھی ہوئی ہے کہ اپوزیشن والے چور اور ڈاکو ہیں ا ور اب فرماتے ہیں کہ پی ڈی ایم میں سب جیب کترے شامل ہو گئے ہیں۔ جناب وزیراعظم کبھی کنونشن سنٹر میں منہ پر ہاتھ پھیر کر کہتے ہیں اب میں انہیں نیا عمران خان بن کر دکھاؤں گا۔ خان صاحب سے ''نیا پاکستان‘‘ تو بن نہیں سکا اب وہ نیا عمران خان کیا بنیں گے۔ خان صاحب کے اس معیارِ تنقید کو اُن کے مراد سعید اور فیاض الحسن چوہان جیسے ترجمانوں نے خوشنودی امیر کی خاطر ایک ایسی پستی میں لا گرایا ہے جس سے پاکستان کی سیاست پہلے ناآشنا تھی۔
دونوں طرف کے بیانوں اور ترجمانوں کی بنا پر سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے۔ 1971ء کی ٹریجڈی کے بعد مجھ جیسے اس وقت کے نوجوان بہت دنوں تک حدّتِ جذبات میں جلتے رہے۔ نامنظور‘ نامنظور بنگلہ دیش نامنظور کی تحریک کا ہر اول دستہ نوجوان ہی تھے مگر یہ بعد از مرگ واویلا سے بڑھ کر کچھ نہ تھا۔ تب ہمیں خیال آتا تھا کہ الیس منکم اجل رشید کہ کیا ''ہمارے‘‘ درمیان کوئی معاملہ فہم اور مدبر شخص نہ تھا۔ مگر ہم نے اس سے کوئی سبق نہ سیکھا ‘جناب ذوالفقار علی بھٹو اس ٹریجڈی کے بعد آل پاور فل حکمران کی حیثیت سے منظر عام پر آئے۔ 1973ء کے نئے آئین کی تشکیل تک تو انہوں نے سیاست دانوں کے ساتھ مفاہمت کا رویہ رکھا اور دستور کے بننے کے بعد وہ من مانی اور مخالفین کو جیلوں میں بھیجنے اور اُن کے ساتھ وہاں انتہائی ناروا سلوک کرنے پراتر آئے۔ آگے جو کچھ ہے وہ سب تاریخ ہے۔ پھر جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں میاں نواز شریف نے بعض غیر حکیمانہ اقدامات کئے اور اس کا نتیجہ پھر ایک المیے کی صورت میں ہمارے سامنے آیا۔
پی ٹی آئی کی حکومت اڑھائی برس کے دوران ہر لحاظ سے ایک ناکام حکومت ثابت ہوئی ہے۔ مہنگائی فی الواقع بے حد و حساب ہے۔ 2018ء میں جو آٹا 35روپے کلو تھا آج 75روپے کلو ہے‘ چینی 55روپے کلو تھی آج 110روپے فی کلو ہے۔ اس کے علاوہ بے روزگاری عروج پر ہے۔ ان قیمتوں کے سامنے جناب وزیراعظم بے بس ہیں۔ اگر جناب عمران خان کا بس چلتا ہے تو مائیک کے سامنے اپوزیشن کو لتاڑنے پرچلتا ہے۔ خان صاحب برسر اقتدار آئے تو وہ برطانوی جمہوریت کے گن گاتے تھے اور ہر ہفتے پارلیمنٹ بنفس نفیس آنے اور سوالوں کے جواب دینے کی باتیں کرتے تھے‘ مگر انہوں نے اس پر ایک دن بھی عمل نہ کیا۔ پھر خان صاحب ریاستِ مدینہ کی بات کرنے لگے۔ اس سے بڑھ کر خوش کن بات کیا ہو سکتی تھی‘ ریاست مدینہ تو میثاقِ مدینہ کے ذریعے اپنوں کو ہی نہیں غیروں کو بھی ساتھ لے کر چلتی تھی‘ مگر اس پر بھی خان صاحب نے ایک روز کیلئے عمل نہیں کیا۔ اب ان کا تازہ ترین بیان ہے کہ میں چین کا نظام یہاں لاؤں گا۔ چین ہمارا انتہائی بااعتماد دوست ہے‘ مگر ہر ملک کا اپنا نظام اور اپنا دستور ہے۔ خان صاحب کبھی کہتے ہیں چین کا نظام لاؤں گا‘ کبھی کہتے ہیں اپوزیشن والوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ سب کو جیل بھیجوں گا اور جیل بھی عام آدمی والی۔ جناب! آپ کوئی شہنشاہ نہیں ہیں کہ واحد متکلم کا صیغہ غرور اور تکبر کے ساتھ استعمال کریں۔ یہاں پارلیمنٹ کی مرضی چلے گی فرد واحد کی نہیں۔
سپریم کورٹ بار کے نومنتخب صدر عبدالطیف آفریدی نے گزشتہ روز بڑی حکیمانہ باتیں کی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو گالم گلوچ کا کلچر ختم کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار اس سلسلے میں مشاورت کے بعد ثالثی کے حوالے سے اپنا ایجنڈا تیار کرے گی۔ حکومت اور اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ اس ایجنڈے کو خوش آمدید کہے۔جناب نواز شریف تو اچھی طرح جانتے ہیں اور عمران خان صاحب کو بھی جان لینا چاہئے کہ اناؤں کے تصادم سے خیر نہیں شر برآمد ہوتا ہے۔ دیوار پر لکھے اس انتباہ کوحکومت اوراپوزیشن جتنا جلدی پڑھ لیں گے اتنا ہی اُن کیلئے اور جمہوریت کیلئے بہتر ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں